مودودی نے جناح اور پاکستان کی مخالفت کیوں کی؟
یہ
تاریخ کا ایک کڑوا سچ ہے کہ جماعت اسلامی کے بانی مودودی نے قیام
پاکستان سے پہلے تصور پاکستان اور محمد علی جناح کی مخالفت کی اور پاکستان
بننے کے بعد بھی اپنے موقف پر قائم رہے۔ مودودی پر الزام ہے کہ انہوں نے
قائد اعظم کو کافر اعظم قرار دیا اور پاکستان کو ناپاکستان کہا اور پھر جب
پاکستان بن گیا تو بھی مودودی مسلسل قائد اعظم کی مخالفت کرتے رہے۔
مودودی
پاکستان بننے کے بعد بھی اپنے اس موقف پر قائم رہے کہ قائد اعظم نے ایک
قومیتی ریاست قائم کرنے کے پاکستان بنایا، اور وہ ایک اسلامی ریاست نہیں
بنانا چاہتے تھے۔ تاہم یہ بھی ایک سچ ہے کہ پاکستان کا قیام قومیت کی بنیاد
پر وجود میں آیا تھا، مذہب کی بنیاد پر نہیں۔
ماضی میں جناح اور انکے
تصور پاکستان کی مخالفت کرنے والی جماعتِ مودودی سے وابستہ افراد آج اس بات
کو جھٹلاتے ہیں کہ مودودی اور ان کی جماعت نے قیام پاکستان کے بعد
بھی محمد علی جناح کی مخالفت کی۔
تاہم تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جماعت اور اس کے قائدین پاکستان بننے کے بعد بھی تصور پاکستان اور قائداعظم کے مخالف رہے۔
چنانچہ یہ کہنا تاریخ کو جھٹلانے کے
مترادف ہے کہ پاکستان کے بنتے ہی جماعت اسلامی کی کایا کلپ ہو گئی تھی۔
ناقدین کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ مودودی کا جناح سے اختلاف ہی یہ تھا
کہ وہ خود کو قائداعظم کی ٹکر کا لیڈر سمجھتے تھے۔(مذہبی جماندرو مذہب کے نام پر سیاست کرتے ہیں )
جماعتِ مودودی کے
اکابرین کا موقف ہے کہ مودودی کے حوالے سے یہ جھوٹا پروپیگنڈہ تب
شروع ہوا جب پاکستان کے قیام کے بعد انہوں نے اسلامی نظام کے نفاذ کا
مطالبہ کیا۔
تاہم تاریخ کے پنوں پر نگاہ دوڑائی جائے تو صاف پتا چلتا ہے کہ جماعت ِ مودودی کا یہ مؤقف غلط ہے۔
آئیے تاریخی حوالوں سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا؟
جماعت ِ مودودی کے ترجمان ہفت روزہ ’کوثر ‘ نے پاکستان کے قیام کے تین ماہ بعد 16 نومبر 1947 کو اپنے اداریئے میں لکھا
”ہم اس تحریک کو آج بھی صحیح نہیں سمجھتے جس کے نتیجے میں پاکستان بنا ہے”
۔ روز نامہ انقلاب کے 9 اپریل 1948 کے شمارے کے مطابق مودودی نے جماعت ِمودودی لاہور کے اجتماع میں فرمایا:
”ہماری قوم نے اپنے لیڈروں کے
انتخاب میں غلطی کی تھی اور اب یہ غلطی نمایاں ہو کر سامنے آگئی ہے۔ ہم کب
سے چیخ رہے تھے کہ محض ان لیڈروں کے نعروں کو نہ دیکھو بلکہ ان کی سیرت اور
اخلاق کو بھی دیکھو۔ اس وقت لوگوں نے پروا نہ کی اور اب پچھتا رہے ہیں”۔
مودودی نے ترجمان القرآن میں اپنے جون 1948 کے اداریے میں لکھا:
”کسی ملک و قوم کی انتہائی بدقسمتی یہی ہو سکتی ہے کہ نااہل اور اخلاق باختہ قیادت اس کے اقتدار پر قابض ہو جائے“
۔اسی شمارے میں مزید لکھا گیا
”جونہی انگریز
اور کانگرس کی باہمی کشمکش ختم ہوئی۔ تو اس قیادت عظمیٰ نے اپنے آپ کو ایسی
حالت میں پایا جیسے اس کے پاؤں تلے زمین نہ ہو۔ اب وہ مجبور ہو گئی کہ جو
کچھ جن شرائط پر بھی طے ہو اسے غنیمت سمجھ کر قبول کر لیں۔ بنگال و پنجاب
کی تقسیم اسے بے چون و چرا ماننی پڑی۔ سرحدوں کے تعین جیسے نازک مسئلے کو
اس نے صرف ایک شخص کے فیصلے پر چھوڑ دیا۔ انتقال اختیارات کا وقت اور طریقہ
بھی بلاتامل مان لیا۔ حالانکہ یہ تینوں امور صریح طور پر مسلمانوں کے حق
میں مہلک تھے۔ انہی کی وجہ سے ایک کروڑ مسلمانوں پر تباہی نازل ہوئی اور
انہی کی وجہ سے پاکستان کی عمارت روز اول ہی سے متزلزل بنیادوں پر اٹھی“۔
چنانچہ
نوائے وقت کے مدیر حمید نظامی نے 4 جولائی 1948ء کو نوائے وقت میں ایک
جوابی اداریہ لکھا۔
”ہم ان لوگوں کے حامی نہیں جو محض اپنی لیڈری
چمکانے کے لیے شریعت کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ شہر بہ شہر
جلسوں میں قائداعظم کو گالیاں دینے اور سوقیانہ تقریروں میں وقت ضائع کرنے
کی بجائے اس اسلامی نظام حکومت کا ایک خاکہ مرتب کیا جائے جس کے نفاذ کا
مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔“
مودودی نے ترجمان القرآن کے شمارہ
جولائی 1948ءمیں لکھا
”مسلمانوں نے اپنی ساری قومی طاقت، ذرائع اور جملہ
معاملات اس قیادت کے سپرد کر دیے جو ان کے مسائل کو حل کرنے کی دعویدار
تھی۔ دس برس بعد اس کا پورا کارنامہ ہمارے سامنے ہے۔ جو کچھ ہو چکا وہ تو
ان مٹ ہے۔ البتہ اس پر بحث کرنا ضروری ہے کہ جو مسائل اب ہمیں درپیش ہیں ۔
کیا ان کے حل کے لیے بھی وہی قیادت موزوں ہے جو اس سے پہلے ہمارے قومی
مسئلے کو اسی طرح حل کر چکی ہے۔ آج ہمارے بیشتر مسائل اسی قیادت کی
کارفرمائیوں کے نتیجے میں پیدا ہوے ہیں، تو کیا انہیں حل کرنے کے لیے ہم
اسی قیادت پر اعتماد کریں“۔
اس اداریے کے جواب میں حمید نظامی نے
31جولائی 1948 ءکو اداریہ لکھا اور کہا
”حضرت مودودی نے دس سال کے عرصے میں
پہلی مرتبہ دل کی بات کھل کر کہی اور صاف لفظوں میں مسلمانوں سے کہا کہ
محمد علی جناح کی جگہ مجھے قائداعظم مانا جائے۔ اب صرف اتنا کرم فرمائیں کہ
مسلمانوں کو یہ بتا دیں کہ آپ کا ٹھوس سیاسی پروگرام کیا ہے اپنا پروگرام
نہ بتانا اور نعروں سے مسلمانوں کا دل بہلانا یا قائداعظم کو احمق ، غلط
کار اور دین میں ہلکا ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے رہنا ہرگز آپ کے شایان
شان نہیں۔ قائداعظم کا ریکارڈ قوم کے سامنے ہے۔ آپ کو ابھی قوم نے آزمانا
ہے۔ آپ قائداعظم کو ہزار گالیاں دیجئے ۔ مسلمان آپ کے دست مبارک پر بیعت
کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔“
الاعلیٰ کے ابو مودودی نے 9 اگست
1948ءکو جھنگ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ
”مسلم لیگ کی جنگ کفر و اسلام کی
جنگ نہیں تھی۔ مسلم لیگ نے اب تک یہ نہیں کہا کہ پاکستان کا خطہ اس لیے
حاصل کیا گیا کہ وہاں اسلامی خلافت چلائی جائے گی بلکہ یہ قومیت کی جنگ
تھی۔ قومیت کی جنگ کو اسلام کی جنگ سے کوئی واسطہ نہیں۔ مسلم لیگ کی
قراردادوں کا جائزہ لیجئے ۔ لیگ نے آج تک تسلیم نہیں کیا کہ پاکستان میں
شریعت کا نفاذ ہو گا“۔
اس کے جواب میں نوائے وقت نے 18اگست 1948ء کو
اداریہ سپرد قلم کیا اور کہا کہ
”پاکستان میں آپ کو ایسے لوگ بھی مل جائیں
گے جن کی تقریر و تحریر کا زور یہ ثابت کرنے پر صرف ہو رہا ہے کہ مسلمانوں
کی اس مصیبت کی ذمہ داری قائداعظم کی لیڈرشپ پر عائد ہوتی ہے۔ قائداعظم نے
پے در پے مہلک غلطیاں کیں اور مسلمانوں کو تباہی و بربادی کے اس غار میں لا
پھینکا جس کا نام پاکستان ہے“۔
ایک ہفتے بعد 25 اگست 1948 کو نوائے وقت
کے اداریے میں حمید نظامی نے لکھا کہ
”بظاہر جماعت اسلامی کہتی ہے کہ ہم
قائداعظم کے خلاف پراپیگنڈہ نہیں کر رہے ۔ لیکن معاف کیجئے یہ بیان صحیح
نہیں ہے۔ مسلمانوں کی موجودہ قیادت کو مسلمانوں کی تباہی کا ذمہ دار
ٹھہرانا دراصل قائداعظم اور صرف قائداعظم کی ذات ہی پر حملہ ہے“۔
واضح
رہے کہ حمید نظامی نے یہ اداریہ قائد اعظم کی وفات سے ٹھیک دو ہفتے قبل
لکھا تھا۔ تاریخ کے ان چند حوالوں سے واضح ہو جانا چاہیے کہ جماعتِ مودودی
اور مودودی نے نہ صرف یہ کہ مطالبہ پاکستان کی مخالفت کی، بلکہ
پاکستان بننے کے بعد بھی جماعت اور مودودی جناح کی مخالفت کرتے رہے۔
اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مودودی پاکستان بننے کے بعد بھی
اس موقف پر قائم رہے کہ قائد اعظم ایک قومیتی ریاست قائم کرنے کے لئے
پاکستان بنانا چاہتے تھے اور پاکستان میں شریعت کا نفاذ ان کا مقصد نہیں
تھا۔
تاریخ کے اوراق میں محفوظ یہ حقائق ثابت کرتے ہیں کہ جماعت اسلامی
اور اس کے قائدین پاکستان بننے کے بعد بھی تصور پاکستان اور قائداعظم کے
مخالف رہے۔ چنانچہ یہ کہنا تاریخ کو جھٹلانے کے مترادف ہے کہ پاکستان کے
بنتے ہی جماعت اسلامی کی کایا کلپ ہو گئی تھی اور مولانا مودودی نے جناح کی
قیادت کو تسلیم کر لیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں