Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 27 ستمبر، 2023

نیشنل سروس، فوجی تجربہ کارملازمین کا تسلسل

"سر ، میں پرموشن نہیں لوں گا ۔  17 سال پہلے اپنے بہترین مستقبل کی خاطر میٹرک کرکے ، فوج میں جسمانی مقابلے کے بعد میرٹ پر بھرتی ہونے والا 35 سالہ سٹاف کار ڈرائیور بولا۔بوڑھے کے ساتھ جانے والا جی ڈی سپاہی بولا،" سر مجھے بھی کسی سکیورٹی کمپنی میں سکیورٹی گارڈ  کی ملازمت مل جائے گی "۔

فیڈرل فوجی تجربہ کار ملازمین کا ، کلر سروس کی تکمیل کے بعد 60 سال کی عمر تک  سروس کا  تسلسل

" میری ماں بوڑھی ہے ، دو بہنیں ہیں ، پہلی  دو بچوں کے ساتھ ماں کے پاس گھر بیٹھی  ہے اور دوسری  کی  شادی کرنا ہے -ریٹائرمنٹ کے بعد کمیوٹیشن سے سوزوکی وین لوں گا ، اسے کسی پرائیویٹ سکول کے ساتھ لگا دوں گا ۔ خود ہی چلاؤں گا تقریباً 50 سے  60 ہزار روپے مہینہ مل جائے گا  اور گھر کے استعمال میں بھی آئے گی "- 

یہ وہ خواب ہے جو ایک ماہر سٹاف کار فوجی  ڈرائیور نے18 سال کلر سروس پورے ہونے پر   مجھے گوادر ائر پورٹ سے آتے ہوئے بتایا ۔ میں  نے کار کی کھڑکی سے باہر چٹیل میدان کو دیکھتے ہوئے ، جو سارا ڈبل شاہ کے ،رقم ڈبل کروانے والے پیروکاروں نے کوسٹل ھائی وے ، ھیمر ھیڈ  ،تو کیا پورے گوادر کو بیچ دیا ۔جن کے خریدارکئی پنشنرز بھی تھے اور  سے اپنے لاکھوں روپوں کو کروڑوں میں تبدیل ہونے کے منتظر ہیں ۔  گارڈ نے بتایا ، "سر میں کسی سکیورٹی ایجنسی میں ملازمت کر لوں گا" ۔

بوڑھے کے  فہم کے مطابق دونوں  اپنے فیلڈ میں ،تربیت یافتہ ، ماہر منتظم  اور پُرجوش بھی تھے ۔اور مزے کی بات کہ کہ فوج کے کاغذات میں اغنیاء  کی رائے میں ، سخت مشقت طلب فوجی نوکری کے بعد دونوں اِس  محنت کے کام سے مزید ملازمت کے لئے " بے کار" ہو کر  ہوجائیں گے  ۔

بوڑھا  اپنے ساتھ 1994 میں سیاچین  پر  ملازمت کرنے والے ، انفنٹری کے  50 سالہ چٹے اَن پڑھ سپاہی ریاض کو بھی جانتا ہوں ، جو اپنے بزنس کی تباہی کے بعد راج مزدور کی ملازمت کرنے کے بعد اب تفتان کی تیل کمپنی میں 50 ہزار ماہانہ پر سیکیورٹی گارڈ  ہے وہ جب بھی چھٹی آتا ہے ، تو بے کار نہیں بیٹھتا  15 سو روپے روزانہ کی دیہاڑی پر اڈیالہ روڈ پر مزدوروں کے ساتھ  گروپ میں شامل ہو کر مزدوری پر  اپنے    ایف ایس سی پری میڈیکل  69٪ نمبر لینے  والے  19 سالہ  حافظ القرآن بیٹے کے   ساتھ نکل جاتا ہے ۔

بوڑھے نے پوچھا ریاض، اِس نے کمیشن کے لئے ایپلائی کیوں نہیں کیا۔تلخی سے جواب ملا ، سر کمیشن  تو صرف آپ لوگوں کے لئے ہے۔ہم تو پڑھ کر بھی محنت اور مزدوری کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ بوڑھے کو ایک شدید جھٹکا لگا ۔ سپاہی سے حوالدار  پنشنرز سے معلومات لیتے ہوئے بوڑھے نے کئی جھٹکے کھائے ۔ جس کا جواب بوڑھے کے پاس نہیں ہوتا تھا ۔لیکن خیالی پلان بہت ہوتے جن پر بوڑھا اپنی بساط کے مطابق عمل کرتا ، بیوی اور بچوں کی گھرکیاں کھاتا ۔

 میں نے سٹاف کار کے  ڈرائیور سے   پوچھا،" اگر سوزوکی نہ خریدو اور سول میں ڈرائیور  کی ملازمت کر لو تو  کیا تنخواہ ملے گی"؟ ۔ جواب دیا ۔" 40 ہزار روپے  "۔ میں نے سوال کیا ۔"اگر   آپ کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تو "؟ وہ یک لخت بولا۔" سر میں صبح سے آپ کے ساتھ ہوں۔ آپ نے  میری ڈرائیونگ میں کوئی نقص نوٹ کیا "۔" بالکل نہیں "میں نے جواب دیا ، " لیکن فرض کرو اگر ایسا ہوا۔ تمھاری واحد کفالت کا ذریعہ    تمھاری گاڑی تباہ ہوگئی  اور تمھاری زندگی بچ گئی  تو ؟   "وہ روھانسا ہو کر بولا ،  " سر یہ تو نصیب کا کھیل ہے۔ میں کیا کر سکتا ہوں ؟ " لیکن نصیب کی اِس سرنگ میں آپ خود گھسے ہو ۔اگر اتنا ماہر تجربہ کار ، سٹاف کار کا ڈرائیور، اِس نصیب سے بچ جائے تو کیسا ؟ اِس  70 سالہ بوڑھے نے اُسے  بزنس کے سمندر کے مددوجزر کے ذاتی تجربے سے روشناس  کروایا۔ جہاں بہترین شکار کے ساتھ بڑے بڑے مگر مچھ بھی تھے ، وہ  متفق ہوا یا نہیں ۔ لیکن اُس نے جو سوال پوچھے۔ اُس کا جواب  بخوبی  دیا ۔

  سب سے پہلے اپنے گھر کا کچن محفوظ کرو ۔ وہ اِس طرح کہ کمیوٹیشن قومی بچت پنشنر بینیفٹ اکاؤنٹ میں ڈالو۔ جہاں سے ہر مہینہ آپ کو ایک لاکھ پر دس سال تک 1380 روپے اور 15 لاکھ پر 20،700 روپے کچن چلانے کو ملیں گے ۔ آپ کو اے ٹی ایم کارڈ ملے گا ۔ آپ منافع نکلوائیں ۔ آپ کی کمیوٹیشن محفوظ ۔ آپ کا کچن محفوظ ۔ پنشن یقیناً آپ کو 20،000روپے ملے گی۔ کل 40،000 روپے آپ کی کلر سروس کی کمائی ۔ جتنے بھی ڈبل شاہ رقم کو بڑھانے کے لئے ، نیکر پہن کر بزنس کے سمندر میں چھلانگ کر کودنے کا کہیں گے ،وہ آپ کے لائف گارڈ نہیں ۔وہ اپنے فائدے کے لئے آپ کو ڈبو دیں گے ۔ لہذا گھر کے نزدیک ملازمت کریں ۔ یابڑے شہر میں آپ کی مرضی ۔ آپ ڈبل شاہ سے بچنے کے لئے ، اپنی یا اپنے رشتہ داروں کی بچت کی رقم ، اپنے پنشنر بینیفٹ اکاؤنٹ کے اِس اکاؤنٹ میں 75 لاکھ تک رقم جمع کرواسکتے ہیں۔ نیشنل سیونگ کے علاوہ کوئی ادارہ آپ کا ہمدرد نہیں ۔بنک ڈوبے، آپ کی رقم ڈوبی ۔ نیشنل سیونگ حکومت کے ساتھ ڈوبے گا ۔

میں نے  ڈرائیورسے پوچھا، "نوجوان  باقی فیڈرل ملازمین کی طرح آپ کو  مزید 60 سال نوکری کا کہا جائے اور آپ اپنا کام اِسی طرح کرتے رہیں اور ریٹائرمنٹ تک آپ کو سول ملازمین کی طرح گریڈ   اوپر والے گریڈ میں پروموشن ملتی رہے اور آپ اپنے ڈسٹرکٹ ہی میں  ملازمت کریں  تو کیسا رہے ؟" 

اُس نے حیرانگی سے پوچھا ۔"   سر  کیا ایسا ہو سکتا ہے ؟"۔ گارڈ نے کہا،" سر مجھے اگر میرے گاؤں  کے بنک میں گارڈ کی ملازمت  مل جائے تو   آپ کا احسان ہوگا "۔

بوڑھے کو یاد ہے کہ تمام فوجیو ں کا ڈسٹرکٹ لیول تک تما م سول اداروں  میں آئین کے مطابق 10٪ کوٹہ ہے ۔ جسے استعمال نہیں کیا جاتا ۔ جبکہ یہ صرف ، مخصوص  آفیسروں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ 

 مقصد:

فوج سے تجربہ حاصل کئے      جی ڈی سپاہی سے حوالدار  تک کے فیڈرل ملازمین کو کلرسروس کا معاوضہ  (  تنخواہ  منفی پنشن ) دے کر  اُسے   مزید 60 سال تک ملازمت کروائیں تاکہ  اُس کی حاصل کردہ تربیت اور اُس تربیت کو سول انوائرمنٹ میں سنوار کر پاکستان کی ترقی میں مثبت کردار ادا کروا کر  مذہب کی بنیاد پر بننے والی اِس دوسری ریاست میں ناممکن کو ممکن بنوائیں  ۔

وضاحت :

70 سالہ بوڑھا، جب بھی عسکری 14 سیکٹر ڈ ی سے والک کے لئے نکلتا  ہے تو عسکری گارڈ سے ضرور مل  کر اُن کا حال احوال ، تنخواہوں اور دوسری مشکلات کا پوچھتا ہے اوراُن کا موازنہ اُنہیں کے گریڈ کے  فیڈرل ایمپلائز  سے کرتاہے ، جو کوئی قابلیت یا ہنر نہ ہونے کے باجود اپنی ملازمت کے 60 سال پورے کرکے گریڈ-1  سے ترقی کرتے تنخواہوں میں موو اور لیتے  ہوئےریٹائر ہو جاتے ہیں ۔ اُس وقت تک تقریباً اُن کےسارے یا کم از کم 50 فیصد بچے ملازمت پر لگ چکے ہوتے ہیں ، وہ اپنے 5 یا 7 مرلے کی دو یا تین منزلہ " کوٹھی" بنا چکے ہوتے ہیں ۔بیٹیوں کی شادی ہوجاتی ہے ۔اور وہ اپنے گاؤں میں آباد ہو جاتے ہیں ۔لیکن اُن کے ذہن کے گوشے میں یہ ضرور سوچ ہوتی کہ " فوجی" خیرمن " سویلیئن ہوتا  ہے "۔لیکن اُسے بے کار سمجھ کرملازمتی  دھارے  سے کیوں نکال دیا  جاتا ہے ؟؟

فروری 2021 میں جب اسلام آباد آنسو گیس کے دھویں میں  دوسرے جنگ عظیم کا منظر پیش کر رہا تھا ۔ اُس وقت سے آج تک  بطور ویٹرن  بوڑھے  نے  فیڈرل ملازمین (سویلیئن  اور ڈیفنس فورسز )   کے درمیان معاشی  جدو جہد کی گہری خلیج دیکھی ہے ۔جو 18 سال میں ایک تربیت یافتہ فوجی سپاہی کے ریٹائر ہونے اور اُسی گریڈ کے 60 سال بعد ریٹائر ہونے سے پیدا ہو جاتی ہے ۔

بوڑھے  کوعلم ہے کہ فوج میں انٹیلیجنس رپورٹ کی بنیاد پر اِس میں لازماً  فوجی ہمدردی کی بنیاد پرکوششیں   ہوئی ہوں گی ۔اغنیاء کے گروپ میں اِس بھاری پتھر کو ہلایا گیا ہوگا لیکن پھر " ناممکن " قرار دے کر چھوڑ دیا ہوگا اور یہ خلیج  اپنی وسعت بڑھاتی جا رہی ہے ۔

کیا پاکستان کی ترقی کے لئے  ویٹرن   اِس خلیج  کو پاٹنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ 

جب کہ فوج  پر الزام ہے کہ حاضر سروس  آفیسروں نے ملٹری انکارپوریٹ بنا لی ہے  یا پاکستا ن ایک گیریژن سٹیٹ ہے یا  پاکستان کی فوج اسلامی فوج نہیں  اور سب سے کڑوا الزام کہ تمام ریٹائرفوجیوں  کو تنخواہ  ڈیفنس بجٹ سے ملنا چاھئیے ۔ فیڈرل بجٹ سے نہیں ،  کیوں ؟ کہ    پرویز مشرف کا     بنایا ہوا قانون ،فیڈرل ملازمین  کے بجٹ پر ڈاکہ  ہے ۔
٭۔ آپ (ریٹائرڈ فوجیوں ) کو پنشن کی کیا ضرورت ؟

٭۔ آرمی ھاؤسنگ کے گھر ، ڈی ایچ اے کے پلاٹ ،زرعی  رقبے  ۔ اِس پر ستم کہ میجر صاحب ، آپ پنشن بھی بڑھوانے پر زورد دینے آئے ہیں؟

یہ الفاظ ، مزاح میں پے اینڈ پنشن کمیشن  کے ایک ممبر  جائینٹ سیکریٹری  سعد فضل عباس  نے محترمہ ندرت بشیر کی صدارت میں 10 فروری 2022  کو کہسار بلاک کے کمیٹی روم میں کہے ۔ میں نے نہایت سکون سے جواب دیا ۔ سر اللہ کا احسان ہے کہ یہ سب  15 مختلف  علاقوں کی پوسٹنگز میں ، مجھے میری 23 سالہ سروس جو میں نے کشمیر، این ڈبلیو ایف پی ، بلوچستان ، سندھ اور سیاچین کے منفی 40 درجےسرد پہاڑوں پر اپنے جوانوں کے ساتھ گذارے ۔ جبکہ فیڈرل سول ملازمین نے ائر کنڈیشن کمروں میں پورے 60 سال بڑے شہروں میں گذار دئیے ۔ اُن کے بچے جس سرکاری گھر میں پیدا ہوئے ، وہاں پلے ، بڑے ہوئے اور اب اسی گھر میں اُسی محکمے میں ملازم ہو کر اپنے والدین کے ساتھ رہ رہے ہیں۔

لیکن  سر میں یہاں اپنے لئے نہیں آیا۔ بلکہ  سیاچین میں اپنے خدمت گذار بیٹ مین ،  اَن پیڈ لانس نائیک محمد بوٹا کے لئے آیا ہوں۔ جو لاہور سے پنشن پر جانے کے بجائے میرے ساتھ سیاچین ضد کرکے اِس لئے آیا کہ نومبر 1976میں وہ مجھے بطور  بیٹ مین  ، کمیشن لینے کے بعد یونٹ جائن کرنے پر ملا تھا ۔ وہ ٹرانزٹ کیمپ راولپنڈی کے بجائے ، اپنے صاحب کے ساتھ اپنی سروس کے آخری دو ماہ گذارنا چاہتا تھا  ۔ 2018 میں اُس نے مجھے تلاش کرکے مجھے فون کیا۔ سر مجھے کہیں  ملازم رکھوادو  یا اپنے گھر میں چوکیدار رکھوادو۔کیوں کہ بہو کہتی ہے،" بابا تو نوکری تلاش کرلے تیری پنشن کم ہے اور تو روٹیاں بہت کھاتا ہے" ۔ جناب جائنٹ سیکریٹری  سر ،یہ الفاظ نہیں نشتر تھے ۔ کیا آپ کا گریڈ-1 کا گھریلو  ملازم        70 سالہ ملازم  مہنگائی کہ وجہ سے گیٹ پر چوکیدار رہنے کی خواہش کر سکتا ہے ۔ نہیں ؟ آپ اُسے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی نہیں چھوڑیں گے ۔کیوں کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ گریڈ 20 میں جائیں گے  ۔ اور اُسے اپنے ساتھ رکھنے  کی تنخواہ پائیں  گے ۔وہ اپنی بیٹیوں کی شادی اور بچوں کی یونیورسٹی میں تعلیم  گورنمنٹ ایمپلائز ویلفیئر فنڈ سے رقم لے کر دلوائے گا اور اُس کا بیٹا یا بیٹی اُسی یا اُس سے اونچے گریڈ میں ملازم ہوکر وہی گھراپنے لئے الاٹ کروالے گا جہاں  60 سال سے اُس کی ماں اوربہن بھائی رہتے تھے ۔
کیوں کہ وہ  آپ کے ساتھ ،اپنی   40 سالہ کارکردگی کی وجہ سے  ،یہ سب کچھ حاصل کرتا ہے 

 جبکہ سپاہی محمد بوٹا کو 18 سال بعد  36 سال کی عمر میں ، صرف بیٹ مین  (گھریلو ملازم)  کا تجربہ رکھنے کے باوجود بے کار قرار دے کر گھر بھجوادیا جاتا ہے ۔ جب کہ اُس کا تجربہ  اُسی گریڈ کے سویلیئن مالی ، سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے ۔ آپ   پنشن  ضرور بڑھائیں لیکن  20 سال پہلے ریٹائر ہونے والوں کی  5فیصد نہیں بلکہ 35 فیصد،  تاکہ وہ بھی بڑھاپے میں اپنی زندگی کی گاڑی گھسیٹ سکیں ، ورنہ اِس مملکت کا نام ،اسلامی جمہوریہ پاکستان سے بس صرف پاک استھان رکھ دیں ۔

ملک کی خاطر قربانی  دینے کے لئے ، بنائے ہوئے اھرام پر   کلر سروس  کی تکمیل کے پرچم لپیٹ کر،  فالتو اینٹوں کے ڈھیروں کی صورت میں  روٹی کپڑا اور مکان  کی تپتی دھوپ بچنے کے لئے  ،سویلیئن سے بہترین تجربے کے باوجود  ساھوکاروں کے ملازم ہو جاتے ہیں ۔کلر سروس کی آڑمیں ہٹائے جانے والا یہ چھپر ملکہ ءِ برطانیہ کی یاد گار ہے ۔ 

    آئینِ پاکستان کے مطابق ، آئین پاکستان کی رو سے،سیشن کورٹ سے سپریم کورٹ کے ججز ،  قومی و صوبائی اسمبلی  کی ممبران اپنی مدتِ خدمت پاکستان بڑھانے کے لئے ، اپنی عمر کی لاغرترین حد تک کھینچ کر لے جاسکتے ہیں ۔ لیکن کلر سروس کا پرچم لپیٹنے والے اھرام کی اگلی سیڑھی پر قدم رکھنے کے لئے ۔ آئین پاکستان کے محتاج ہیں ۔کیوں کے 36 سال عمر کا سپاہی اتنا لاغر ہوچکا ہوتا ہے کہ اُسے پنشن دے کر گھر بھیج دیا جائے ۔ تاکہ نیا خون اُس کی جگہ لے سکے۔

    جودوران ملازمت سیفٹی  جیسے آگ سے بچاؤ ۔ہیلتھ  ایڈ منسٹریشن ۔ سیلاب سے بچاؤ ۔ ہنگامی  حالات میں عوام کی سیکیورٹی  کی   پریکٹیکل   ،تربیت  بطور نائیک ، حوالدار  اور سردار صاحبان حاصل کی ہوتی ہے وہ ضائع ہو جاتی ہے اور یہ  نان کمیشنڈ ، جونئیر کمیشنڈ اور کمیشنڈ     ریٹائرڈ   فوجی  اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لئے کسی، فرنچائز سٹور پر یا کسی سیکیورٹی کمپنی میں گارڈ لگ جاتے ہیں جن کی آدھی تنخواہ سے کمپنی کا مالک موجیں اُڑاتا ہے یا پھر یہ پراپرٹی ٹائیکون  کی ملازمت کرنے لگ جاتے ہیں اور پیٹ کی خاطر اُن کے غیر قانونی کاموں میں اُن کا ساتھ دیتے ہیں ، جو فوج جیسے ادارے کی بدنامی کا باعث بنتا ہے اور بن رہا ہے۔

اِس مہنگائی کے دور میں سارے  گریڈ 1 تا 14 کے پنشنرز  (ڈیفنس فورسز اور سول آرمڈ فوروسز) پریشان ہیں ، کہ وہ کیسے اپنی باقی زندگی کو معاشی دلدل سے گھسیٹ کر نکالیں؟

تنگ دستی اور پریشانیوں کی اِس آزمائش میں  وہ سوچتے ہیں کہ حکومت کیوں اُن کی طرف توجہ نہیں دیتی   ،  ملازمین کی تنخواہیں ہیں کہ وہ بڑھتی جارہی ہیں ، ممبرانِ قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی  کے وظیفے  کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں اور وکالت کی پر پیچ گلیوں سے گذر کر ، انصاف کا ترازو سنبھالنے والی مسند پر بیٹھنے والے ۔ آئین کے آرٹیکل   کا سہارا لے کر اپنی تنخواہیں ، الاؤنسز اور پنشن اتنی بڑھا چکے ہیں کہ گریڈ 1 کا ملازم  ، مہنگائی کے بوجھ تلے دب چکا ہے ۔ 

آپ لوگ حیران ہوں گے کہ مہنگائی کا  افسران کی تنخواہوں سے کیا تعلق ؟

کہتے ہیں نا ،  مالِ مفت  دل بے رحم ۔
اگر اِس مال مُفت  میں بے تحاشہ اضافہ نہ ہوتا تو مہنگائی کا منہ زور گھوڑا بے لگام نہ ہوتا ۔ 

ڈالر  بہت اونچا چلا گیا ؟ مہنگائی تو ہو گی نا ۔پیٹرول مہنگا ہوگیا  ہے مہنگائی  تو ہوگی ۔یہ جملہ ہر حکومتی شاہ پرست کےمنہ سے نکلتا ہے ۔

ایتھوپیا جیسے غریب ملک میں ڈالر لے کر  پھرنا جرم ہے، صرف غیر ملکیوں کو اجازت ہے ۔ لیکن وہ ڈالر بیچ نہیں سکتے ۔تمام ملیں اور فرمیں  جتنے ڈالر کا سامان باہر ملکوں کو بھیجیں گی ۔ اُتنے کا خام مال ملک میں لا سکتی ہیں ۔  اور ملوں میں بننے والا تما م سامان صرف 35٪ باہر بھیجا جاسکتا ہے باقی تمام ایتھوپیا میں بیچا جائے گا ۔  اگر ملک کو ضرورت نہیں  تو مت بناؤ ۔ اگر ملکی کہتے ہیں مہنگا ہے تو سستا بیچو ۔

لہذا ڈالر جتنا مرضی اونچا جائے  ، مہنگائی  نہیں ہوتی ۔کیوں کہ وہاں منی چینجر نہیں ۔وہاں ایک فیملی ایک گھر کا قانون ہے ۔عدیس  ابابا میں ، آبائی گھروں میں اضافی کمرے بنا کر  غیرملکیوں کو کرائے پر دیئے ہوئے ہیں ۔ یا پھر دوسرے  یورپی اور مغربی ممالک  میں جانے والوں نے اپنے گھر کرائے پر لگائے ہوئے ہیں ۔ ڈالروں میں نہیں ، مقامی کرنسی میں  کیوں کہ 2000 ڈالر سے زیادہ لے کر عدیس ابابا  میں کوئی داخل نہیں ہوسکتا ۔ وہاں رشوت نہیں ۔

بطور پنشنرز میں نے وہاں  گریڈ 1 تا 14 کے پنشنرز کو خوشحال پایا ۔کیوں کہ وہاں سب  دکاندار ٹیکس دیتے ہیں ، یہاں تک کہ  اپنے گھرمیں بنائی ہوئی دکان  کا مالک بھی کچی رسید نہیں دے سکتا ۔ہینڈ ہیلڈ مشین سے پرنٹ نکالے گا ۔ جس کا حساب کتاب قومی ڈیٹا میں جمع ہوجائے گا ۔

پاکستان کے لوگوں یعنی جمہوری عوام کےسیاسی  تریا چلتروں سے روکنے کے لئے ، باالآخر انصاف کے سب سے بڑے عہدے پر بیٹھنے والے چیف جسٹس کو  ڈیفنس سیکریٹری سے پوچھنا پڑتا ہے کہ  پنشن بجٹ  کا زیادہ حصہ ڈکارنے والے ریٹائر فوجیوں     کے لئے،میں   آپ کو حکم دیتا ہوں کہ وہ  مملکتِ خدادا  پاکستان  میں  سیکیورٹی اور سیفٹی کے لئے حکومت کی مدد کریں ! کیوں کہ فیڈرل اور پراونشل بجٹ سے تنخواہیں لینے والے حکومتِ پاکستان کے نمائندے ناکافی اور ناقابل ِ اعتبا رہیں۔

 سروس بڑھانے کا آئینی  طریق کار  ۔

آئینِ پاکستان کے مطابق ، آئین پاکستان کی رو سے، موجودہ نگران حکومت سے درخواست کی جائے ۔  کہ  صدر محترم سے  درخواست کی جائے ، کہ تمام  فیڈرل و پراونشل   بجٹ سے تنخواہ پانے  والے  ملازمین  (ڈیفنس فورسز و سول آرمڈ فورسز ) کی کلر سروس کے تکمیل کے بعد اُن کو ریٹائر کرنے کے بجائے مزید 60 سال تک  فیڈرل و پراونشل  ملازمت میں رہنے دیا جائے ۔اُن کی خدمات کو مملکتِ پاکستان   کے لئے ۔ نیشنل سروس کور (فیڈرل اور پراونشل )کا قیام عمل میں لایا جائے ۔

جس کے نکات مندرجہ ذیل ہوں  ۔

  ٭۔(پاکستان آرمی، نیوی اور ائر فورس  ایکٹ )  کے ہی زیر سایہ  منسٹری آف ڈیفنس  کےماتحت  ، چئیر مین جائینٹ چیف  کے زیر نگرانی ہو کیوں کہ اِس میں تینوں افواج کے    افراد شامل ہوں   ۔

٭۔ تمام ملازمین عصائے موسیٰ پر لگی ہوئی  چھتری  ( ملٹری ایکٹ ، آفیشل سیکریٹ ایکٹ )   تلے  عمل کریں ۔ کیوں کہ سول سرونٹ ایفی شینسی ایکٹ، سیلف ڈسپلن کےبغیر حکومت  پاکستان کے سول ملازمین   اور سٹیل مل کے سیاسی ملازمین میں کوئی فرق نہیں رہتا۔

 ٭۔    پاکستان نیشنل سروس کور   کا دائرہ کار تحصیل کی سطح  تک جائے - جہاں   تحصیل میں کمپنیوں اور ضلع میں بٹالین  قائم کی جائیں ۔اور اُسی ضلع کے ڈومیسائل فوجی پوسٹ کئے جائیں۔

 ٭۔ منسٹری آف ڈیفنس  ۔  گورنمنٹ سے ہر تحصیل و ضلع  میں ۔ زمین لے جہاں۔بیرکس ۔ میڈیکل سنٹر۔ ہسپتال ۔سکول،ٹیکنیکل و پروفیشنل  سکول  ،ٹریننگ ایریا ۔ بچوں کے لئے سپورٹس   کی سہولیات  بنائی جائیں۔جس کے لئے آرمی ویلفیئر ٹرسٹ اور فوجی فاونڈیشن کی خدمات لی جائیں ۔

٭۔آرمی آفیسرز ھاؤسنگ  کی طرز پر نیشنل سروس ھاؤسنگ   کا قیام عمل میں لایا جائے اور  تمام  نیشنل سروس  کے لئے آپشن  دینے والے  ملازمین کو   پانچ ، سات اور دس مرلے کے مکان، اُن کے مستقل  ایڈریس کے علاقے میں   کرائے پر جائیں   ۔ جو اپنی کلر سروس مکمل ہونے کے بعد نیشن سروس میں شامل ہونے کے بعد انہیں     الاٹ  کر دیئے جائیں  اور کرایہ ختم کردیا جائے  ۔ یہ مکان نہ تو   سویلیئن کو بیچے جائیں اور نہ کرائے پر دیئے جائیں ۔کوئی بھی رشتہ دار اِن مکانوں میں ، مہینہ سے زیادہ نہ رہ سکے ۔    فوجی یا  اُس کی بیوہ کے فوت ہونے  بعد  یہ گھر ، پنشن قوانین کی طرح وارث  ( بیوی ، غیر شادہ شدہ بیٹی  یا سپیشل  بچوں )کو  ٹرانسفر کر دئیے جائیں۔ وارثین کے پاکستان میں کہیں اور گھر بنانے کی صورت میں اِن کی لیز ختم ہوجائے اور یہ نیشل سروس کے پاس واپس ہوجائیں ۔ نیشنل سروس میں نہ شامل ہونے والوںکو یہ مکان  60 سال بعد ملیں ۔ 

٭۔  کلر سروس مکمل کرنے  کے بعد نیشنل سروس  میں شامل  ہونے یا نہ شامل ہونے والوں کو پنشن کمیوٹیشن 60 سال بعد ملے ۔،  کلر سروس مکمل   ہونے کے بعد ،اُن کی پنشن کی یہ رقم قومی بچت  کے پینشنرز بینیفٹ اکاؤنٹ میں  رکھی جائے ۔تنخواہ کے علاوہ ،جس کا منافع  اُنہیں ہر ماہ ملے ۔اکاونٹنٹ جنرل آف پاکستان  تمام کنٹریکٹرز کو پابند کرے کہ وہ تمام تعمیراتی قرضے قومی بچت کے ادارے سے لیں ۔ تاکہ اُن کا منافع بڑھے ۔

٭۔  کلر سروس مکمل کرنے  کے بعد ملازمین  کی تنخواہ ( پنشن جمع تنخواہ ) جاری رکھی جائے  اور اُس میں فیڈرل ملازمین کے قوانین کے برابر سالانہ اضافہ و  الاؤنس  ملیں - نیشنل سروس پنشن ایبل نہیں ہوگی ۔   

٭۔وزارت داخلہ کے ماتحت  سول آرمڈ فورسز کے کلر سروس مکمل کرنے والے، نیشنل سروس کے ماتحت ادارے سول ڈیفنس میں شامل کر لئے جائیں ۔  

٭۔کسی بھی ڈیفنس فورس یا سول آرمڈ فوسز  کے ریٹائر ہونے کے بعد کسی بھی  فوجی یا سی اے ٖ  ایف ملازم  کی سکیورٹی ایجنسی میں ملازمت غیر قانونی تصور کی جائے گی ۔تمام گورنمنٹ بنکوں اور مالیاتی اداروں میں ، نیشنل سروس کے ملازمین سکیورٹی گارڈ رکھے جائیں اور اُن کی تنخواہ   صرف نیشنل بنک کے  نیشنل سروس  اکاؤنٹ میں جمع کروائی جائے ۔جہاں سے وہ تنخواہ اے ٹی ایم سے  ہر ماہ وصول کریں ۔

٭۔میرا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ سویلئن گارڈز کو نکال دیا جائے ۔ بلکہ اُنہیں بھی نیشنل سروس کی  سول ڈیفنس    برانچ میں  سول ڈیفنس  سکیورٹی  گارڈ ملازم رکھ لیا جائے ۔کیوں کہ بنک سے سیکیورٹی کمپنی کو گارڈ کی مد میں دی جانے والی رقم  آسانی سے دونوں میں تقسیم کی جاسکتی ہے ۔   

٭۔نیشنل سروس  ملازمین کے تمام بچے (مرد و خواتین) اگر وہ ڈیفنس فورسز میں ملازمت کے میعار پر پورا نہ اتر سکیں ، تو تربیت کے بعد انہیں سول ڈیفنس میں ملازمت دی جائے ۔ 
نیشنل سروس کے ڈیوٹی کے دوران ،  فوت یا شہید ہوجانے کی صورت میں تمام وہ مراعات  ملیں  جو کلر سروس کے دوران ملتی ہیں ۔

٭۔نیشنل سروس   کے تجربہ کار فوجی بطور ریزروسٹ فوج کا حصہ ہوں ۔جو ہنگامی حالات میں انتطامیہ کی مدد کریں گے اور اپنی تحصیل اور ضلع کی حدود تک محدود رہیں گے ۔فوج میں بھرتی کے وقت جو مستقل رہائیشی ایڈ ریس (ڈومیسائل)لکھا دیا  وہ تبدیل نہیں ہوگا ۔تاکہ بڑے شہروں میں گنجانیت پیدا نہ ہو ۔

فیڈرل تنخواہ  فنڈز برائے نیشنل سروس ملازمین  میں  کیسے اضافہ کیا جائے ۔

ایک سینیئر ویٹرن سے بوڑھے کی ملاقات ہوئی ۔جس نے بتایا کہ فوج میں اِس پر ایک سٹڈی ہوچکی ہے لیکن معاملہ ، تنخواہوں اور الاونسز پر آکر رک جاتا ہے ۔ کہ فوجیوں کی سروس اگر  ایک یا دوسال  بھی بڑھائی جائے  تو  پاکستان کی  اکنامی کی مجبوری کی وجہ سے وہ بھی ایک مخصوص   کوٹے سے زیادہ نہیں بڑھائی جاسکتی ۔ نیشل سروس کے ملازمین جو  مزید60   سال ملازمت کریں گے اُن کی تنخواہیں دینے کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا ۔ ہاں  کوئی پرائیوٹ کمپنی یا سیٹھ ایسا کر سکتا ہے ۔بوڑھے نے توجہ دلائی کہ پاکستام میں ملٹری انکاپوریشن  کی  دو سیٹھ کمپنیاں ایسی ہیں جو نیشنل سروس کے قیام میں  حکومت کا ہاتھ بٹا سکتی ہیں یعنی فوجی فاونڈیشن اور آرمی ویلفیئر ٹرسٹ۔جو پاکستان کا قومی آمدنی میں ٹیکس  کی رقم ادا کرنے والے  اداروں میں سر فہرست ہیں ۔

سینیئر ویٹرن نے بتایا جو  کئی سال پہلے ایک نہایت اہم عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں ۔کہ آپ کو راولپنڈی میں جو اونچی بلڈنگز سی ایم ایچ ، اور جوانوں کے فلیٹس کی صورت میں نظر آرہی ہیں یہ سب اِنہی دونوں سیٹھ کمپنیوں کی مدد سے تعمیر ہوئی ہیں ۔اِن کمپنیوں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اِن کمپنیوں سے لاکھوں سویلیئن اور ریٹائرڈ فوجیوں کا روزگار وابستہ ہے ۔جو سول ایڈمنسٹریشن نہیں ملٹری ایڈمنسٹریشن کی مرہون منت ہے ۔ 

بوڑھے کے سوال پر بتایا ، کہ اُنہیں فوج سے ملنے والی زمین پر کاشت سےآمدنی ہوتی ہے، اُنہوں کے انتظامی امور کے لئے اپنی زمین اور گھرپر ریٹائرڈ فوجی ہے رکھے ہیں ۔2017 میں بوڑھا ایک سینیئر ویٹرن کی زمینوں پر اپنے کورس میٹ کے ساتھ گیا جو اُنہوں نے خریدی تھی ، جو بارانی  میں ہے  اور پانی صرف زیر زمین تھا، اُنہوں نے زمین سے پانی کھینچنے والی موٹر سولر انرجی سے لگوائی ، یہ سور ج نکلنے   کے ساتھ چلنا شروع ہو جاتی اور سورج غروب ہوجانے تک پانی کا تالاب بھرتی ۔ جس سے پانی لے کر ڈرپنگ ٹیکنالوجی سے پھلدار درختوں کو پانی فراہم کیا جاتا ۔ اب وہاں مقامی  پھلوں کے باغات کھڑے ہیں ۔فوجیوں  کو سروس  پورا کرنے پر فوج نے جہاں زمین الاٹ کی یا جہاں خریدی وہاں پھلوں کے  باغات  ابھر رہے ہیں  اور مزے کی بات سب کے باغات کے انتظامی امور کے لئے ریٹائر فوجی رکھے ہیں ۔ریٹائر فوجی اپنے پنشن سے ملنے والی کمیوٹیشن کو والدین، بھائیوں اور بہنوں پر خرچ کرنے کے بعد اب ۔ وڈیروں ، خانوں اور سرداروں کے مزارعے ہیں ۔آپ اِنہیں نیشنل سروس کے مزارعے بنا لیں ۔ مکینک بنا لیں۔ ترکھان بنا لیں ۔ مستری بنا لیں۔ مویشی پال بنا لیں ۔ بوڑھے کے فہم کے مطابق اُس ووکیشنل ٹریننگ کا کوئی فائدہ نہیں جو بغیر دُکان کے ہو ۔ کینخونمنٹ بورڈ کی زمینوں پر بنائی جانے والی دُکانیں صرف کمائی کا ذریعہ ہیں ویلفیئر کا نہیں ۔

سر اگر وہ تمام زمینیں جو بنجر پڑی ہیں ، اِنہیں فیڈرل گورنمنٹ سے لیز پر لے کر نیشنل سروس( ڈیفنس فورسز اور سول آرمڈ فورسز ) کے ملازمین کو دی جائیں اور اُن پر کاشت کروائی جائے ، تو اِس سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی نیشنل سروس کے اکاونٹ میں جائے ، ملک  کی نہ صرف قومی آمدنی میں اضافہ ہوگا ، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ اور فوجی فاونڈیشن کی طرح، نیشنل سروس تیسرا بڑا انکارپوریٹڈ ادارہ بن جائے گا ۔
اِسی طرح نیشنل سروس کے زیر انتظام ، ملکی اجناس کے گودام  دونوں  سیٹھ اداروں   سے بنوا کر دیئے جائیں تاکہ وہاں  پاکستان کے کسانوں  سے اناج ، شوگر ملوں سے شوگر  اوردیگر فصلیں سٹور کرکے محفوظ رکھی جائیں ۔جو نہ صرف سارا سال پاکستان کے عوام کو اُن کی خوراک مہیا کریں بلکہ سمگلنگ کو روکنے کے علاوہ ، غیرملکی  اناج و شوگر کی ایکسپورٹ یا امپورٹ کر کنڑول کرنے میں مدد دے سکیں ۔

فوجی فاونڈیشن کی میڈیکل سہولتوں کو ڈویژن ، ڈسٹرکٹ اور تحصیل کی سطح تک پھیلایا جائے جس میں نیشنل سروس کے میٖڈیکل سٹاف ،  کی مدد سے سول ہسپتالوں میں  بیسک ہیلتھ یونٹ قائم کی جائے    ۔سول ہسپتالوں میں ماہر ڈاکٹرز کی مدد لی جاسکتی ہو ۔اِس کے علاوہ نیشنل سروس کے دیگر ٹیکنیکل ونگ بھی قائم کے جا سکتیں ہیں ۔ جن میں انجنیئرنگ سروس ، الیکٹریکل اور مکینیکل سروس شامل ہوں ۔

اگر حدیقہ کیانی ، ذاتی طور پر دلچسپی لے کر بلوچستان میں100     مکانات بنوا کر دے سکتی ہے ، تو آرمی ویلفیئر ٹرسٹ نیشنل سروس کے ملازمین کو اُن کے گاؤں میں ڈسٹرکٹ  مینیجمنٹ سے  زمین لیز پر لے کر کیوں نہیں بنا کر دے سکتی ہے ۔نیشنل سروس کی یہ انکارپوریشن ۔ ملٹری انکارپوریشن اور گیریژن سٹیٹ کی ٹوپی میں  ملکی ترقی اور سویلیئن بنجر زمین پر  امداد  کی کامیابیوں   کا ایک اور" پر" بن جائے گی۔

خلاصہ۔

پاکستان ڈیفنس فورسز ایک ادارہ  ہے ۔ جس کی اہمیت اُس کے پاکستان کے آئین کے مطابق ، ملک کی آئینی اور جغرافیائی سرحدوں کے علاوہ اپنے ادارے میں شامل تمام افراد کو دورانِ سروس سیاست سے پاک رکھنا ہے ۔ گو کہ یہ افراد اور اپنی فیملی سمیت عوام  کی صفوں سے نکل کر  ڈیفنس فورسز کے ادارے میں شامل ہوتے ہیں ۔لیکن  عوام سے تعلق اُس وقت ختم ہوجاتا ہےجب  عوام سے جند لوگ خواہ اُس کے خونی رشتہ دار کیوں نہ ہوں ،پاکستان کی سالمیت کو کسی بھی انداز میں نقصان پہنچانے کے لئے ادارے کے خلاف کوئی  مذہبی یا بغضی سلوگن بلند کریں ۔

ڈیفنس فورسز کا اتحاد فرقہ بازی سے مبّرا ہے۔بوڑھا حیران ہے کی ڈیفنس میں سروس کےبعد ریٹائر ہونے والے اتنے پولرائز ہوجائیں کہ وہ اپنے ادارے جس نے اُنہیں سویلیئن سے" ملٹری مین" بنایا ہے وہ اُس کے خلاف زہر اُگلیں ۔ بوڑھا سوچتا ہے کہ  نہ صرف ڈیفنس فورسز بلکہ پاکستان آڈیٹر جنرل سے  تنخواہ لینے والے تمام افراد کا ووٹ اُس وقت تک ساقط کر دیا جائے جن تک وہ تنخوادار ملازم ہوں ۔ چند لاکھ افراد کے ووٹ نہ کاسٹ کرنے سے ، جمہوریت نہیں لڑکھڑاتی لیکن اُن  کے جعلی ووٹ کاسٹ کرنے سے سیاستی جزیرے  ملک  کی پرسکون فضاء میں سراب اُٹھا دیتے ہیں ،   کیوں قومی جھیل میں بننے والے سیاسی جزیروں نے اتحاد  و یکجہتی کی فضا کو نقصان پہنچایا ہے ۔ بلاشبہ جمہوریت میں سویلیئن سپرمیسی کو فوقیت ہے لیکن ملک کی حفاظت کے لئے افواج پاکستان کی سالمیت بھی انتہائی اہم ہے ۔   

نوٹ:  صاحبان عقل و فکر ، فہم و دانش اِس میں قطع و برید کر کے اِس مزید بہتر بنا سکتے ہیں 
( خالد مہاجرزادہ)

 ٭٭٭٭واپس ٭٭٭ ٭

٭۔پاکستان کی ترقی میں نان ایکٹو سولجر کا شمول

٭۔ملٹری ایمپائراور فوجی افسران (حاضر یا ریٹائر)

٭۔ سارے رقبے ۔ 45 ہزار 267 ایکٹر اراضی  

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔