انسانی معلومات کےفقدان سے ہی ، "میڈیا کے زنخے اور قلمی طوائفیں" فائدہ اٹھاتی ہیں اور سوچنے والے تخیلاتی ذہن کو گمراہ کرتی ہیں !
1973 میں، میں سیاچین میں تھا ،جہاں جانے سے پہلے جنوری 1993 میں ، لیفٹننٹ کرنل کے لئے ، میجر جنرل امجد شعیب نے ناپنے انا کو سکون پہنچانے کے لئے " پرمننٹ اَن فٹ فار فردر پروموشن " کر دیا ، اپنی یونٹ 57" میڈیم رجمنٹ" (جس میں اب میرا بیٹا میجر ہے ) جس کو میں نے 19 اکتوبر 1975 میں کشمیر ، ٹیٹوال سیکٹر کے پاس نیلم ویلی کے قصبے کے پاس دھنّی کینٹ میں جائن کیا تھا ، جس کا 31 جنوری کو پچاسواں سالگرہ کا دن ہے ۔ جس کو منانے کے صرف میں 31 جنوری 1966 کے ، یونٹ کو وجود میں لانے والے آفیسروں اور اُن کے بچوں کے بچوں کو اکٹھا کر رہا ہوں ۔ جو میری آج تک کی زندگی کا راولپنڈی ویٹرنز چیپٹر کا ایک میگا ایونٹ ہوگا اور یہ سب ہمارا مشترکہ خرچہ ہے ہر کھانے والا اپنا خرچہ خود دے گا ، یونٹ سے صرف شیلڈ بطور یادگار سے ویٹرنز کو دی جائے گی ۔
ھاں تو میں بات کر رھا تھا سیاچین سے ، چھٹی جاتے وقت مجھے کمانڈنگ آفیسر نے بتایا ، کہ مورگاہ ٹو ، کے پلاٹ مل رہے ہیں ، ذرا وہاں جاکر دیکھنا کیسا علاقہ ہے ، پلاٹ لیا جائے یا نہیں ؟
میں اپنے بچپن کے دوست شوکت چوھان ، جس نے راولپنڈی ائر پورٹ کے پاس ، جنگل و بیابان میں گھر بنایا تھا ، وہ مجھے ائرپورٹ سے اپنے گھر لایا کل 20 تیس گھر نظر آرہے تھے ، ائرپورٹ سے اسلام آباد ھائی وے کی طرف جاتے ہوئے دائیں جانب ، اُس نے فخر سے بتایا وہ جو گھر دیکھ رہے ہو ، دائیں طرف لال ٹینکی والا وہ میرا گھر ہے ۔
جب میں نے اسے مورگاہ ٹو کا بتایا ، تو اٗس نے کہا ، " تم بھی بے وقوف ہو اور تمھارا سی او بھی ، بلکہ سارے فوجی بے وقوف ہوتے ہیں ، مورگاہ (ڈی ایچ اے ) ون ، میں ٹوٹل کے دس گھر بنے ہیں اور فوج ، اپنے معصوم آفیسروں کا پیسہ مورگاہ (ڈی ایچ اے ) ٹو میں پھنسا رہی ہے ۔ کراچی ڈیفنس ھاؤسنگ سوسائٹی کو سنبھال نہیں سکی ۔ وغیرہ وغیرہ "
یہ معصوم فوجی دوسرے دن ، مورگاہ ٹو دیکھنے گیا ۔ لیکن چپ رہا ، کیوں کہ ایک سویلئین چاھے دوست ہی سہی،کے سامنے اپنے فوجی دماغوں کو برا بھلا نہیں کہہ سکتا تھا ۔ واپسی پر مورگا ون ایک پتلی تین کلومیٹر کی ٹوٹی پھوٹی سڑک پر گھومتے ہوئے دیکھا ، اور آفیسرں کے بنائے ہوئے مکمل اور نامکمل گھروں پر بھی دیکھا ، اور شوکت چوھان کو یہ لنگڑا عذر پیش کیا ۔
" یار شوکت بھائی ، بات یہ ہے کہ ہم فوجی ساری عمر سویلئین سے دور رکھے جاتے ہیں ، اورنہ سویلئین ہم کو اور نہ ہم سویلئین کے طریق کار کو برداشت کر سکتے ہیں ،
گویا
ہوئے اِس قدر مہذب کبھی آبادیوں کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر جنگلوں میں مرے ہسپتال جاکر ۔
آہ سویلئین تو ہمیں اپنے پڑوس میں نہیں برداشر کر سکتے ، اسی لئے فوج جنگلوں میں گھر بنا رہی ہے "
تو دختر نیک اختر ، اِس معصوم 40 سالہ میجر نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کو بھی منع کر دیا اور خود تو پلاٹ لینے کی کوئی ایسی کوشش بھی نہیں کی ، نہ کراچی ڈیفنس میں اور نہ فوج کی کسی سکیم میں ، کیوں کہ فوج نے عسکری ھاوسنگ میں ایک گھر دینے کا وعدہ کر رکھا تھا ، کہ جس کی قسطیں ، یہ غریب فوجی ماہانہ دے رہا تھا ۔
12 1کتوبر 1999 کے بعد یکم دسبر 1999، میں ریٹائر ہو کر ، یہ غریب اسلام آباد میں آیا اور بحریہ فیز 8 میں دوپلاٹ ایک بیچنے والے سے ، ڈی ایچ اے فیز ون اور ٹو کی حالت دیکھنے کے بعد لے لئے۔ پھر جون میں ایک ریٹائرڈ سنیئرفوجی دوست آیا اُس نے کہا، اُسے بیٹیوں کی شادی کے لئے پیسوں کی سخت ضرورت ہے ، اُس کے پاس ڈی ایچ اے ٹو میں دو پلاٹ ہیں ایک فوج سے ملا تھا 4 لاکھ میں ، اُسی کے ساتھ دوسرا لیا ساڑھے 4 لاکھ میں اب مارکیٹ نہیں ، میں وہ دونوں 6 لاکھ میں بیچنا چاھتا ہوں کوئی خریدنے والا ہو تو بتائے ۔ میں نے پراپرٹی ڈیلروں سے معلوم کیا ایک کو پلاٹ خریدنے کا کہا ، اُس نے ساڑھے تین لاکھ کھڈے کے پلاٹ کے بتائے ۔ دوسرے کو اِن میں سے ایک پلاٹ بیچنے کا کہا تو اُس نے ، ڈھائی لاکھ بتائے کہ خریدار کوئی نہیں، بیچنے والا نہ مانا تو میں نے اپنے ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹ جو میں ڈی ایچ اے کراچی کا 300 گز کا پلاٹ بیچ کر 1996 میں خریدے اور جن کے شش ماہی منافع سے میں اپنے بچوں کی تعلیم کا خرچہ اٹھاتا ، اُنہیں بڑھیا کے منع کرنے کے باودجود بیچ کر 6 لاکھ میں دونوں پلاٹ ، خرید لیے ، اِس لئے نہیں کہ میں بہت مالدار تھا بلکہ اِس لئے کہ پلاٹ کی قیمت یہی بنتی تھے ، ٹرانسفر نہیں کرائے کہ پیسے لگتے تھے ، یہ دونوں پلاٹ مجھے ضرورت پڑی تو میں نے اگست 2000 میں بیچ دیئے ، مبلغ سات لاکھ میں ۔ کتنے میں ؟ مبلغ ساڑھے تین لاکھ کا ایک پلاٹ ۔ جس رقم سے میں نے دوبارہ ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹ لے لئے اور بڑھیا کے طعنوں سے نجات پائی ، اور یوں میں 9/11 کے بعد ایک کثیر منافو سے محروم ہوگیا کیوں کہ یہ دونوں پلاٹ 80 لاکھ ، 80 لاکھ میں بِکے یوں لوگوں نے پاگلوں کی طرح پلاٹ لینا شروع کئے ، اور پھر اکتوبر 2011 میں اِن پلاٹوں نے غوطہ لگایا اور کوئی ان پلاٹوں کو 35 لاکھ فی پلاٹ خریدنے کے لئے تیار نہیں تھا ، آج یہ پلاٹ ایک کروڑ 80 لاکھ کے ہیں۔ اور سویلیئن میں مشہور ہے کہ فوجی ککھ پتی سے کروڑ پتی بن گئے ۔
اِس طرح ریٹائر فوجیوں کی ملٹری ایمپائر ، سویلئین کی نظروں میں ، "میڈیا کے زنخے اور قلمی طوائفیں" کچوکے چُبھا رہے ہیں ، جس پراپرٹی کو بوسٹ ، امریکی نیچرائزڈ پاکستانیوں نے 9/11 کے بعد کیا ۔
یہ وہ چال ہے جس کو، چلنے سے پہلے اللہ نے ابلیس کو آگاہ کیا جو "پرپیگنڈہ ۔ مردانگی کا بھرم اور خیالات میں منفیت پیدا کرنا " ۔ممکن ہے کہ اِس فہم سے آپ متفق نہ ہولیک یہ ایسی "کیو لائن" ہے جس کا استعمال ہمیشہ سے اور اب بھی ،انسانی فراست پر پردے ڈالنے کے لئے استعمال ہو رہا ہے ۔
یہ کام تو فوج اُس وقت سے کر رہی ہے جب میں نے فوج میں کمیشن لیا ، اِس کا نام " چائلڈ ویلفیئر سنٹر ( سی ڈبیلو سی )" ہے ۔
1- سی ڈبلیو سی ، میں کینٹونمنٹ میں رہنے والی ، فوجیوں کی بیویوں اور بچیوں کو گھر داری کے طریقے ، مثلاً سلائی، کشیدہ کاری ، ڈیزائینگ اور کمپیوٹر ٹرینگ سکھائی جاتی ہے ۔
2- فوجی فاونڈیشن ٹرسٹ ۔ نے اِن مقاصد کو مزید پھیلایا ہے جہاں ، تمام ریٹائر فوجیوں، اُن کے بچوں کو ٹینیکل تعلیم اور سپیشل بچوں کو " ری ہیبیلیٹیٹ " کیا جاتا ہے ۔ فوجی فاونڈیشن سکول ، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر لیول تک کھل گئے ہیں ، جہاں ریٹائر فوجی رہتے ہیں ۔ ان سکولوں میں سویلئین بچے بھی پڑھتے ہیں ۔
3- ایف جی سکول ، پہلے کینٹ پبلک سکول ہوتے تھے ، جن میں آفیسرز کے بچے اور خانوں و سرداروں و وڈیروں کے بچے پڑھتے تھے، اور ایف جی اردو میڈیم میں جوانوں اور جے سی اوز کے بچے پڑھتے تھے ، اب اِن سکولوں میں کینٹ پبلک سکولوں کو انگلش میڈیم میں تبدیل کر کے پورے ملک کے کینٹونمنٹ میں پھیلا دیا ہے ۔
4- آرمی پبلک سکول ، کے متعلق بتانے کی ضرورت نہیں ، یہاں آرمی حاضر اور ریٹائرڈ افراد کے بچے اور پوتے پوتیاں پڑھتے ہیں ۔ سویلئین حضرات کے بچے بھی پڑھتے ہیں ۔
5- آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی ، بھی فوج کا فوجیوں اور سویلئین کے بچوں کے لئے ، ایک عرصہ سے کام کرنے والا اداراہ ہے ۔
6- فوجی فاونڈیشن یونیورسٹی اور نیشنل یونیوررسٹی سائینس اینڈ ٹیکنالوجی ، فوج کا راولپنڈی میں ، نیچنل ڈیفینس کالج کے اسلام آباد میں شفٹ ہونے کے بعد اس کی بلڈنگ میں قائم ہوا ، اور اب فوج کے ادھار سے بننے والا یہ ادارہ ، مکمل اپنے پاؤں پر کھڑا ہے اور سویلئین کے بچوں کو تربیت دے رہا ہے ، یہاں ہونہار اور پڑھنے والے ، سپیشل بچوں کے لئے کوٹہ ہے ۔
7- میڈیکل کیٹیگری فوجی ۔ پہلے فوج میں میڈیکل کیٹیگری سی اور بی ہونے والے ، میجر ریٹائر ہو جاتے تھے ، لیکن اب فوج میں وہیل چئیر پر ، فوج کی وجہ سے بیٹھنے والے ، کرنل اور بریگیڈئر ہیں اور فوج کے ایڈمنسٹریشن کے نظام کو بہ احسن خوبی انجام دے رہے ہیں ۔
8۔ کمبائینڈ میڈیکل ہسپتال ۔ راولپنڈی میں آسمان سے باتیں کرتے اونچے اونچے بلاک جو جنرل کیانی دور میں آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے منافع سے بنے ، جس میں پاکستان کے سویلئن شہریوں کا علاج ہوتا ہے بوڑھا اور بڑھیا بھی اِس سے مستفید ہو رہے ہیں ۔ بلکہ بوڑھے اور بڑھیا نے میٹرک فیل بچوں کو گھریلو ملازم کی تربیت دے کر فوجی آفیسروں کے پاس سویلیئن ملازم رکھوایا ہے ۔
8۔فوجی فاونڈیشن ہسپتال ۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے پاکستان میں شامل ہونے والے علاقوں جو شیر شاہ کی جی ٹی روڈ (مارشل ریس) کے علاقوں سے برٹش رائل ایمپائر میں بھرتی کئے گئے تھے ۔ بڑٹش انڈین آرمی کی اکاونٹ برانچ کیا فوجی اور کیا آفیسر سب کا عرف عام بنولا فنڈ (بینیولنٹ فنڈ) کاٹا جاتا تھا۔ اب ہوا یوں کہ ایمان ادار برٹش گورنمنٹ کو اُن کی مملکت میں فوجی ایمپائر میں خدمت انجام دینے والے ، تمام زندہ و اللہ کی امان میں گئے فوجوں کا بنولا فنڈ پاکستان آرمی کے اکاونٹ میں برٹش پاؤنڈ کی صورت میں واپس کر دیا بو ہزاروں تو نہیں لاکھوں پاؤنڈ بنا ۔ اب اِس رقم کا کیا کیا جائے ۔ اُن دنوں موجود میٹنگ میں موجود کمانڈر انچیف نے فیصلہ کیا کہ اںس سے ریٹائرڈ فوجیوں کی ویلفیئر کے لئے ایک فاونڈیشن بنائی جائے ۔کیوں کہ 1947 کے بعد ریٹائر ہونے والوں کا علاج کمبائنڈ ملٹری ہسپتال یا ملٹری ہسپتال ہے ہو رہا تھا ۔ لہذا 1954 میں فوجی فاونڈیشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور 1959 میں 50 بستروں کا ریٹائرڈ فوجیوں کی بیویوں کے لئے ٹی بی ہسپتال راولپنڈی میں کھولا گیا ۔ جو بڑھتےبڑھتے ان ایک بہت بڑا ہسپتال بن چکا ہے ، جہاں سے سویلیئن بھی اپنا علاج کرواتے ہیں ۔ جو برٹش انڈین ایمپائر کے پاکستانی سپاہیوں کی تنخواہوں سے کاٹے گئے بنولا فنڈ کا تحفہ ہے ۔ کیا یہ "میڈیا کے زنخے اور قلمی طوائفیں" کے علم میں ہے ؟؟
اوپر دیئے گئے تمام ٹرسٹی اداروں کو بنانے کے لئے گورنمنٹ آف پاکستان نے کوئی رقم نہ زمین دی، یہ سب کینٹونمنٹ کی زمین پر بنے جو برٹش ایپمائر نے شہنشائے ہند بہادر شاہ ظفر سے 1857 میں ھتھیائی تھی اور کسی سویلیئن کے مربعے یا کھیت نہیں تھے ۔ اُس کے بعد فوج نے خود اپنے ویلفیئر پراجیکٹس سے پیسا بنایا اور اِس میں لگایا ہے ، جو مکمل فوجی طریق کار کے مطابق آڈٹ ہوتا ہے ، اِن سکولوں سے پڑھ کر نکلنے والے بچے ، ذھنی طور پر نہایت با صلاحیت ہوتے ہیں ۔
انگریزوں نے فوجی جوانوں کے بچوں کے لئے ایک پبلک سکول جو سرائے عالمگیر (جہلم) میں تھا ، اُسے ملٹری کالج میں تبدیل کیا ، جو آج کل ملٹری کالج ، جہلم کے نام سے مشہور ہے ۔ جس میں فوج کے جے سی اوز اور جوانوں کے امتحان پاس کرنے والے بچوں کے لئے شروع کیا ، جن کا کوٹہ 80 فیصد اور دیگر ( آفیسر اور چوہدریوں، خانوں اور وڈیروں ) کے بچوں کے لئے تھا ۔ فوجی یتیم خانہ کا نام دے کر ، فوجی آفیسرز اپنے بچے یہاں پڑھانا ہتک سمجھتے تھے ، لہذا ، کم اہم مالدارفوجی آفیسروں (فیس اور بچوں کی جدائی افورڈ کرنے والوں کے ) کے بچوں نے داخل ہو کر فوج میں سیکنڈ لفٹین بن کر ایلیٹ کلاس میں شامل ہونا شروع کیا ۔ تو مالدار آرمی آفیسروں کو ہوش آیا ۔ لیکن زیادہ تر مالدار آفیسروں کے بچے یہاں سے ایف ایس سی کرنے کے بعد جرمانہ ادا کرکے فوج میں کمیشن حاصل کرنے سے جان چھڑاتے یا اکیڈمی جا کر چھ مہینے کے اندر نکلنے کی کوشش کرتے ریلیگیٹ ہوتے یا ڈرم آؤٹ ۔
لیکن اب بھی 100 بچوں میں سے 10 آرمی آفیسر کے بچے ہوتے ہیں ، 10 سویلئین کے اور 80 جوانوں کے ۔ جنرل کیانی جوانوں کے بیٹوں میں سے ہے ، اگر یہ ملٹری کالج نہ ہوتا تو چیف آف آرمی سٹاف جنرل کیانی اور دیگر جے سی اوز ، این سی اوز اور اسپاہوں کے بچوں کے مقابلے میں کنگ کمیشن جرنل و بریگیڈئرزاور کرنل کے بیٹوں کا کیا مستقبل ہوتا ، اس کی وضاحت ضروری نہیں ، کیوں کہ بہترین تربیت و تعلیم انسان کو انسانوں میں ممتاز کرتی ہے ۔ اِس وقت ملک میں ملٹری اور کیڈٹ کالج کی شاخیں آرمی کھول رہی ہے ۔
فوج کی تمام زمینں جو انگریزوں نے بزور بندوق و توپ چھینیں اور رائل برٹش انڈین آرمی کے استعمال کے لئے رکھیں ، جس کے نزدیک، کسی بھی سویلئین کو رہنے کی اجازت نہ تھی ، پھر فوج ہی نے خالی زمینوں کو آباد کرنے کے لئے ، ریٹارڈ فوجیوں کو دینا شروع کیا جہاں ، اُسے وہ آباد کر سکتے تھے ، اِن فوجیوں نے وہاں اپنی زمینوں پر اپنے سویلیئن ملازمین کو گھر بنانے کی اجازت دی تاکہ وہ وہیں رہ کر زمینوں پر کام کر سکیں ۔وہاں دو تین یا چار گھروں سے دس بیس گھروں کی کالونی بننا شروع ہوگئی ۔ مالکِ زمین کے فوت ہونے کے بعد ، بیٹوں کو زمین میں کوئی دلچپسی نہیں تھی ، انہوں نے 10 مرلے کی جگہ 500 روپے میں اور کھیتوں کی جگہ زیادہ سے زیادہ 5000 روپے ایکڑ میں سویلیئن کو فروخت کر دی ، کینٹونمنٹ بورڈ کی اجازت کے بغیر سٹامپ پیپر پر، جہاں آبادی بڑھنا شروع ہوئی اور کینٹونمنٹ کے ارد گرد سویلئین آبادیوں کا ھجوم ہونا شروع ہوا ،
جب سیکیورٹی کا مسئلہ آیا تو فوج کی آنکھ کھلی تو پانی گردن تک آچکا تھا سٹامپ پیپروں کی مدد سے عدالتوں نے اُسے سر سے بھی اوپر کر دیا ، جیسا اب اسلام آباد میں ندی نالوں میں گھس بیٹھیوں کی کچی آبادیوں اور مسجدوں سے ہو رہا ہے ۔
جب سیکیورٹی کا مسئلہ آیا تو فوج کی آنکھ کھلی تو پانی گردن تک آچکا تھا سٹامپ پیپروں کی مدد سے عدالتوں نے اُسے سر سے بھی اوپر کر دیا ، جیسا اب اسلام آباد میں ندی نالوں میں گھس بیٹھیوں کی کچی آبادیوں اور مسجدوں سے ہو رہا ہے ۔
آرمی ویلفیئرھاؤسنگ آرگنائزیشن کا قیام 1978 میں سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے مطابق ریٹائرڈ آرمی آفیسرز اور سروس کے دوران اللہ کی امان میں جانے والے آفیسروں کی بیواؤں کے لئے قائم کی گئی ۔ لیکن اِس سے پہلے کینٹونمنٹ میں پلاٹ اِسی ایکٹ کے مطابق دیئے جاتے اور 99 سال تک اُنہیں کے نام رہتے ۔ جو اُن کے لواحقین سٹامپ پیپرز پر سویلیئن کو بیچ دیئے جاتے ۔ جس سے اُن پر قبضے کی وجہ سے لیز کے کئی قانون مسائل بنے کیوں کہ قبضہ کرنے والے لیز کی رقم بچانے کے لئے ۔ جو فوجی آفیسروں، اُن کی بیواؤں اور بچوں کے لئے معمولی تھی ۔ مگر سویلیئن کے لئے اب بھی زیادہ ہے ۔ کیوں کہ یہ بھنک پھیل چکی تھی لہذا 1977 میں ، ایک 500 گزپلاٹ کی فائلیں صرف 15 ہزار روپے میں بکنا شروع ہوگئیں میں اُن دنوں کوئٹہ میں جونیئر آفیسرز لیڈر کورس کر رہا تھا کہ پراپرٹی ڈیلروں کا طوفان امنڈ پڑا ویسے بھی بیلٹنگ میں نکلنے والے پلاٹوں کی قیمت قسطوں میں تھی ۔ بے شمار سیکنڈ لفٹینوں نے 15 ہزار میں اپنے پلاٹ کے حقوق بیچے اور موٹر سائیکلیں لیں ، چونکہ کشمیر سے کورس کرنے آیاتھا اس لئے شائد بچ گیا ۔ پیسوں کی ضرورت نہ تھی ، 570 روپے تنخواہ میں بہترین گذارہ ہوتا تھا والدہ کو بھی بھجواتا تھا اور بہن کو ایم بی بی ایس کرنے کا خرچہ بھی دیتا تھا ، میرے میس کا خرچہ کل 150 روپے آتا تھا ۔
1973 میں، میں سیاچین میں تھا ،جہاں جانے سے پہلے جنوری 1993 میں ، لیفٹننٹ کرنل کے لئے ، میجر جنرل امجد شعیب نے ناپنے انا کو سکون پہنچانے کے لئے " پرمننٹ اَن فٹ فار فردر پروموشن " کر دیا ، اپنی یونٹ 57" میڈیم رجمنٹ" (جس میں اب میرا بیٹا میجر ہے ) جس کو میں نے 19 اکتوبر 1975 میں کشمیر ، ٹیٹوال سیکٹر کے پاس نیلم ویلی کے قصبے کے پاس دھنّی کینٹ میں جائن کیا تھا ، جس کا 31 جنوری کو پچاسواں سالگرہ کا دن ہے ۔ جس کو منانے کے صرف میں 31 جنوری 1966 کے ، یونٹ کو وجود میں لانے والے آفیسروں اور اُن کے بچوں کے بچوں کو اکٹھا کر رہا ہوں ۔ جو میری آج تک کی زندگی کا راولپنڈی ویٹرنز چیپٹر کا ایک میگا ایونٹ ہوگا اور یہ سب ہمارا مشترکہ خرچہ ہے ہر کھانے والا اپنا خرچہ خود دے گا ، یونٹ سے صرف شیلڈ بطور یادگار سے ویٹرنز کو دی جائے گی ۔
لیکن شاید سویلئینز سمجھیں کہ فوج نے من و سلویٰ کا دروازہ ہم پر کھول دیا ہے ۔ ہمارے لئے یہ اُسی طرح خوشی کا موقع ہو گا جب میٹرک کے دو ساتھی عرصہ بعد ملتے ہیں اور کہتے ہیں :
" ابے پنڈت ، تو بڈھا ہو گیا ، ھا ھا ھا "
" تو مولوی چھرے اپنے کالے بالوں سے خضاب اتار کر دیکھ ، کسی بے چین روح کا مجسمہ نظر آئے گا ۔ ھا ھا ھا "
" ابے پنڈت ، تو بڈھا ہو گیا ، ھا ھا ھا "
" تو مولوی چھرے اپنے کالے بالوں سے خضاب اتار کر دیکھ ، کسی بے چین روح کا مجسمہ نظر آئے گا ۔ ھا ھا ھا "
ھاں تو میں بات کر رھا تھا سیاچین سے ، چھٹی جاتے وقت مجھے کمانڈنگ آفیسر نے بتایا ، کہ مورگاہ ٹو ، کے پلاٹ مل رہے ہیں ، ذرا وہاں جاکر دیکھنا کیسا علاقہ ہے ، پلاٹ لیا جائے یا نہیں ؟
میں اپنے بچپن کے دوست شوکت چوھان ، جس نے راولپنڈی ائر پورٹ کے پاس ، جنگل و بیابان میں گھر بنایا تھا ، وہ مجھے ائرپورٹ سے اپنے گھر لایا کل 20 تیس گھر نظر آرہے تھے ، ائرپورٹ سے اسلام آباد ھائی وے کی طرف جاتے ہوئے دائیں جانب ، اُس نے فخر سے بتایا وہ جو گھر دیکھ رہے ہو ، دائیں طرف لال ٹینکی والا وہ میرا گھر ہے ۔
جب میں نے اسے مورگاہ ٹو کا بتایا ، تو اٗس نے کہا ، " تم بھی بے وقوف ہو اور تمھارا سی او بھی ، بلکہ سارے فوجی بے وقوف ہوتے ہیں ، مورگاہ (ڈی ایچ اے ) ون ، میں ٹوٹل کے دس گھر بنے ہیں اور فوج ، اپنے معصوم آفیسروں کا پیسہ مورگاہ (ڈی ایچ اے ) ٹو میں پھنسا رہی ہے ۔ کراچی ڈیفنس ھاؤسنگ سوسائٹی کو سنبھال نہیں سکی ۔ وغیرہ وغیرہ "
یہ معصوم فوجی دوسرے دن ، مورگاہ ٹو دیکھنے گیا ۔ لیکن چپ رہا ، کیوں کہ ایک سویلئین چاھے دوست ہی سہی،کے سامنے اپنے فوجی دماغوں کو برا بھلا نہیں کہہ سکتا تھا ۔ واپسی پر مورگا ون ایک پتلی تین کلومیٹر کی ٹوٹی پھوٹی سڑک پر گھومتے ہوئے دیکھا ، اور آفیسرں کے بنائے ہوئے مکمل اور نامکمل گھروں پر بھی دیکھا ، اور شوکت چوھان کو یہ لنگڑا عذر پیش کیا ۔
" یار شوکت بھائی ، بات یہ ہے کہ ہم فوجی ساری عمر سویلئین سے دور رکھے جاتے ہیں ، اورنہ سویلئین ہم کو اور نہ ہم سویلئین کے طریق کار کو برداشت کر سکتے ہیں ،
گویا
ہوئے اِس قدر مہذب کبھی آبادیوں کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر جنگلوں میں مرے ہسپتال جاکر ۔
آہ سویلئین تو ہمیں اپنے پڑوس میں نہیں برداشر کر سکتے ، اسی لئے فوج جنگلوں میں گھر بنا رہی ہے "
تو دختر نیک اختر ، اِس معصوم 40 سالہ میجر نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کو بھی منع کر دیا اور خود تو پلاٹ لینے کی کوئی ایسی کوشش بھی نہیں کی ، نہ کراچی ڈیفنس میں اور نہ فوج کی کسی سکیم میں ، کیوں کہ فوج نے عسکری ھاوسنگ میں ایک گھر دینے کا وعدہ کر رکھا تھا ، کہ جس کی قسطیں ، یہ غریب فوجی ماہانہ دے رہا تھا ۔
12 1کتوبر 1999 کے بعد یکم دسبر 1999، میں ریٹائر ہو کر ، یہ غریب اسلام آباد میں آیا اور بحریہ فیز 8 میں دوپلاٹ ایک بیچنے والے سے ، ڈی ایچ اے فیز ون اور ٹو کی حالت دیکھنے کے بعد لے لئے۔ پھر جون میں ایک ریٹائرڈ سنیئرفوجی دوست آیا اُس نے کہا، اُسے بیٹیوں کی شادی کے لئے پیسوں کی سخت ضرورت ہے ، اُس کے پاس ڈی ایچ اے ٹو میں دو پلاٹ ہیں ایک فوج سے ملا تھا 4 لاکھ میں ، اُسی کے ساتھ دوسرا لیا ساڑھے 4 لاکھ میں اب مارکیٹ نہیں ، میں وہ دونوں 6 لاکھ میں بیچنا چاھتا ہوں کوئی خریدنے والا ہو تو بتائے ۔ میں نے پراپرٹی ڈیلروں سے معلوم کیا ایک کو پلاٹ خریدنے کا کہا ، اُس نے ساڑھے تین لاکھ کھڈے کے پلاٹ کے بتائے ۔ دوسرے کو اِن میں سے ایک پلاٹ بیچنے کا کہا تو اُس نے ، ڈھائی لاکھ بتائے کہ خریدار کوئی نہیں، بیچنے والا نہ مانا تو میں نے اپنے ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹ جو میں ڈی ایچ اے کراچی کا 300 گز کا پلاٹ بیچ کر 1996 میں خریدے اور جن کے شش ماہی منافع سے میں اپنے بچوں کی تعلیم کا خرچہ اٹھاتا ، اُنہیں بڑھیا کے منع کرنے کے باودجود بیچ کر 6 لاکھ میں دونوں پلاٹ ، خرید لیے ، اِس لئے نہیں کہ میں بہت مالدار تھا بلکہ اِس لئے کہ پلاٹ کی قیمت یہی بنتی تھے ، ٹرانسفر نہیں کرائے کہ پیسے لگتے تھے ، یہ دونوں پلاٹ مجھے ضرورت پڑی تو میں نے اگست 2000 میں بیچ دیئے ، مبلغ سات لاکھ میں ۔ کتنے میں ؟ مبلغ ساڑھے تین لاکھ کا ایک پلاٹ ۔ جس رقم سے میں نے دوبارہ ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹ لے لئے اور بڑھیا کے طعنوں سے نجات پائی ، اور یوں میں 9/11 کے بعد ایک کثیر منافو سے محروم ہوگیا کیوں کہ یہ دونوں پلاٹ 80 لاکھ ، 80 لاکھ میں بِکے یوں لوگوں نے پاگلوں کی طرح پلاٹ لینا شروع کئے ، اور پھر اکتوبر 2011 میں اِن پلاٹوں نے غوطہ لگایا اور کوئی ان پلاٹوں کو 35 لاکھ فی پلاٹ خریدنے کے لئے تیار نہیں تھا ، آج یہ پلاٹ ایک کروڑ 80 لاکھ کے ہیں۔ اور سویلیئن میں مشہور ہے کہ فوجی ککھ پتی سے کروڑ پتی بن گئے ۔
اِس طرح ریٹائر فوجیوں کی ملٹری ایمپائر ، سویلئین کی نظروں میں ، "میڈیا کے زنخے اور قلمی طوائفیں" کچوکے چُبھا رہے ہیں ، جس پراپرٹی کو بوسٹ ، امریکی نیچرائزڈ پاکستانیوں نے 9/11 کے بعد کیا ۔
میرا پی ایم اے کا پلاٹون میٹ، جو 1979 میں لفٹینی سے نکل کر امریکہ روشن مسقبل کے لئے گیا تھا ۔ وہاں اُس نے بے تحاشہ ڈالر کمائے ، پاکستان اب شائد دفن ہونے کے لئے آیا ھے ، ہم روزانہ گالف کھیلتے ہیں ، اُس نے ڈیفنس میں گھر بنا کر کرائے پر دینے کی بات کی ، مجھ سے پوچھا ،
" کہ یہاں کنال پر بنے ہوئے گھروں کے کیا کرائے ہیں، میرا پروگرام ہے "" میں نے کہا لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ مکمل گھر کے "
" بس 5 کروڑ کے گھر کا اتنا کرایہ ؟ " وہ حیرانی سے بولا ۔
" پانچ کروڑ کیسے ، 6 لاکھ کا پلاٹ اور 50 لاکھ تعمیر ؟ " میں نے جواب دیا ۔
" لیکن میں نے معلوم کیا ، ابھی تو جہاں تم رہ رہے ہو پلاٹ ڈھائی کروڑ کا ہے " وہ بولا
" نہیں پلاٹ 6 لاکھ اور تعمیر سوا کروڑ " میں بولا
" تم پاگل ہو گئے ہو ؟" وہ بولا
" نہیں ہمیں تم بے وقوف امریکن شہریوں نے پاگل کر دیا ہے - جو اب روتے ہیں کہ ہمیں اپنی انویسٹمنٹ کا وہ ریٹرن نہیں آرھا ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بے وقوف نودولتیئے گھر بناتے ہیں اور عقلمند اُن میں کرائے پر رہتے ہیں ، اور اپنے بچوں کی سہولت کے مطابق شفٹ کرتے رہتے ہیں "
اب وہ شہر سے دور شہر بسانے کے چکر میں زمینیں خرید رہا ہے ۔ اور امریکہ میں اپنے موٹلز اور گھر بیچ رھا ہے ۔ جب سویلئین ، یہ سنیں گے کہ سابقہ لفٹین صاحب ھاوسنگ سوسائیٹی بنا رہیں ہیں تو ھونٹوں میں انگلیاں دبا لیں گہ کہ
" کہ یہاں کنال پر بنے ہوئے گھروں کے کیا کرائے ہیں، میرا پروگرام ہے "" میں نے کہا لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ مکمل گھر کے "
" بس 5 کروڑ کے گھر کا اتنا کرایہ ؟ " وہ حیرانی سے بولا ۔
" پانچ کروڑ کیسے ، 6 لاکھ کا پلاٹ اور 50 لاکھ تعمیر ؟ " میں نے جواب دیا ۔
" لیکن میں نے معلوم کیا ، ابھی تو جہاں تم رہ رہے ہو پلاٹ ڈھائی کروڑ کا ہے " وہ بولا
" نہیں پلاٹ 6 لاکھ اور تعمیر سوا کروڑ " میں بولا
" تم پاگل ہو گئے ہو ؟" وہ بولا
" نہیں ہمیں تم بے وقوف امریکن شہریوں نے پاگل کر دیا ہے - جو اب روتے ہیں کہ ہمیں اپنی انویسٹمنٹ کا وہ ریٹرن نہیں آرھا ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بے وقوف نودولتیئے گھر بناتے ہیں اور عقلمند اُن میں کرائے پر رہتے ہیں ، اور اپنے بچوں کی سہولت کے مطابق شفٹ کرتے رہتے ہیں "
اب وہ شہر سے دور شہر بسانے کے چکر میں زمینیں خرید رہا ہے ۔ اور امریکہ میں اپنے موٹلز اور گھر بیچ رھا ہے ۔ جب سویلئین ، یہ سنیں گے کہ سابقہ لفٹین صاحب ھاوسنگ سوسائیٹی بنا رہیں ہیں تو ھونٹوں میں انگلیاں دبا لیں گہ کہ
" لفٹین صاحب نے فوج کو ڈٹ کر لوٹا تو میجر صاحب نے کتنا لوٹا ہو گا "۔
٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں