Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 6 جنوری، 2016

ڈاکٹر رابعہ- کولھو کا بیل


طفیل کو یہاں آئے ہوئے دو سال ہونے کو ہیں. شاہزیب اس کے یہاں آنے کے تین ماہ بعد پیدا ہوا تھا اور اب اسے فون پہ بابا کہ کر بلاتا ہے. وہ یہاں آیا تو میسن کے ویزے پر تھا لیکن کمپنی نے اس سے گھاس کاٹنے سے لے کر کر کوڑے کی گاڑی لوڈ کروانے تک ہر کام لیا تھا.
پچھلے چار ماہ سے اس کے پیشے کے مطابق اسے بلاکوں کی چنائی و ا لے کام پر لگایا گیا تھا. کام کی سائٹ دوبئی میں ہے اور کمپنی کا لیبر کیمپ ابوظہبی میں. اس ڈیڑھ سو کلو میٹر کی دو طرفہ مسافت میں صرف ہونے والا وقت اور ہمت اس کی اپنی ہے .
کمپنی کو صبح ساڑھے چھ بجے انٹری درکار ہے اور اسی لیے اسے صبح ساڑھے تین بجے اٹھنا پڑتا ہے. نہا کہ نماز پڑھنا اور پھر ناشتے کی قطار میں کھڑا ہونا اب اسے مشکل نہیں لگتا لیکن دو گھنٹے صبح اور دوگھنٹے شام کو بس کی لکڑی کی سیٹ پر بیٹھ بیٹھ کر کمر میں مسلسل درد رہنے لگا ہے. وہ جو گھر والوں کے لیے سہانے سپنے خریدنے میلوں دور اس منڈی میں اپنی جوانی بیچنے آیا ہے اس کی زندگی کولہو کے بیل سے بھی زیادہ بے جہت ہے. وہ لیبر کیمپ کے تیسرے فلور کے ایک کمرے کی بارہویں چارپائی پر سوتے ہوئے اکثر سوچا کرتا تھا کہ میرے اپنے خواب کہاں گئے اور اب صرف دو سال بعد اسے یہ سوچنا بھی مشقت لگنے لگا ہے کہ میرے اپنے بھی کچھ خواب تھے.
کام والی سائٹ سے چھ بجے چھٹی کر کے ہاتھ پیر دھوتے ساڑھے چھ ہو جاتے ہیں اور پھر لیبر بس میں سوار ہوکر حاضری مکمل کرتے کرتے سات بج جاتے ہیں امارات کی تیز رفتار سڑکوں پر ڈیڑھ سو کلو میٹر کا فاصلہ کم از کم دو گھنٹے تو لگا ہی دیتا ہے۔
آج جب وہ نو بجے لیبر کیمپ میں پہنچا تو اسے اپنے اس خیال کی تائید کرنا مشکل نہ لگا کہ اگر ڈانگری اتار کر کپڑے پہننے لگا تو میس کی قطار اور لمبی ہو جائے گی لہذا پہلے کھانا حاصل کرلوں پھر ایک ہی بار کپڑے بدل لوں گا ۔ قطار میں کھڑے کھڑے جب کافی دیر گزری گئی تو اس نے وقت گزاری کیلیے اپنے سے آگے بندوں کی گنتی شروع کردی ۔ آج سیدھا میس پر آنے کے باوجود اس کا انچاسواں نمبر تھا۔
اس کی گیروے رنگ کی ڈانگری سے پسینے کی بو کے بھبھوکے اٹھ رہے تھے جو ساتھ والوں سے زیادہ خود اس کو پریشان کیے ہوئے تھے ۔ اتنے میں اس کے ٹوٹی ہوئی سکرین والے سمارٹ فون پر سکائپ کی گھنٹی بجی اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی لہرا گئی۔ اس نے کال اٹینڈ کرنا چاہی دو تین بار انگلی سے سکرین دبائی لیکن کال اٹینڈ ہونے کی بجائے ریجیکٹ ہوگئی ۔ اس نے دل میں سوچا کہ کاش اس دفعہ پاسپورٹ رینیوئل کے پیسے نہ دینے پڑتے تو میں ایک نیا موبائیل خرید لیتا۔ دوبارہ گھنٹی بجی اب کے اس نے بڑی احتیاط سے مختلف زاویے سے سکرین پر انگلی رکھی ۔ کال اٹینڈ ہو گئی ۔ اس نے ہینڈ ز فری نکالنے کیلیے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ساتھ ہی میڈیکل انشورنس کا کارڈ بھی اس کے ہاتھ میں آگیا ۔ اسے یاد آیا کہ صبح اس لیے جیب میں ڈالا تھا کہ واپسی پر ہسپتال جانا ہے ۔ اس کے پیروں میں سیمنٹ کی وجہ سے الرجی ہو گئی تھی جو سارا دن سیفٹی بوٹوں میں ٹھنسے ہونے کے باعث مزید خراب ہورہی تھی ۔ اس نے بدبودار گیروی آستین سے ماتھے کا پسینہ صاف کیا اور ہینڈز فری کانوں میں اڑس لی ۔
اس کی چھوٹی عاشی بول رہی تھی ۔
" بابا دیکھیں ماما نے آج پھر چکن بریانی بنا دی میں نے کہا بھی تھا پلاؤ بناؤ۔.مجھے چکن بہت گندا لگتا ہے.۔
بابا آج اچھی ماموں بھی آئے ہیں ہم سب موٹر سائیکل پہ باہر گھومنے گئے تھے ہم نے آئس کریم بھی کھائی تھی ۔
بابا ماموں سے بات کرواؤں؟۔ "
اس کا جواب سنے بغیر ہی عاشی نے فون ماموں کو پکڑا دیا ۔ " بھائی جان کیسے ہیں آپ ۔؟" 
اچھی نے رسماً پوچھا تو اس نے بھی سپاٹ لہجے میں جواب دیا
" میں ٹھیک ہوں"
اس نے ایک نظر ٹوٹی ہوئی سکرین والے موبائل کو اور دوسری نظر کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھتی ہوئی قطار کو دیکھا۔
"بھائی جو آپ نے سیل فون بھیجا تھا نا وہ گوگی باجی کو پسند آ گیا اب میرے لیے ایک اور موبائل بھیج دیں لیکن پہلے والا نہ بھیجیے گا وہ ایپل کا نیا ماڈل آیا ہے میں کل اس کی تصویر آپ کو وٹس ایپ کر دوں گا"
۔ "باجی سے بات کریں گے۔؟ "
یہ کہہ کے اچھی نے فون اپنی باجی کو پکڑا دیا ۔
"ہیلو جی آپ کیسے ہیں؟
 کام سے واپس آ گئے؟
اچھا آج نا میں گئی تھی حمیرا کی طرف ۔ اس کی نند کی شادی ہے نا تو اس نے بلا یا تھا کہ آ کے کچھ سیٹنگ کروا دو۔ تھک گئی سارا دن ۔ کام بھی کچھ خاص نہیں کیا اور میری تو کمر اکڑ گئی ہے قسم سے. اچھا یاد آیا وہ کہہ رہی تھی کہ بھائی سے کہہ کے مجھے دوبئی سے میک اپ کٹ منگوا دو ۔ کرسٹن ڈائر کی. سنا ہے وہاں سے ایک نمبر مل جاتی ہے ۔ وہ تو پیسے دے رہی تھی میں نے کہا شرم نہیں آئے گی تجھے تیرا بھائی دوبئی میں کام کرتا ہے اور تو اسے میک اپ کٹ کے پیسے دے گی۔ اچھا سنیے میرے لیے نا اچھا سا ایک پرفیوم ضرور بھیجیے گا۔ "
طفیل کے پاس ان ساری باتوں کا جواب سوائے ایک ٹھنڈی سانس کے اور کچھ نہیں تھا. ۔
باتیں چلتی رہیں اور پتہ نہیں کب اس کی پلیٹ میں بنگالی چاول اور باس والی مچھلی کا ایک ٹکڑا آ گرا ۔ آج کے مینیو میں یہی کچھ تھا۔ اس نے پھر بات کرنے کا کہہ کر فون بند کیا اور ایک ٹیبل پر بیٹھ کرکھانا کھانے لگا.
جب وہ میس سے نکلا تو ساڑھے دس بج چکے تھے ۔ صبح ساڑھے تین بجے اٹھنے کے لیے رات کو جلدی سونا پڑتا ہے لیکن جب وہ تین منزلوں کی آہنی سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے کے سامنے پہنچا تو اس نے دیکھا کہ کسی نے اس کے بھیگے ہوئے کپڑوں کی بالٹی اٹھا کے دروازے کے باہر رکھ دی تھی.
اسے یاد آیا کہ جمعرات کو کپڑے اس لیے بھگوئے تھے کہ جمعے کو دھل جائیں گے لیکن جمعے کو پھر سائٹ پر جانا پڑا اور اب ان میں سے بو آنے کی وجہ سے دوسرے لوگوں نے اٹھا کر باہر رکھ دیے. وہ کمرے میں داخل ہونے کی بجائے سیفٹی بوٹ وہیں اتار کر ننگے پاؤں بالٹی لیے نیچے واشنگ ایریا میں آگیا. اس کے ننگے پیر زمین پر لگنے مشکل تھے. اسے سیمنٹ سے الرجی ہو گئی تھی اور چھالے مسلسل رس رہے تھے. پچھلی دفعہ ڈاکٹر نے جو مرہم لکھ کے دی تھی وہ سٹور سے دو سو درہم کی مل رہی تھی اسی لیے اس نے نہ لی لیکن اس کے بعد میڈیکل انشورنس کارڈ لے کر ہسپتال جانے کا موقع ہی نہ مل سکا.
رات کے پونے بارہ بجے جب وہ گیلی ڈانگری نچوڑ کر کمرے باہر بندھی تار پر پھیلا رہا تھا تو اس کے ذہن میں یہی سوچیں کولہو کے بیل کی طرح گردش کر رہی تھیں کہ
جب حلیمہ کو پتہ ہے کہ عاشی چکن نہیں کھاتی تو وہ ہر روز کیوں بنا لیتی یے.
اچھی سے موبائل گوگی نے لے لیا ہے تو اسے نیا آئی فون لے کے دینا پڑے گا اور
حمیرا کی نند کی شادی اللہ کرے تنخواہ کے بعد ہی ہو.
اب پتہ نہیں کرسٹن دائر کی میک اپ کٹ کتنے کی آئے گی.
کپڑوں سے آنے والی دو دنوں سے بهيگے تعفن زدہ واشنگ پاؤڈر کی سڑاند نے اسے یاد دلایا کہ
حليمہ نے پرفیوم بھی کہا تھا.



 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔