Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 27 ستمبر، 2021

شہنشاہ ہند بہادر شاہ ظفر 1775۔1860

آج سے ٹھیک 184 برس قبل یعنی 28 ستمبر 1837 کو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی تاجپوشی 62 سال کی عمر میں  ہوئی تھی۔ایک صدی سے زیادہ عرصے تک ہندوستان کے آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی قبر کا نام و نشان نہیں ملتا تھا، لیکن اب اس کی حادثاتی دریافت نے اس صوفی بزرگ، عمدہ اردو شاعر اور تاریخ کے بدنصیب بادشاہوں میں سے ایک کی یاد دوبارہ تازہ کر دی ہے۔

 بہادر شاہ ظفر کا نام ابو ظفر سراج الدین محمد تھا۔ ان کی ولادت اکبر شاہ ثانی کے زمانۂ ولی عہدی میں ان کی ہندو بیوی لال بائی کے بطن سے 14 اکتوبر 1775 میں ہوئی۔ ابو ظفر تاریخی نام ہے۔ اسی مطابقت سے انہوں اپنا تخلص ظفر رکھا۔ چونکہ بہادر شاہ کے جد امجد اورنگ زیب کے بیٹے کا لقب بھی بہادر شاہ تھا لہٰذا وہ بہادر شاہ ثانی کہلائے۔ ان کی تعلیم قلعۂ معلی میں پورے اہتمام کے ساتھ ہوئی اور انہوں نے مختلف علوم و فنون میں مہارت حاصل کی۔ لال قلعہ کی تہذیبی زندگی اور اس کے مشاغل میں بھی انہوں نے گہری دلچسپی لی۔ 

شاہ عالم ثانی کا انتقال اس وقت ہوا جب ظفر کی عمر 31 سال تھی لہٰذا انہیں دادا کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کا پورا موقع ملا۔ ان ہی کی صحبت کے نتیجہ میں بہادر شاہ ظفر کو مختلف زبانوں پر قدرت حاصل ہوئی۔ اردو اور فارسی کے ساتھ ساتھ برج بھاشا اور پنجابی میں بھی ان کا کلام موجود ہے۔ ظفر منکسر المزاج اور خلیق انسان تھے۔ ان کے اندر حلم و ترحم تھا اور غرور و نخوت ان کو چھو کر نہیں گیا تھا۔ شاہانہ عیش و آرام کی زندگی گزارنے کے باوجود انہوں نے شراب کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا۔ شہزادگی کے زمانہ سے ہی مذہب کی طرف جھکاؤ تھا اور کالے صاحب کے مرید تھے۔ اپنے والد اکبر شاہ ثانی کے گیارہ لڑکوں میں وہ سب سے بڑے تھے۔ لیکن اکبر شاہ نے اپنے دوسرے چہیتے بیٹے مرزا سلیم کو ولی عہد بنانا چاہا۔ انگریز اس کے لئے راضی نہیں ہوئے۔

 پھر اکبر شاہ ثانی کی چہیتی بیوی ممتاز محل نے اپنے بیٹے مرزا جہانگیر کو ولی عہد بنانے کی کوشش کی بلکہ ان کی ولی عہدی کا اعلان بھی کر دیا گیا اور گورنر جنرل کو اس کی اطلاع کر دی گئی جس پر گورنر جنرل نے سخت تنبیہ کی کہ اگر انہوں نے انگریزوں کی ہدایات پر عمل نہ کیا تو ان کی پنشن بند کر دی جائے گی۔ 

مرزا جہانگیر نے ایک مرتبہ ظفر کو زہر دینے کی بھی کوشش کی اور ان پر غیر فطری حرکات کا الزام بھی لگایا گیا لیکن انگریز ظفر کی عزت کرتے تھے اور ان کے خلاف محل کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہوئی۔ 1837میں اکبر شاہ ثانی کے انتقال کے بعد بہادر شاہ کی تاجپوشی ہوئی۔

 قلعہ کے دستور کے مطابق بہادر شاہ ظفر کی شادی نو عمری میں ہی کر دی گئی تھی اور تاجپوشی کے وقت وہ پوتے پوتیوں والے تھے۔ ظفر کی بیگمات کی صحیح تعداد نہیں معلوم لیکن مختلف ذرائع سے شرافت محل بیگم، زینت محل بیگم، تاج محل بیگم، شاہ آبادی بیگم، اختری محل بیگم، سرداری بیگم کے نام ملتے ہیں۔

 ان میں زینت محل سب سے زیادہ چہیتی تھیں اور ان سے ظفر نے اس وقت 1840 میں شادی کی تھی جب ان کی عمر 65 سال تھی۔ جب کہ زینت محل 19 سال کی تھیں۔ تاج محل بیگم بھی بادشاہ کی چہیتی بیویوں میں تھیں۔ شاہ آبادی بیگم کا اصل نام ہندی بائی تھا۔ اختری محل بیگم ایک گانے والی تھیں، سرداری بیگم ایک غریب گھریلو ملازمہ تھیں جن کو ظفر نے رانی بنا لیا۔ ظفر کے 16 بیٹے اور 31 بیٹیاں تھیں۔ بارہ شہزادے 1857 تک زندہ تھے۔

 بہادر شاہ ایک وسیع المشرب انسان تھے۔ وہ ہندؤں کے جذبات کی بھی قدر کرتے تھے اور ان کی بعض رسوم بھی ادا کرتے تھے۔ انہوں نے شاہ عباس کی درگاہ پر چڑھانے کے لئے ایک علم لکھنؤ بھیجا تھا جس کے نتیجہ میں افواہ پھیل گئی تھی کہ وہ شیعہ ہو گئے ہیں لیکن ظفر نے اس کی تردید کی۔ 

انگریزوں کی طرف سے ظفر کو ایک لاکھ روپئے پنشن ملتی تھی جو ان کے شاہانہ اخراجات کے لئے کافی نہیں تھی لہٰذا وہ ہمیشہ مالی تنگی کا شکار اور قرض مند رہتے تھے۔ ساہوکاروں کے تقاضے ان کو فکر مند رکھتے تھے اور وہ نذرانے وصول کرکے نوکریاں اور عہدے تقسیم کر تھے تھے۔

 لال قلعہ کے اندر چوریوں اور غبن کے واقعات شروع ہو گئے تھے۔ بہادر شاہ کی عمر بڑھنے کے ساتھ انگریزوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ دہلی کی بادشاہت ختم کر دی جائے گی اور لال قلعہ خالی کرا کے شہزادوں کا وظیفہ مقرر کر دیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے شہزادہ مرزا فخرو سے جو ولی عہدی کے امیدوار تھے، ایک معاہدہ بھی کرلیا تھا لیکن کچھ ہی دنوں بعد 1857 کا ہنگامہ برپا ہو گیا، جس کی قیادت دہلی میں شہزادہ مغل نے کی۔ کچھ دنوں کے لئے دہلی باغیوں کے قبضہ میں آ گئی تھی۔ بہادر شاہ شروع میں اس ہنگامے سے بالکل بے تعلق رہے۔ وہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ ہو کیا رہا ہے۔ جب ان کو پتہ چلا کہ ہندوستانی سپاہیوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کردی ہے تو ان کی پریشانی بڑھ گئی۔ انہوں نے کوشش کی کہ باغی اپنے ارادے سے باز آ جائیں اور باغیوں سے کہا کہ وہ انگریزوں سے ان کی صلح کرا دیں گے لیکن جب باغیوں نے پوری طرح دہلی پر قبضہ کر لیا تو ان کو زبردستی مجبور کیا کہ وہ تحریک کی قیادت اپنے ہاتھ میں لیں۔ شروع میں انہوں نے بادل ناخواستہ اس زبردستی کو قبول کیا تھا لیکن جب تحریک زور پکڑی گئی تو وہ اس میں پھنستے چلے گئے اور آخر تک تحریک کے ساتھ چار مہینے آٹھ دن  رہے۔ اور 21 ستمبر  1857 کو کیپٹن ہڈسن نے   شہنشاہ ہند بہادر شاہ  ظفر کو  زینت محل اور ملازم خاص پنہ لال  کی مخبری پر محل سے گرفتار کر لیا گیا۔ 

 چار مہینے گرفتار رکھنے کے بعد 7 جنوری 1858 کو مقدمے کی کاروائی شروع ہوئی ، جو لگاتار 21 دن جاری رہی ۔ ملکہ وکٹوریہ کی ملٹری کورٹ نے مندرجہ ذیل چارجز بادشاہ پر لگائے ۔

 1-کمپنی سرکار سے پنشن لینے کے باوجود  کمپنی کے ہندوستانی افسران اور سپاہیوں کو بغاوت کے لئے اُکسایا ۔

2۔10 مئی سے مغل شہزادوں نے دلّی صوبے کے لوگوں کو بغاوت کے لئے  اُکسایا ۔

3۔سرکار سے پنشن لینے کے باوجود ، سرکار کا حق ادا نہ کرکے اپنے فوجوں کو سرکاری فوجوں سے لڑوایا   اور بغاوت کا مرتکب ہوا۔

4۔ قلعے میں موجود انگریز افسروں اور سپاہوں کو قتل کروایا نیز نزدیکی ریاستوں کے حاکموں کو پیغام بھجوا کر بغاوت پر اُکسایا اور وہاں موجود انگریز افسروں اور سپاہیوں کو قتل کروایا ۔

بہادر شاہ ظفر نے یہ کہہ کر  الزام قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ میں بے خبر اور معصوم ہوں ۔میرے تمام فرامین پر دستخط باغیوں نے  مجھے مجبور کرکے لگا کر شاہی مہر ثبت کی ۔

 بہادر شاہ ظفر جس کی بادشاہت کا اعلان باغی سپاہیوں نے کردیا تھا۔ بادشاہ نے اعلان کیا :نہ تو میں بادشاہ ہوں اور نہ بادشاہوں کی طرح تمہیں کچھ دے سکتا ہوں ۔ بادشاہت تو عرصہ ہوا میرے گھر سے جا چکی ۔ میں تو ایک فقیر ہوں جو اپنی اولاد کو لے کر ایک تکیہ میں بیٹھا ہوں۔ مگر باغیوں کا اصرار تھا کہ وہ ان کا بادشاہ بنے۔ بہادرشاہ ظفر نہ بادشاہت کی صلاحیت رکھتا تھا اور نہ باغیوں کی مخالفت کرنے کی طاقت۔ 

بادشاہ   ملٹری کورٹ کی تمام کاروائی کے دوران اونگھتا رہتا ۔ یہاں تک کے اُس کے ملازم خاص  پنہ لال نے گواہی دی کہ بادشاہ نے ایرانی حکومت کو انگریزوں کے خلاف اکسانے کے خطوط بھیجے  ۔ بادشاہ کے خلاف گواہیاں دینے والوں میں ۔ ماکھن چند۔ بسنت خواجہ ۔حکیم احسن اللہ خان ۔ محبوب علی خان اور بیگم زینت محل شامل تھے۔چنانچہ  سارے الزام درست ثابت ہوئے اور شہنشاہِ ھند بہادرشاہ ظفر کو 17 اکتوبر 1858 کو کلکتہ بھیج دیا ۔ جہاں سے بادشاہ کو کالا پانی (رنگون کا جزیرہ) بھجوادیا اور اِس کے ساتھ بادشاہ کا نام جمعہ کے خطبے میں لینے کی ممانعت کردی ۔

گرفتاری کے بعد مقدمہ کی سماعت کے دوران بہادر شاہ نے انتہائی بے چارگی کے دن گزارے۔ قید میں ان سے ملنے گئی ایک خاتون نے ان کی حالت اس طرح بیان کی ہے،

’’ ہم نہایت تنگ و تاریک چھوٹے سے کمرہ میں داخل ہوئے۔ یہاں میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے اک کمزور، دبلا پتلا، پستہ قد بڈھا سردی کے سبب گندی رضائیوں میں لپٹا ایک نیچی سی چارپائی پر پڑا تھا۔ 

ہمارے داخل ہوتے ہی وہ حقہ جو وہ پی رہا تھا، ایک طرف رکھ دیا اور پھر وہ شخص جو کبھی کسی کو اپنے دربار میں بیٹھا ہوا دیکھتا، اپنی توہین سمجھتا تھا، کھڑے ہو کر ہم کو نہایت عاجزی سے سلام کرتا جا رہا تھا کہ اسے ہم سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔‘‘

  19 مارچ 1858 کو عدالت نے بہادر شاہ ظفر کو ان تمام جرائم کا مرتکب ٹھہرایا جن کا ان پر الزام لگایا گیا تھا۔ 7 اکتوبر 1858 کو سابق شہنشاہ دہلی اور مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ثانی نے دہلی کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا اور رنگون میں جلا وطنی کے دن گزارتے ہوئے 7 نومبر 1860 کو صبح پانچ بچے قید حیات و بند غم سے چھوٹ گئے۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

٭ ۔اگلا مضمون۔

٭۔تو کتنا بد نصیب ظفر 

٭- کالا پانی اور شہنشاہ ہند بہادر شاہ ظفر 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔