Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 6 نومبر، 2021

تو کتنا بد نصیب ظفر دفن کے لئے

 بہادر شاہ ظفر کی غیر معمولی شہرت کی وجہ 1857 کا انقلاب ہے، تاہم ان کی ہمہ گیر شخصیت میں اس بات کا بڑا دخل ہے کہ وہ اودھ کے ایک اہم شاعر تھے۔ بہادر شاہ ظفر جس طرح بادشاہ کی حیثیت سے انگریزوں کی چالوں کا شکار ہوئے۔ اسی طرح ایک شاعر کی حیثیت سے بھی ان کے سر سے سخن وری کا تاج چھیننے کی کوشش کی گئی اور کہا گیا کہ ظفر کی شاعری میں جو خوبیاں ہیں وہ ان کے استاد ذوقؔ کی دین ہیں۔ 

سرسید کے سامنے جب اس خیال کا اظہار کیا گیا تووہ بھڑک اٹھے تھے اور کہا تھا کہ، ’’ذوق ان کو لکھ کر کیا دیتے اس نے تو خود زبان قلعہ معلیٰ سے سیکھی تھی۔‘‘ اس میں شک نہیں کہ ظفر ان شاعروں میں ہیں جنہوں نے شعری اظہار میں اردو پن کو فروغ دیا اور یہی اردو پن ظفر کے ساتھ ذو قؔ اور داغؔ کے وسیلے سے بیسویں صدی کے عام شاعروں تک پہچا۔

 مولانا حالیؔ نے کہا کہ ’’ظفر کا تمام دیوان زبان کی صفائی اور روزمرہ کی خوبی ہیں، اول تا آخر یکساں ہے‘‘ 

آب بقا کے مصنف خواجہ عبد الرؤف عشرت کا کہنا ہے کہ ’’اگر ظفر کے کلام پر اس اعتبار سے نظر ڈالی جائے کہ اس میں محاورہ کس طرح ادا ہوا ہے، روزمرہ کیسا ہے، اثر کتنا ہے اور زبان کس قدر مستند ہے تو ان کا مثل و نظیر آپ کو نہ ملے گا۔ ظفر بطور شاعر اپنے زمانہ میں مشہور اور مقبول تھے۔‘‘  

منشی کریم الدین’’طبقات شعرائے ہند‘‘ میں لکھتے ہیں، ’’شعر ایسا کہتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں ان کے برابر کوئی نہیں کہہ سکتا۔ تمام ہندوستان میں اکثر قوالی اور رنڈیاں ان کی غزلیں، گیت اور ٹھمریاں گاتے ہیں۔‘‘

جب7 نومبر 1862 کو بہادر شاہ ظفر نے میانمار کے شہر رنگون (حالیہ نام ینگون) کے ایک خستہ حال چوبی مکان میں آخری سانس لی تو ان کے خاندان کے گنے چنے افراد ہی ان کے سرہانے موجود تھے۔ 

اسی دن برطانوی افسران نے انھیں رنگون کے مشہور شویداگون پیگوڈا کے قریب ایک بےنشان قبر میں دفن کر دیا۔ یہ ایک ایسے شہنشاہ کا تلخ، حوصلہ شکن اور خجالت آمیز انجام تھا جس کے پرکھوں نے آج کے انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے وسیع علاقوں پر صدیوں تک شان و شوکت سے راج کیا تھا۔ یہ بات درست ہے کہ بہادر شاہ ظفر کے پاس وہ سلطنت نہیں رہی تھی جو ان کے آبا اکبرِ اعظم یا اورنگ زیب عالمگیر کے پاس تھی، لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ 1857 کی جنگِ آزادی میں ان کی پکار پر ہندوستان کے طول و عرض سے لوگ انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

اس جنگ میں شکست کے بعد مغل شہنشاہ پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا، اور انھیں قید کر کے برما جلاوطن کر دیا گیا۔

  19 مارچ 1858 کو عدالت نے بہادر شاہ ظفر کو ان تمام جرائم کا مرتکب ٹھہرایا جن کا ان پر الزام لگایا گیا تھا۔ 7 اکتوبر 1858 کو سابق شہنشاہ دہلی اور مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ثانی نے دہلی کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا اور رنگون میں جلا وطنی کے دن گزارتے ہوئے 7 نومبر 1882 کو صبح پانچ بجے قید حیات و بند غم سے چھوٹ گئے۔

  ان کی موت کے ساتھ ہی دنیا کے عظیم شاہی خاندانوں میں سے ایک کا اختتام ہو گیا۔ لیکن ان کا نام اور ان کی تحریر کردہ اردو شاعری زندہ رہی۔

شمع جلتی ہے پر اس طرح کہاں جلتی ہے

 ہڈی ہڈی مری اے سوز نہاں چلتی ہے۔

 1837 میں جب ظفر نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت عظیم مغلیہ سلطنت سکڑ کر دہلی کے گرد و نواح تک محدود ہو گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ ہمیشہ اپنی رعایا کے لیے شہنشاہ ہی رہے۔ انگریزوں نے پیروکاروں کے اٹھ کھڑے ہونے کے خطرے کے پیشِ نظر ان کی قبر کو بےنشان رکھا تھا۔ حتیٰ کہ ان کے مرنے کی خبر کو بھی ہندوستان پہنچتے پہنچتے دو ہفتے لگ گئے۔ 

اس کے بعد ایک سو برس تک ان کی قبر کا کسی کو پتہ نہیں تھا۔ لوگ ان کا نام بھی بھولنے لگے، لیکن پھر رفتہ رفتہ ان کا دوبارہ ذکر ہونے لگا۔ دہلی اور کراچی میں ان کے نام پر سڑکوں کے نام رکھے گئے اور ڈھاکہ میں ایک پارک ان سے موسوم کیا گیا۔ 'دا لاسٹ مغل' نامی کتاب کے مصنف اور مشہور تاریخ دان ولیم ڈیلرمپل نے بی بی سی کو بتایا: 

وہ خطاط، نامور شاعر اور صوفی پیر ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے شخص تھے جو ہندوؤں اور مسلمانوں کے اتحاد میں یقین رکھتا تھا۔ وہ کوئی ہیرو یا انقلابی رہنما نہیں تھے، لیکن وہ اپنے جدِ امجد اکبرِ اعظم کی طرح مسلم ہندوستانی تہذیب کی برداشت اور کثیر القومیت کی علامت ہیں۔

 ہندوستان کے دو بڑے مذاہب کے اتحاد کی طرف ظفر کے جھکاؤ کی ایک وجہ خود ان کا خاندان تھا۔ ان کے والد اکبر شاہ ثانی مسلمان جب کہ والدہ لال بائی ہندو راجپوت شہزادی تھیں۔ 

رنگون کے ایک پرسکون علاقے میں واقع بہادر شاہ ظفر کا مقبرہ ہندوستانی تاریخ کے ایک جذباتی اور متلاطم دور کی یاد دلاتا ہے۔ رنگون کے باسیوں کو یہ تو معلوم تھا کہ آخری مغل شہنشاہ ان کے شہر میں واقع چھاؤنی کے اندر کہیں نہ کہیں دفن ہیں، لیکن درست جگہ کا کسی کا علم نہیں تھا۔

 آخر 1991 میں مزدوروں کو ایک نالی کھودتے کھودتے اینٹوں کا چبوترہ ملا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ دراصل بہادر شاہ ظفر کی قبر ہے۔ بعد میں عطیات کی مدد سے یہاں مقبرہ تعمیر کیا گیا۔ ہندوستان میں قائم دوسرے مغل بادشاہوں کے عالی شان مقبروں کی نسبت یہ مقبرہ بہت معمولی ہے۔ ایک آہنی محراب پر ان کا نام اور خطاب رقم ہے۔ نچلی منزل پر ان کی ملکہ زینت محل اور پوتی رونق زمانی کی قبر ہے۔

  ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پہلا مضمون ۔

٭۔شہنشاہِ ہند بہادر شاہ ظفر 

اگلے مضامین ۔
٭- کالا پانی اور شہنشاہ ہند بہادر شاہ ظفر 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔