جب سکول سے دیر ہونے پر ، امّی پراٹھے پر اچار کا مصالحہ مسل کر ہاتھ میں پکڑا دیتی اور کہتیں ،
" نمّو راستے میں کھا لینا اور ھاں کسی دوست کو نہ دے دینا "
" نمّو راستے میں کھا لینا اور ھاں کسی دوست کو نہ دے دینا "
سکول پہنچتے پہنچے اچار پراٹھا کھا لیا جاتا جو گھر سے سو گز کے فاصلے پر تھا ۔ اور سکول میں لگے ہوئے نلکے سے منہ دھو کراور پانی پی کر اسمبلی میں جا پہنچتے ۔
پھر جونہی آدھے گھنٹے کی بریک ہوتی ، نمّو بھاگتے ہوئے گھر آتا، امّی نے چھلیاں ابال کر رکھی ہوتیں ۔آپا اور چھوٹے بھائی (امّو ) کا حصہ بھی امّی کے ھاتھ کی بنائی ہوئی کپڑے کی تھیلی میں لیتا اور راستے میں اپنی چھلی کھاتے ، سکول پہنچ کر دونوں کا حصہ انہیں دے دیتا ۔
امّی کی بنائی ہوئی چھلیوں سے، اصلی گھی کی سوندھی سوندھی خوشبو آتی ۔ ناشتہ ایک ہی ہوتا یعنی ، پراٹھا اور چائے ۔ پراٹھا بھی ڈبل پرت کا کرکراتا ہوا ہوتا ۔ جس کے اندر نرم چکر دار گودا ہوتا ،
جونہی امی سیدھے توے سے پراٹھا اتارتیں ، نمّو اپنا پراٹھا لے کر چارپائی پر جا بیٹھتا فوراً اُس کی بھاپ نکالتا اوپر کی پرت الگ اور نیچے کی الگ کرتا اور نہیں ٹھنڈا کرنے اور کڑک ہونے کے لئے رکھ دیتا ، ساتھ ہی نرم گودا چائے میں ڈبو کر کھاتا ۔
اُس کے بعد کڑ کڑ کرتی پرتیں ۔ کھاتا لیکن نظریں چھوٹے بھائی پر ہوتیں کہیں وہ پرتوں پر بلّی کی طرح جھپٹا نہ مارے ۔
پھر نّمو گھر سے دور چلا گیا جب چھٹیوں پر گھر آتا تو امّی وہی پراٹھا بنا کر دیتیں ، نمّو چوکی پر بیٹھ کر پراٹھے سے بھاپ نکالتا اور پرتیں علیحدہ کئے امّی سے باتیں کرتا ہوا ، بغیر چوکنا ہوئے کھاتا ، کیوں کہ امّو بھی نوکری پر دور جاچکا تھا ۔
پھر نمّو کی شادی ھوگئی ، اُس کی بیوی کو بھی کڑکڑاتا پراٹھا بنانا آتا تھا ، بچے ہوئے ، چھوٹے بچے کی ضد ہوتہ کہ ،
" پپّا کی طرح " بولنے والا پراٹھا " ہی کھاؤں گا ۔
اب کہاں وہ بولنے والا پراٹھا اور کہاں نمّو !
لیکن ، پریشان نہ ہوں !
اب بھی نمّو بولنے والے پاپوں سے کبھی کبھی ناشتہ کرتا ہے اور پراٹھوں کی آوازکا لطف لیتا ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں