Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 25 فروری، 2014

قاتل سپاہی




دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے ہیں۔ جون کا مہینہ ہے، سمن آباد میں ایک ڈاکیہ پسینے میں شرابور بوکھلایا بوکھلایا سا پھر رہا ہے محلے کو لوگ بڑی حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔۔ اصل میں آج اس کی ڈیوٹی کا پہلا دن ہے۔۔ وہ کچھ دیر ادھر ادھر دیکھتا ہے پھر ایک پرچون والے کی دکان کے پاس سائیکل کھڑی کر کے دکان دار کی طرف بڑھتا ہے-
" قاتل سپاہی کا گھر کون سا ہے  ؟  " اس نے آہستہ سے پوچھا۔۔
دکان دار کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔۔ اس کی آنکھیں خوف سے ابل پڑیں۔۔
" قق قاتل سپاہی۔۔ مم مجھے کیا پتا ؟  "  اس نے جلدی سے دکان کا شٹر گرا دیا۔۔


ڈاکیہ پھر پریشان ہو گیا ۔ اس نے بہت کوشش کی کہ کسی طریقے سے قاتل سپاہی کا پتا چل جائے لیکن جو کوئی بھی اس کی بات سنتا چپکے سے کھسک جاتا۔۔ ڈاکیہ نیا تھا نہ جان نہ پہچان اور اوپر سے قاتل سپاہی کے نام کی رجسٹری آکر وہ کرے تو کیا کرے کہاں سے ڈھونڈھے قاتل سپاہی کو؟؟ اس نے پھر نام پڑھا نام اگرچہ انگلش میں تھا لیکن آخر وہ بھی مڈل پاس تھا، تھوڑی بہت انگلش سمجھ سکتا تھا بڑے واضح الفاظ میں۔

قاتل سپاہی "غالب اسٹریٹ" سمن آباد لکھا ہوا تھا۔۔ دو گھنٹے تک گلیوں کی خاک چھاننے کے بعد وہ ہانپنے لگا۔ ایک گھرکے سامنے بنے ہوئے ، تھڑے پر وہ بیٹھ گیا ۔ پہلے روز ہی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔ اب وہ اپنے پوسٹ ماسٹر کو کیا منہ دکھائے گا ۔ اس کا حلق خشک ہو گیا اور پانی کی طلب محسوس ہوئی ،اس کا دل چاہا کہ اس  گھر  کی مکینوں سے   ، پانی کی درخواست کرے اورآئیندہ اسے پانی کی بوتل ضرور اپنے پاس رکھنا چاہئیے ۔   وہ اٹھا اور گھر کے دروازے پر لگی بیل پر انگلی رکھ دی ۔

اچانک اسے زور دار جھٹکا لگا ۔ جھٹکے کی اصل وجہ یہ نہیں تھی کہ بیل میں کرنٹ تھا بلکہ بیل کے نیچے لگی ہوئی پلیٹ پر انگلش میں  ،  "قاتل سپاہی"   لکھا ہوا تھا۔

خوشی کی لہر اس کے اندر دوڑ گئی  ، بھائی کون ہے اور قدموں کی آواز سنائی دی ، دروازہ کھلا اور ایک نوجوان باہر نکلا۔ ڈاکیے نے جلدی سے رجسٹری اس کے سامنے کر دی۔

کیا آپ کا ہی یہ نام ہے ؟
نوجوان نے نام پڑھا اور کہا نہیں یہ میرے دادا ہیں۔۔
ڈاکیے نے جلدی سے پوچھا ۔۔ ''کیا نام ہے ان کا؟
نوجوان نے بڑے اطمینان سے کہا '' قتیل شفائی "
(اشفاق احمد )
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔