یہ تو سب کو معلوم ہے کہ دماغ اور جسم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔سیرے برَم دائیں حصے اور بائیں حصے کا آپس میں رابطہ ہوتا ہے،لیکن تین دن کے بچے میں نہ تو فنون لطیفہ بیدار ہوتا ہے اور نہ ہی فنونِ کثیف، سیرے بلم اُس کی بیلنسنگ حرکات کوکنٹرول ہی نہیں کرتا ہے۔، پیچوٹری گلینڈ البتہ فعال ہوتا ہے لیکن مکمل نہیں، بلکہ ابتدائی سٹیج میں ہوتا ہے اور ہائپو تھیلا مَس جسم کے درجہ حرارت کوکنٹرول کررہا ہوتا ہے۔ پانچوں حسیات میں، سننے اور چھونے کی حسیات فعال ہونا شروع ہوتی ہیں۔ اور پھر آہستہ آہستہ وہ رنگوں کو بھی پہچانتا ہے اور فاصلے کا بھی اُسے ادراک ہوتا ہے، بیٹھ کر خود کو بیلنس بھی کرتا ہے،چھونے،سننے، دیکھنے، سونگھنے اور چکھنے کی حسیات، پختگی کی طرف رواں دواں ہوتی رہتی ہیں ۔ تقدیری افعال کے پیغامات، دماغ سے جسم میں دوڑتے ہیں، ہاتھ پاؤں چلانا، رونا، کلکاریاں مارنا اور سب سے اہم، چہروں کو پہچان کر اپنے رویئے ظاہر کرنا۔ بچے کا رونااور مسکرانا تقدیری فعل ہے، لیکن کلکاریاں مارنا اور ناپسندیدگی ظاہر کرنا، تدبیری عمل ہے۔ ایک پیدائشی بہرا اور اندھا بچہ اِن دونوں رویوں سے نا آشنا ہو گا۔ گویا، سننے اور دیکھنے کی حسیات انسانی جسم میں سب سے زیادہ اہمیت ہے، یہی انسانی دماغ میں ایک بہترین ذہن بناتی ہیں۔
یاد رکھیئے کہ انسانی ذہن کی بنیاد محبت اور خوف پر استوار ہوتی ہے.
بچے کا رونا خوف کی علامت ہے اور مسکرانا محبت کی۔ یہ بنیاد زندگی کے خاتمے تک انسان کے ساتھ رہتی ہیں۔ محبت روشنی ہے اور خوف تاریکی۔ بلکہ خوف کو آہستہ آہستہ زندگی میں اہم حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ خوف کے اِس آسیب کی بنیاد وہ درد ہے، جو سب سے پہلے دائی کے ہلکے سے تھپڑ سے بچے کے ذہن میں ڈالا جاتا ہے۔ پیدائش کے فوراً بعد لگنے والا یہ ہلکا سا تھپڑ، آہستہ آہستہ ایک ایسے جن کی شکل اختیار کر لیتا ہے کہ جس سے انسان کا فرار ممکن ہی نہیں۔ اِس جن کا زور توڑا جاسکتا ہے لیکن ختم کرنا ممکن نہیں۔اِسے انجانا خوف کہا جاتا ہے۔
بعض انسانوں میں یہ جن اتنا بڑا ہوچکا ہوتا ہے، کہ بیان سے باہر، اُنہیں ہر شئے اپنی دشمن نظر آتی ہے اور ہر شخص، اُسے اپنے خلاف سازش کرتا نظر آتا ہے۔ اِس کی مثال یوں لیں کہ بچوں کی کہانیوں میں ایک کہانی، ”ہائے منّا مر گیا“
جس میں ایک نوجوان لڑکی، جس کی چند دنوں بعد شادی ہونے والی تھی، اپنے گھر کے چھپر والے باورچی خانے میں کھانا پکا رہی تھی چولہے پر ھانڈی تھی اور نیچے آگ جل رہی تھی، سامنے ایک چھپکلی کا بچہ نکلا اور اوپر چڑھتا ہوا چھت پر جا پہنچا۔ اُس نے چھت کی طرف دیکھا جہاں چٹائی ادھڑ رہی تھی اور شہتیر بھی اتنا مضبوط نہ تھا، اُسے خیال آیا، کہ شادی کے بعد جب اُس کے ھاں مُنّا پیدا ہوگا اور جب وہ شرارتیں کرنے کے قابل ہوا اور وہ ماں کے گھر آئی، تو منّا لازمی اس باورچی کی چھت پر آنگن کی دیوار کے ساتھ چارپائی لگا کر چڑھے گا اور دیوار سے ہوتا ہوا وہ ابّا کے کمرے کی چھت پر جائے گا، وہاں وہ لازمی اچھلے گا، ابا جو بہت غصے والا ہے وہ شور مچاتا اپنی لاٹھی لے کر باہر آئے گا تو منّا گھبرا کر واپس، اترنے کے لئے دوڑے گا اور بے دھیانی میں اُس کا پاؤں اِس شہتیر پر پڑا تو شہتیر ٹوٹے گا اور نیچے چولہے میں آگ ہو گی اور آگ پر اماں نے کپڑے دھونے کے لئے پانی گرم کرنے کے لئے بڑا پتیلا رکھا ہوگا پانی ابل رہا ہوگا اور منّا سیدھا گرم پانی میں گرے گا اور جل کر مر جائے گا؟ یہاں پہنچتے ہی لڑکی نے سینے پر ہاتھ مار مار کررونا شروع کر دیا۔ ”ہائے منّا مر گیا“
ماں بہنیں، خالہ اور پھوپیاں دوڑی آئی اور سب نے اونچے سُروں میں، ”ہائے منّا مر گیا“ کے بین کئے تو محلے کی عورتیں بھی دوڑی آئیں اور شامل ہوگئیں کہ ”ہائے منّا مر گیا“ کوئی گھنٹے کے واویلا کے بعد جب تھکنے کو آئیں تو ایک نے پوچھا، ارے ”منّا مر گیا، پر منّا کہاں ہے؟
تو یہ جو مُّنا ذہن کی پیداوار ہوتا ہے۔ یہ پریشان رکھتا ہے۔ یہ سب انسان کے داہنی ذہن کی تخیلاتی سازش ہوتی ہے جو رائی کا پہاڑ بنانے کی خصوصی قوت رکھتی ہے۔ مثبت سوچ رکھنے والے، اِن پہاڑو ں سے عظیم الشان چیزیں برآمد کرتے ہیں نیز مُنّے کے مرنے سے پہلے، اُن تمام اسباب کا سدباب کرتے ہیں۔ اِس کے برعکس، منفی سوچ رکھنے والے ساری عمر، مُنّے کر مرنے پر بین کرتے رہتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں