فزیکل
سائنس کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مکمل تخلیق توانائی کی لہروں کی تہوں سے
مل کر بنی ہے، ایک کے اند ر ایک تہہ ہے، اور سب سے اندرونی تہہ ہی تخلیق کا مواد
ہے۔
ایک وقت تھا کہ جب فزکس کی بنیاد دو اصولوں پر سمجھی جاتی تھی،
ایک توانائی کی بچت اور دوسری مادے کی بچت۔ نہ مادہ اور نہ ہی توانائی تخلیق کی
جاسکتی تھی اور نہ ضائع کی جاسکتی تھی۔ یہ
دونوں الگ الگ محفوظ ہوتے اور ایٹم کو
مادے کا سب سے چھوٹا ذرّہ تصور کیا جاتا جو نہ تبدیل کیا جاسکتا اور نہ ضائع ہوسکتا تھا۔
نظریہ اضافیت( Theory of relativity )کی دریافت
نے اس سوچ میں بڑی تبدیلی لائی۔
مادہ ہی، توانائی کی دوسری قسم ہے،دونوں ہم پلہ ہیں، یہ اس سے الگ محفوظ نہیں
کیا جاسکتا۔ مادہ توانائی کی لہروں سے وجود میں آتا ہے اوردوبارہ ضائع ہو کر
توانائی کی لہروں میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ لیکن مادے کے بنانے میں جتنی توانائی کی
لہریں استعمال ہوئیں، وہ واپس اتنی ہی مقدار میں جمع ہوتی ہیں۔اس طرح توانائی کی
معمولی سے مقدار بھی ضائع نہیں ہوتی۔ یو ں تمام تخلیق، ناقابل ضیاع، توانائی سے
تعمیر ہوئی۔
لیکن ایٹم کی مزید تقسیم کی سوچ کو بھی نئی جہت دینا پڑی، نیوکلیئر
فزکس نے دریافت کیا کہ ایٹم کے عنصر( Element)کی مزید
عناصری ذرات( Elementary Particles )میں تقسیم، مستحکم پروٹان اور الیکٹران اور غیر مستحکم نیوٹران میں کی جاسکتی ہے۔ اور
ایٹم کے مقابلے میں یہ ذرّات، عنصر ی سطح پر بہت مستحکم ہیں۔
پچھلے چند
سالوں میں، عنصری ذرّات( Elementary Particles )کے بارے میں ہماری معلومات میں تیز رفتاری سے اضافہ ہوا
ہے۔اور کئی غیرمستحکم ذرات دریافت ہوئے ہیں۔ فزکس اب اس موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں
وہ ان ذرات کو بھی عناصر کہنے سے ہچکچاتی ہے، بلکہ وہ ایک قدم آگے بڑھ کر مادے کی
مستحکم ترین حالت کی دریافت کے راستے پر رواں ہو چکی ہے۔ جس میں وہ موجودہ عناصر
کے عنصری ذرات میں شاملات کی تلاش میں ہے۔
اس طرح فزکس کا رخ خود بخود مادے کی
اندورن ترین مرکز یا توانائی کی طرف ہو گیا ہے۔
فزکس کی دنیا میں، متناسب(Relative )یا متناسب میدان( Relative Field )کے وجود میں توانائی کی کئی اقسام ہیں، ان اقسام میں توانائی کی ایک قسم سے دوسری میں،آفاقی
تبدیلیاں قوانین فزکس کے مطابق ہوتی ہیں۔
فزکس کی جستجو میں سائنس دانوں کا نظریہ ہے کہ توانائی کی کسی
ایسی حالت کا لازمی وجود ہے جو توانائی کی قوتوں میں سب سے زیادہ مستحکم ہے۔ اور
باقی توانائی کی جتنی اقسام ہیں، اس لازوال مستحکم توانائی سے نکلنے والے ابھا ر ہیں
جو ہونی (Manifests ) کہلاتی ہیں اور وہ غیب میں ہیں یاجس کا امکان انسان نہیں کر سکتا وہ انہونی (Un-manifest ) ہے۔ لیکن ہونی اور انہونی دونوں،
توانائی اور مادے کا مرکزِاخراج ہے۔ اِس
مقام پر توانائی کا اندازہ لگانا یا ناپنا موجودہ فزکس کے لئے ممکن نہیں۔ یہ توو
اضح ہے کہ ہر سوچ، توانائی کو استعمال کرتی ہے۔ دوردراز فاصلے پر سوچ، کی اُڑان ایک عام فہم طریقہ نہیں
لیکن سوچ کی توانائی کے نظریہ میں اس کا وجودہے۔
سوچ کی توانائی، اس بنیاد
کو ہم ”ہستی“ (Being)کہتے ہیں،
اس طرح ، ہستی( Being)اور مطلق (Absolute)آپس میں
مترادف( Synonymous) ہیں۔
ماضی میں انسان، فزکس کے سہارے، تخلیق کے لطیف ( Subtle )، سر ے کو
ڈھونڈھنے میں جتا ہواتھا، جس سے اُس کی صلاحیتوں میں، اُس کے تصورات سے اضافہ ہوا۔
ہماری معلومات کے مطابق
فزکس کی کوششوں سے،مادے اور توانائی کی لطیف تہوں کی دریافت میں اضافہ ہوا
ہے اور ہم نے اس علم سے فائدہ حاصل کیا ہے۔ ہماری زندگی پہلے سے زیادہ جامع، طاقتور،
مفید، ہماری امنگوں میں اضافہ ہوا ہے، ہم بہت زیادہ تخلیقی اور مطمئن ہوتے
جارہے ہیں، ہمیں علم ہوچکاہے کہ تخلیق کی
حتمی بنیاد ، مطلق توانائی زمین پر انسانی تمدّن،کامیابی کی ناقابلِ سوچ عظمت پر پہنچے گا۔
جیسے جیسے فزکس توانائی کی لطیف تہوں کی دریافت میں لگی ہوئی
ہے تویہ لطیف ذرات، یقینا حیات کے لاوجود
سے لازماً ٹکرائیں گے جو توانائی کے لطیف ( Subtle ) ذرات سے کہیں دوروجود رکھتے ہیں جو میدانِ ہستی (Field of Being) ہے۔یہی وجہ ہے کہ سائنس ابتداء کو
ایک حقیقت تسلیم کرتی ہے۔ صرف وقت کا انتظار ہے۔ مستقبل کے فزکس کے ماہرین، اس کا
اعتراف کریں گے کہ”ہستی“ کا نکتہ ہستی،
سائنس کی پہنچ سے کہیں دور ہے، لیکن اس سے انسان ان فوائد سے دور نہیں جن کی وجہ
سے اس کی زندگی حقیقتوں کے بنیادی وجود سے مستفید ہوتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آگے پڑھئیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں