صبح آٹھ بجے ،وہ اٹھا
اس کا دل چاہا کہ وہ کہیں دور جائے ، اس نے تیاری کی بہترین سوٹ پہنا، ہاتھ میں
چھڑی لی ، وسیع الشان گھرسے باہر نکل کر پورچ میں آیا ، جہاں دو چمچماتی اس سال کے
ماڈل کی کاریں کھڑی تھیں ، اس نے لان کی
طرف دیکھا اس کے بیوی اپنی بہو اور چھوٹی
پوتی اور پوتے کے ساتھ بیٹھی تھیں ۔باقی بچے سکول گئے تھے اور ناشتہ کر رہی تھیں ، پوتا دوڑ کر آیا اور دادا
سے لپٹ گیا ۔ وہ پوتے کو ساتھ لئے ہوئے ،
بیوی کی طرف بڑھا ۔
کہاں کے ارادے ہیں ؟ بیوی نے پوچھا ۔
کہاں کے ارادے ہیں ؟ بیوی نے پوچھا ۔
"بس ذرا پرانی یادیں تازہ کرنے کا
پروگرام ہے "۔ اس نے جواب دیا ۔
"جلدی آجانا " ۔بیوی نے کہا ۔
" ہوں"- یہ کہتے ہوئے وہ ڈرائیو وے کی طرف بڑھا ۔
"جلدی آجانا " ۔بیوی نے کہا ۔
" ہوں"- یہ کہتے ہوئے وہ ڈرائیو وے کی طرف بڑھا ۔
ڈرائیور نے دروازہ
کھولا وہ پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا ، ڈرائیور نے کار
گیٹ سے باہر نکالی دربان نے گیٹ
بند کر دیا -
وہ کام کرتے ہوئے تھک کر سڑک کے ساتھ بنی ہوئی حفاظتی دیوار پر بیٹھا تھا ، اس نے سامنے خوبصورت سکول یونیفار م میں، بچے سکول میں داخل ہو رہے تھے وہ حسرت سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا ، کیا میرا بچہ بھی اس سکول میں پڑھ سکتا ہے ؟ اس نے سوچا
وہ ایک ارادے سے اٹھا ، گیٹ کے چوکیدار کے پاس ، اپنا سامان رکھا اور سکول میں داخل ہوگیا ، چوکیدار اسے جانتا تھا ، وہ یہیں کام کرتا تھا ۔ وہ نپے تلے قدموں سے پرنسپل کے آفس کے پاس پہنچا، اور آفس میں داخل ہوا ۔
پرنسپل نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ، " کیا بات ہے ؟"
" میڈم ۔ میں اپنے بچے کو اس سکول میں داخل کروانا چاہتا ہوں ! "وہ لجائی ہوئی آواز میں بولا ۔
" کیا ؟ " میڈم کا منہ کھلا رہ گیا ۔ "باہر جاؤ " وہ دھاڑی ،" تمھاری ہمت کیسے ہوئی ، اپنے قد سے بڑی بات کرنے کی ؟ نکلو یہاں سے "
وہ کام کرتے ہوئے تھک کر سڑک کے ساتھ بنی ہوئی حفاظتی دیوار پر بیٹھا تھا ، اس نے سامنے خوبصورت سکول یونیفار م میں، بچے سکول میں داخل ہو رہے تھے وہ حسرت سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا ، کیا میرا بچہ بھی اس سکول میں پڑھ سکتا ہے ؟ اس نے سوچا
وہ ایک ارادے سے اٹھا ، گیٹ کے چوکیدار کے پاس ، اپنا سامان رکھا اور سکول میں داخل ہوگیا ، چوکیدار اسے جانتا تھا ، وہ یہیں کام کرتا تھا ۔ وہ نپے تلے قدموں سے پرنسپل کے آفس کے پاس پہنچا، اور آفس میں داخل ہوا ۔
پرنسپل نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ، " کیا بات ہے ؟"
" میڈم ۔ میں اپنے بچے کو اس سکول میں داخل کروانا چاہتا ہوں ! "وہ لجائی ہوئی آواز میں بولا ۔
" کیا ؟ " میڈم کا منہ کھلا رہ گیا ۔ "باہر جاؤ " وہ دھاڑی ،" تمھاری ہمت کیسے ہوئی ، اپنے قد سے بڑی بات کرنے کی ؟ نکلو یہاں سے "
وہ افسردہ پرنسپل کے
آفس سے باہر نکل آیا ۔ نہ اسے شرمندگی
ہوئی نہ ہی ندامت اور نہ ہی اسے اپنے حقیر ہونے کا احساس ہوا ، کیوں کہ ھوش سنبھالنے کے بعد وہ اس قسم کے حقارت
بھری الفاظ ، دھتکار اور تمسخر سنتا آیا تھا
۔
اس دن ان کی ، کچی بستی میں خوب صفائی ہوئی تھی ، کچی گلی میں چونا بھی ڈالا گیا تھا ۔ کچھ نے اپنے گھر کو دیواروں پر اپنی بساط کے مطابق چونا بھی کیا تھا کیوں کہ بڑے صاحب کی بیگم بھی آرہی تھی ، وہ دبلی پتلی خوبصورت سے خاتون ہمیشہ آتی ، ان کے ساتھ کچھ لمحے گذارتی ، ان کے بچوں کو میٹھی گولیاں اور دوسری چیزیں دیتی ، عورتوں سے ان کے مسائل سنتی اس کے ساتھ آیا ہوا ایک آفیسر کاغذ پر نوٹ کرتا اوروہ چلی جاتی ، آج پھر بیگم صاحبہ آرہی تھیں ۔ مرد سب ایک دری پر بیٹھے تھے عورتیں دوسری طرف، بیگم صاحبہ حسب معمول ، آفیسر اور دو نرسوں کے ساتھ آئیں ، آج بچوں کو ٹیکے بھی لگناتھے ، جاتے ہوئے بیگم صاحبہ نے کہا کہ اگر کسی کو کوئی کام ہو تو وہ میرے پاس بلا جھجک آسکتا ہے ۔
وہ کام کرتا ہوا پھر سکول کے سامنے پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بیگم صاحبہ بس سے اتریں ، وہ سلام کرنے بیگم صاحبہ کے پاس گیا ،" بیگم صاحبہ سلام " ہاتھ اٹھا کر سلام کیا ، بیگم صاحبہ نے سلام کا جواب دیا ۔ اور اس کی سوالیہ کو سمجھتے ہوئے پوچھا ، " کچھ کہنا ہے ؟"
" بیگم صاحبہ ، میں اپنے بچے کو اس سکول میں پڑھانا چاہتا ہوں " - وہ بولا ۔
بیگم صاحبہ نے بے اختیار مڑ کر سکول کی طرف دیکھا ، یہ سکول آفیسروں کے بچوں کے لئے تھا ۔
" تم سکول کی انتظامیہ کے پاس جاکر بات کیوں نہیں کرتے ؟" بیگم صاحبہ نے کہا ۔
" میں گیاتھا ، مگر انہوں نے انکار کر دیا ، یقین مانیں میں سکول کی فیس بھی پوری دوں گا اور میرا بچہ ، بہترین لباس میں سکول آئے گا ، اگر وہ کبھی گندہ ہوا تو بے شک اسے سکول سے نکال دینا" وہ پورے اعتماد سے بولا ۔
اس کے لہجے میں بیگم صاحبہ نے ایک عزم دیکھا ، وہ سکول میں چلی گئی ان کے اصرار پر بچے کو سکول میں داخلہ مل گیا ۔
وہ جب تمام بنگلوں کی صفائی کرنے کے بعد ، سکول کے سامنے سڑک کی صفائی کرتا ہوا تھک کر بیٹھتا تو اس کا بچہ بہترین سکول یونیفارم میں اپنی ماں کے ساتھ سڑک پر آتا دکھائی دیتا ، اور سکول میں داخل ہو جاتا ،و ہ بچہ ہمیشہ لباس کی صفائی کے پانچ نمبر لیتا ہوا آہستہ آہستہ اگلی کلاس میں جاتا رہا ، اس نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا تو وہ مٹھائی لے کر بیگم صاحبہ کے پاس گیا ۔ بیگم صاحبہ نے مبارکباد دی ، اس نے شکریہ ادا کیا اور پوچھا ، " مائیکل ،کیا اب بیٹے کو پی اے ایف میں ائر مین بھرتی کرواؤ گے "
مائیکل نے کہا ، "نہیں بیگم صاحبہ میں اسے ڈاکڑ بنوانا چاہتا ہوں "
ایف ایس سی ، پری میڈیکل میں مائیکل کے بیٹے نے اسی فیصد نمبر لئے تو مقامی چرچ نے اسے سکالر شپ پر میڈیسن کی تعلیم کے لئے اٹلی بھیجا ۔ اس کا بیٹا اٹلی سے بہترین ڈاکٹر بن کر آیا اور لاہور میں پریکٹس شروع کر دی ۔
اچانک پاس سے گذرتی ہوئی بس کا ہارن بجا وہ ماضی سے حال میں آگیا ، سکول کے سامنے اسی منڈیر پر بیٹھا وہ سوچ رہا تھا کہ اگر ، مسز سیسل چوہدھری اس کے لئے سکول انتظامیہ کو قائل نہ کرتیں تو ، آفیسروں اور جوانوں کے گھر اور بیرکیں صاف کرنے والے سوئیپر کے بیٹے کو ، پی اے ایف سکول میں داخلہ کیسے ملتا ، صرف اس کاہی نہیں بلکہ اور دوسرے سیپروں کے بچے بھی اسی پی اے ایف سکول سے پڑھ کر پاکستان کی ترقی کی دوڑ میں ، بیگم سیسل چوہدری کی وجہ سے شامل ہوئے ۔
اس دن ان کی ، کچی بستی میں خوب صفائی ہوئی تھی ، کچی گلی میں چونا بھی ڈالا گیا تھا ۔ کچھ نے اپنے گھر کو دیواروں پر اپنی بساط کے مطابق چونا بھی کیا تھا کیوں کہ بڑے صاحب کی بیگم بھی آرہی تھی ، وہ دبلی پتلی خوبصورت سے خاتون ہمیشہ آتی ، ان کے ساتھ کچھ لمحے گذارتی ، ان کے بچوں کو میٹھی گولیاں اور دوسری چیزیں دیتی ، عورتوں سے ان کے مسائل سنتی اس کے ساتھ آیا ہوا ایک آفیسر کاغذ پر نوٹ کرتا اوروہ چلی جاتی ، آج پھر بیگم صاحبہ آرہی تھیں ۔ مرد سب ایک دری پر بیٹھے تھے عورتیں دوسری طرف، بیگم صاحبہ حسب معمول ، آفیسر اور دو نرسوں کے ساتھ آئیں ، آج بچوں کو ٹیکے بھی لگناتھے ، جاتے ہوئے بیگم صاحبہ نے کہا کہ اگر کسی کو کوئی کام ہو تو وہ میرے پاس بلا جھجک آسکتا ہے ۔
وہ کام کرتا ہوا پھر سکول کے سامنے پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بیگم صاحبہ بس سے اتریں ، وہ سلام کرنے بیگم صاحبہ کے پاس گیا ،" بیگم صاحبہ سلام " ہاتھ اٹھا کر سلام کیا ، بیگم صاحبہ نے سلام کا جواب دیا ۔ اور اس کی سوالیہ کو سمجھتے ہوئے پوچھا ، " کچھ کہنا ہے ؟"
" بیگم صاحبہ ، میں اپنے بچے کو اس سکول میں پڑھانا چاہتا ہوں " - وہ بولا ۔
بیگم صاحبہ نے بے اختیار مڑ کر سکول کی طرف دیکھا ، یہ سکول آفیسروں کے بچوں کے لئے تھا ۔
" تم سکول کی انتظامیہ کے پاس جاکر بات کیوں نہیں کرتے ؟" بیگم صاحبہ نے کہا ۔
" میں گیاتھا ، مگر انہوں نے انکار کر دیا ، یقین مانیں میں سکول کی فیس بھی پوری دوں گا اور میرا بچہ ، بہترین لباس میں سکول آئے گا ، اگر وہ کبھی گندہ ہوا تو بے شک اسے سکول سے نکال دینا" وہ پورے اعتماد سے بولا ۔
اس کے لہجے میں بیگم صاحبہ نے ایک عزم دیکھا ، وہ سکول میں چلی گئی ان کے اصرار پر بچے کو سکول میں داخلہ مل گیا ۔
وہ جب تمام بنگلوں کی صفائی کرنے کے بعد ، سکول کے سامنے سڑک کی صفائی کرتا ہوا تھک کر بیٹھتا تو اس کا بچہ بہترین سکول یونیفارم میں اپنی ماں کے ساتھ سڑک پر آتا دکھائی دیتا ، اور سکول میں داخل ہو جاتا ،و ہ بچہ ہمیشہ لباس کی صفائی کے پانچ نمبر لیتا ہوا آہستہ آہستہ اگلی کلاس میں جاتا رہا ، اس نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا تو وہ مٹھائی لے کر بیگم صاحبہ کے پاس گیا ۔ بیگم صاحبہ نے مبارکباد دی ، اس نے شکریہ ادا کیا اور پوچھا ، " مائیکل ،کیا اب بیٹے کو پی اے ایف میں ائر مین بھرتی کرواؤ گے "
مائیکل نے کہا ، "نہیں بیگم صاحبہ میں اسے ڈاکڑ بنوانا چاہتا ہوں "
ایف ایس سی ، پری میڈیکل میں مائیکل کے بیٹے نے اسی فیصد نمبر لئے تو مقامی چرچ نے اسے سکالر شپ پر میڈیسن کی تعلیم کے لئے اٹلی بھیجا ۔ اس کا بیٹا اٹلی سے بہترین ڈاکٹر بن کر آیا اور لاہور میں پریکٹس شروع کر دی ۔
اچانک پاس سے گذرتی ہوئی بس کا ہارن بجا وہ ماضی سے حال میں آگیا ، سکول کے سامنے اسی منڈیر پر بیٹھا وہ سوچ رہا تھا کہ اگر ، مسز سیسل چوہدھری اس کے لئے سکول انتظامیہ کو قائل نہ کرتیں تو ، آفیسروں اور جوانوں کے گھر اور بیرکیں صاف کرنے والے سوئیپر کے بیٹے کو ، پی اے ایف سکول میں داخلہ کیسے ملتا ، صرف اس کاہی نہیں بلکہ اور دوسرے سیپروں کے بچے بھی اسی پی اے ایف سکول سے پڑھ کر پاکستان کی ترقی کی دوڑ میں ، بیگم سیسل چوہدری کی وجہ سے شامل ہوئے ۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں