Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 21 فروری، 2017

پتہ نہیں کب اسے انسان کھا گئے

میری اور اس کی ملاقات بہشت کے بند پڑے دروازے پر ہوئی تھی۔

میں اُس سے ذرا دیر پہلے، بڑی لمبی اور کٹھن مسافت کے بعد، پیچیدہ در  پیچیدہ راستوں سے گزرتی، اپنے لہولہان پُرزوں کا بوجھ اُٹھائے، تھکن سے چوُر بہشت کے بند پڑے دروازے تک پہنچی تھی اور ٹوٹ چکی سانس کے ساتھ دروازے کے سامنے یوں آ گری تھی، جیسے شکار ہو چکا پرندہ!

مجھ سے کچھ ہی دیر بعد وہ بھی لہولہان، ایک ہاتھ میں اپنا کٹا سر پکڑے ہوئے اور دوسرے ہاتھ سے اپنے ٹکڑوں کا ڈھیر گھسیٹتا، ہانپتا ہوا، میرے سامنے بہشت کے بند دروازے پر یوں اُترا تھا، جیسے بہت جلدی میں اندھا دھند دوڑا چلا آ رہا ہو! اپنے اِرد گِرد کا بھی ہوش نہ تھااُسے! بس پہنچتے ہی اُس نے بہشت کے دروازے سے اپنے پُرزے اور تن سے جُدا ہو چکا سر ٹکرانا اور چلّانا شروع کر دیا کہ “دروازہ کھولو ۔۔۔ میں آ گیا ہوں ۔۔۔۔ حوروں کو بتاؤ میں پہنچ چکا ہوں ۔۔۔ فرشتوں سے کہو میں بہشت کے دروازے پر کھڑا ہوں۔۔۔ فرشتو! ۔۔۔۔۔ حورو! ۔۔۔۔ آؤ ۔۔۔۔ مجھے سلام پیش کرو ۔۔۔ میں زیادہ دیر انتظار نہیں کر سکتا۔۔۔ میں بہت تھکا ہوا ہوں۔۔۔ سیدھا قربانی دے کر آ رہا ہوں۔۔۔ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہوں۔۔۔۔دروازہ کھولو ۔۔۔۔دروازہ کھولو ۔۔۔۔۔۔ حورو!۔۔۔۔ دروازہ کھولو ۔۔۔۔فرشتو! ۔۔۔ دروازہ کھولو ۔۔۔۔۔ حورو! ۔۔۔فرشتو ! “

بڑا ہی مالکانہ انداز تھا اُس کا! جیسے یہ طے تھا کہ اس دروازے کو اُس کے لیے کھلنا ہی ہے!

مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان کی حدِ نگاہ سے بھی اونچا، خلا میں کہیں جا کر اوجھل ہوتا ہوا بھاری اور دبیز دروازہ یوں ساکت و جامد کھڑا تھا جیسے ایک سانس جتنی جنبش کی بھی اجازت نہ ہو اُسے! سیاہی مائل قدیم ترین لکڑی پر پڑی خراشیں بتا رہی تھیں کہ میری اور اُس کی طرح کے کئی اِس دروازے سے سر ٹکراتے رہے ہیں! کس پر یہ دروازہ کھلا اور کس پر نہیں، کسی بھی نشاں میں مگر کوئی جواب نہ تھا!

وہ اپنا تن سے جُدا ہو چکا سر بہشت کے بند دروازے سے ٹکراتے ٹکراتے جب نڈہال ہوا تو شاید پہلی بار میری طرف متوجہ ہوا۔ مگر یوں چونکا جیسے میری موجودگی اس کے لیے مقامِ حیرت ہو! اس کی کٹی پھٹی پیشانی پر بل سا پڑ گیا

” تو کون ہے؟”

“میں؟”

میں نے اپنے کٹ چکے پُرزوں پر نگاہ ڈالی تو لگا کہ کچھ بھی تو نہیں رہی میں! سوائے گوشت کے لوتھڑوں کے! پر جس احساس کی شدت کے ساتھ میں بارود، دھول اور دھویں سے تڑپ کر اُٹھی تھی اور آہ و بکا کرتی اِس طرف دوڑی چلی آئی تھی، وہی بے اختیار کہہ بیٹھی

” میں ایک ماں ہوں “

اُس نے مجھے سر سے پاؤں تک ایک حقارت بھری نگاہ سے دیکھا

” مگر توُ تو عورت ہے!”

“عورت ہی تو ماں ہوتی ہے” میں نے اُسے یاد دلانا چاہا

“مگر یہاں بہشت کے دروازے پر ایک عورت کا کیا کام! “

بہشت پر اُس کے مالکانہ انداز سے میں گھبرا گئی تھی کہ کہیں وہ اس دروازے سے مجھے ہٹانے کا اختیار نہ رکھتا ہو!

” میں تو بس اس دروازے کے راستے ایک ذرا سی فریاد بھیجنے آئی ہوں اپنے ربّ کے حضور”

” فریاد؟ کیسی فریاد؟ بہشت فریاد داخل کرنے کی جگہ نہیں ہے عورت! بہشت تو مومن کے عمل کا صلہ ہے۔۔۔۔جیسے میں اپنا صلہ لینے آیا ہوں”

ساتھ ہی اُس نے اپنے کٹے پھٹے کندھوں کو یوں چوڑا کیا جیسے اپنے سینے پر لگا کوئی تمغہ دکھانا چاہتا ہو مجھے! لمحہ بھر میں ہی اُس نے مجھے کسی ایسے ملزم کا سا کر دیا تھا جو پرائے گھر کے دروازے پر مشکوک حالت میں پکڑا گیا ہو اور اب اپنی صفائی پیش کر رہا ہو!

” نہیں نہیں ۔۔۔۔ میں کوئی صلہ مانگنے نہیں آئی۔۔۔۔

میں تو خودکُش دھماکے میں مارے گئے لوگوں میں سے ایک ہوں۔۔۔۔۔
پیچھے رہ گئے میرے چار چھوٹے چھوٹے سے بچّے دھماکے والی جگہ پر مجھے آوازیں دیتے پھر رہے ہیں اور بکھرے پڑے انسانی اعضاء میں مجھے ڈھونڈ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔
ماں ہوں نا۔۔۔ بے بسی کے ساتھ اُن کی بے بسی دیکھ نہیں سکتی۔۔۔ ابھی تو وہ خود سے جینا بھی نہیں سیکھ پائے کہ میں پُرزے پُرزے ہو کر بکھر گئی! بس یہی فریاد اپنے رب تک پہنچانے نکلی ہوں کہ دیکھ میرے ساتھ تیرے اس جہاں میں کیا ہو گیا!”

جواب میں اپنی کٹی گردن کو اونچا کر کے اُس نے ایک مغرور سی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دیکھا اور ایک متکبّر سی ہنسی ہنس دیا

” اس طرح کے دھماکوں میں تو ہوتا ہے اس طرح۔۔۔۔۔ کُفار اسی طرح کی اجتماعی موت مرتے ہیں”

” کُفار!”

مجھ سے اُس کا یہ الزام قبول نہ ہوا۔ تڑپ اُٹھی میں

” نہیں نہیں ۔۔۔۔۔ وہاں بہت سے مسلمان بھی تھے۔۔۔۔میں بھی مسلمان ہوں”

” اچھا! مسلمان ہے توُ! ۔۔۔۔ نماز پڑھتی ہے؟”

“کبھی کبھی۔۔۔ “

ساتھ ہی میں نے شرمندگی سے سر جھکا لیا

“پردہ کرتی ہے؟ “

میری ڈھلکی گردن انکار میں ہلی اور دوبارہ ڈھلک گئی

“نہیں ۔۔۔۔ “

“بازار جاتی رہی ہے نا؟”

“ہاں ۔۔۔۔”

“نا محرم مردوں کے منہ بھی لگتی ہوگی توُ؟ “

“ہاں ۔۔۔۔۔”

میں بہشت کے بند دروازے کی دہلیز پر گڑی جا رہی تھی اور وہ اپنے ٹکڑے جوڑتا جاتا تھا اور میرے گناہوں کی فہرست کھولتا جاتا تھا۔

” عورت ہی مرد کو گمراہ کرتی ہے، یہ جانتی ہے نا توُ!”

” عورت فتنہ ہے، یہ جانتی ہے نا توُ؟”

” عورت دنیا کی گندگی ہے، یہ بھی جانتی ہوگی توُ!”

” پھر بھی کہتی ہے کہ مسلمان ہے توُ! ۔۔۔۔۔ اور وہ جو لوگ دھماکے میں مرے ہیں نا۔۔۔۔۔ وہ بھی تجھ جیسے نام کے مسلمان تھے۔۔۔۔۔ تجھ جیسوں کے لیے بہشت کا دروازہ نہیں کھلے گا۔۔۔۔۔ جا۔۔۔ واپس چلی جا”

اب اس کے ٹکڑے ہم آواز ہو کر بول رہے تھے جیسے بہت سارے آدمی بول رہے ہوں!

‘ تیرے لیے بہشت کا دروازہ نہیں کھلے گا ۔۔۔۔ تیرے لیے بہشت کا دروازہ نہیں کھلے گا ۔۔۔۔۔۔ جا۔۔۔۔ واپس چلی جا۔۔۔۔۔ جا۔۔۔۔۔۔ واپس چلی جا ۔۔۔۔۔۔”

اک شور سا مچ گیا تھا چاروں اور، جیسے شام ڈھلے کے وقت بہت سے کوّے ہم آواز ہو کر چیخ و پکار مچا رہے ہوں! اس نے ایک حقارت بھری نگاہ مجھ پر ڈالی اور بڑے مغرورانہ انداز میں مسکرایا

” ابھی یہ دروازہ کھلے گا۔۔۔۔ مگر حوریں مجھے لینے آئیں گی، اس لیے۔۔۔۔۔۔ اور تمہیں یہاں سے ہٹانے کے لیے دوزخ کے داروغہ کو بلایا جائے گا”

میرے مضطرب دل میں اُمید کی ایک بجھی بجھی سی چنگاری پھر سے سُلگ اٹھی کہ میں نہ سہی، وہ تو بہشت میں اندر جائے گا ہی ۔۔۔۔ میری فریاد بھی اس کے زریعے وہاں تک پہنچ جائے شاید، جہاں تک پہنچانے کے لیے میں اس لامتناہی سفر میں اُتر پڑی ہوں!

میں نے اپنے پُرزے اس کے پیروں میں بچھا دیے

” تم تو بہشت میں داخل ہو گے ہی ۔۔۔۔ بس میری فریاد بھی ساتھ لیتے جانا۔۔۔ کسی حور یا فرشتے کے حوالے کر دینا، آگے میرے ربّ تک پہنچانے کے لیے”

اس نے فوراً اپنے پیر میرے پرُزوں سے پرے کرتے ہوئے سمیٹ لیے، جیسے برہمن اچھوت سے پرے ہٹتا ہے!

” میں اپنے تمام گناہ معاف کروا چکا ہوں۔۔۔۔۔۔ اب کسی عورت کا ذکر بھی اپنے ساتھ بہشت میں نہیں لے جا سکتا”

ایک متکبرانہ نگاہ مجھ پر ڈال کر وہ پلٹا اور اپنا تن سے جُدا سر بہشت کے دروازے سے ٹکراتے ہوئے اب کے اُس کا انداز اُس فاتح کا سا تھا جو مفتوح شہر کے دروازے پر کھڑا ہو!

” حورو! ۔۔۔ سُن رہی ہو! دروازہ کھولو ۔۔۔۔ یہ میں ہوں ۔۔۔۔ تمہارا حقدار ۔۔۔۔ میں نے ثواب جیت لیا ہے۔۔۔آؤ آ کر دیکھو ۔۔۔ میں نے گردن کٹا لی ہے۔۔۔ میرے گناہ دُھل چکے ہیں۔۔۔آؤ ۔۔۔ مجھے بہشت کے اندر لے چلو ۔۔۔۔ حورو ۔۔۔۔ فرشتو ۔۔۔۔۔سُن رہے ہو!۔۔۔”

دروازہ ہُنوز ساکت و جامد، حدِ نگاہ سے بھی اونچا، یوں کھڑا رہا جیسے دم نکلتے سانس جتنی جنبش کی بھی اجازت نہ ہو اُسے! اُس کی آواز بھی اُس سناّٹے تلے بلآخر دب گئی اور اُس کے لہولہان پُرزے، سارے کے سارے دروازے کی چوکھٹ کے باہر نڈھال ہو کر ایک ایک کر کے دوبارہ ڈھیر ہوتے چلے گئے۔ ایک طویل سکوت کے بعد اس کا سر اس کے پُرزوں پر سے زرا سا لُڑھک کر ایک بار پھر میری طرف مُڑا۔

نفرت کے ساتھ تھک چکی آواز میں وہ مجھ پر غرّایا

“بہشت کا یہ دروازہ صرف تیری وجہ سے نہیں کھل رہا گنہگار عورت! صرف تیری وجہ سے۔۔۔۔۔۔ کہا تھا نا تجھے کہ بہشت عورت کے لیے نہیں ہے۔۔۔۔۔ بہشت صرف مجھ جیسے مومن کے لیے ہے جو تجھ جیسے گناہگاروں کا خاتمہ کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ اُٹھ۔۔۔ اُٹھا اپنی فریاد کی گٹھری ۔۔۔۔ واپس اسے پھینک دنیا کے کچرے میں، جہاں سے اُٹھا لائی ہے تو۔۔۔۔یا دوزخ کے دروازے پر جا کر بیٹھ ۔۔۔۔اور وہاں اپنی باری کا انتظار کر۔۔۔۔”

میں نے التجا آمیز نظروں سے اسے دیکھا

” اس گٹھری میں صرف میری فریاد نہیں ہے۔۔۔۔۔ جو لوگ اُس دھماکے میں مارے گئے ہیں نا۔۔۔ اُن کی ماؤں کی فریاد بھی اسی میں بھر لائی ہوں۔۔۔۔۔وہ بدنصیب پیچھے زندہ رہ گئی ہیں، اس لیے آ نہیں سکتی تھیں”

اپنی بات کا یقین دلانے کے لیے میں نے اُس کے سامنے گٹھری کھولنا چاہی مگر اُس نے نفرت سے منہ پھیر لیا

” نہیں نہیں ۔۔۔۔ میرے سامنے اتنی ساری عورتوں کی گٹھری کھولنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔”

میں نے مایوس ہو کر فریاد بھری گٹھری واپس سے لپیٹ لی اور اپنے عورت پنے پر شرمندگی کے ساتھ بہشت کے بند پڑے دروازے سے لوٹ جانے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ میں پلٹ چکی تھی اور وہ میرے عقب میں بہشت کے بند پڑے دروازے پر اب ایک نئے یقین کے ساتھ پھر سے پکار رہا تھا۔

” حورو! ۔۔۔ فرشتو! ۔۔۔ مبارک ہو۔۔۔ عورت جا چکی ہے۔۔۔اب صرف میں کھڑا ہوں دروازے پر۔۔۔ اب کھول دو دروازہ مجھ پر ۔۔۔۔ یقین کرو ۔۔۔۔ اب صرف میں ہوں۔۔۔صرف میں”

میں بھی اسی یقین کے ساتھ کہ میرے پیچھے بہشت کا دروازہ اُس کے لیے کھل ہی جائے گا، پیچھے مُڑ کر دیکھے بغیر پُل صراط کے پہلے موڑ کی طرف مڑی ہی تھی کہ پیچھے سے آتی آواز پر ٹھٹک کر ٹھہر گئی۔ کسی نے شاید مجھے ہی مخاطب کیا تھا، بھر آئے ہوئے بادلوں کی سی بھاری بھاری سی گرج آواز میں لیے ہوئے

” یہاں کوئی ماں آئی ہوئی ہے کیا؟”

پلٹ کر دیکھا۔ وہ پریشان اور چُپ سا، میری ہی طرف اُلجھی نظروں سے دیکھ رہا تھا

” تم نے پکارا مجھے؟” میں نے بے یقینی سے پوچھا۔ اُس نے اُسی حقارت کے ساتھ انکار میں صرف گردن ہلا دی۔ اگلے لمحے بدستور بند پڑے دروازے کے اندر کی جانب سے پھر وہی گرج سی گونجی

“یہاں کوئی ماں فریاد لائی ہے کیا؟”

ایک میں ہی تو ماں تھی وہاں! مجھے ہی پکارا جا رہا ہے! ۔۔۔۔۔۔ یقیناً مجھے ہی! مگر دروازے کے باہر تنا کھڑا وہ، اب بھی میرے راستے کی رکاوٹ بنا ہوا تھا اور میں دروازے کی طرف بے اختیار بڑھتے بڑھتے، دروازے سے کچھ فاصلے پر سہم کر ٹھہر گئی۔ اندر سے پھر آواز آئی

” دروازے کے قریب آؤ عورت”

” اسی لیے تو قریب نہیں آ رہی کہ میں عورت ہوں! “

میں بدستور خود پر گڑی اُس کی نگاہوں سے نگاہیں چُرائے ہوئے تھی

” معاملہ عورت اور مرد کا نہیں ہے اس وقت ۔۔۔۔۔۔ صرف ایک ماں کی فریاد سننے کا حکم ہے۔۔۔۔۔۔ اس لیے کہ تمہاری سسکیوں کی آواز بہت دور تک جا رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔ دروازے کے قریب آؤ ۔۔۔ اور اپنی فریاد بیان کرو”

اس بار بند پڑے دروازے کے قریب ہوئی تو یوں لگا جیسے میں اپنی مر چکی ماں کے سینے کے قریب آ گئی ہوں! میری ماں جو بچپن میں ذرا ذرا سی چوٹ پر مجھے سینے سے لگا لیا کرتی تھی۔۔۔بلکل اسی طرح دل چاہا کہ دروازے سے لپٹ جاؤں۔ دروازے پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دوں۔ اتنی آہ و بکا کروں کہ دروازہ پگھل جائے اور میں اُس میں جذب ہو جاؤں!

جس طرح بچپن میں سسک سسک کر ماں کو اپنی چوٹ دکھایا کرتی تھی، اُسی طرح بہشت کے بند دروازے کی دہلیز پر اپنا زخمی ہو چکا دل رکھ دوں اور دروازے کے دوسری طرف جو بھی ہے اُسے کہوں کہ بس یہی آہ و بکا فریاد ہے میری۔۔۔۔۔ بس یہی آہ و بکا پہنچا دو میرے ربّ کی بارگاہ میں۔

مگر ابھی تک سہمی ہوئی تھی میں۔ وہ اب بھی میرے عقب میں اِستادہ تھا اور اُس کی نظریں مجھے اپنی پشت پر اب بھی گڑی ہوں محسوس ہو رہی تھیں، یوں جیسے وہ کسی بھی لمحے مجھے پشت سے گھسیٹ کر اس دروازے سے جُدا کر سکتا ہے!

” فریاد کرو”

اندر سے آنے والی گرج میں اب حکم تھا اور میری آواز میں سسکی

” جناب! میں خودکُش دھماکے میں کئی ٹکڑوں میں کٹ کر جان سے جا چکی ماں ہوں ۔۔۔۔ میرے چار چھوٹے چھوٹے بچّے۔۔۔۔۔۔۔”

” معلوم ہے۔ کچھ بھی چھُپا ہوا نہیں ہے۔۔۔ صرف فریاد کرو” گرج میں مزید گرج اُتر آئی۔

” میرے بچے مجھے بکھرے پڑے انسانی اعضاء میں تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔۔۔۔”

” یہ بھی علم میں ہے۔۔۔۔ صرف فریاد کرو۔۔۔ماں کی فریاد سننے کا حکم ہے”

” خود کُش دھماکے کے اُس چوراہے پر کئی ماؤں کے بیٹے لہولہان بکھرے پڑے ہیں جناب! اور اُن کی ماؤں کی فریاد گٹھری میں بھر لائی ہوں ۔۔۔۔ مائیں برس ہا برس لہوُ پسینہ۔۔۔. جسم و جاں اور رت جگے بلو بلو کر۔۔۔۔۔ بڑی مشکل سے اولاد کو جوان کرتی ہیں جناب! یہ کیا کہ ماؤں کے پیروں تلے کا بہشت ابھی مکمل ہرا بھرا ہی نہ ہو کہ کوئی بھی آکر اُسے جلا دے! فریاد ہے ان سب کی میرے ربّ سے جناب!”

“ماؤں کی فریاد کی گٹھری کھول دو” اندر سے آواز آئی۔

زخمی، کٹے ہاتھوں کی اُنگلیوں کو سمیٹ کر میں نے گٹھری کھول دی۔ گٹھری میں بھری ماؤں کی فریاد سسکیوں میں بدل گئی اور سسکیاں گٹھری سے نکل نکل کر بہشت کے بند پڑے دروازے سے یوں لپٹتی گئیں، جیسے مسلسل برستی برسات کے قطرے در قطرے!

اچانک وہ میرے عقب سے چیخا

” دیکھا جناب! دیکھا! ۔۔۔۔ ان میں عیسائیوں اور ہندوؤں کی بھی مائیں ہیں! ان کا خاتمہ عین ثواب ہے اور خاتمہ کرنے والے پر بہشت کا دروازہ کھلنا چاہیے جناب!”

ساتھ ہی وہ اسی مالکانہ اختیار کے ساتھ اپنے کٹے ہاتھوں سے دروازے پر پھسلتی زار و قطار سسکیوں کو پونچھنے ہی لگا تھا کہ اندر سے آتی آواز اُس پر گرجی

” رک جاؤ ۔۔۔۔ “

وہ ساکت سا ہو کر ٹھہر کر رہ گیا۔ آواز کی گرج پر گو کہ اس کی طرح میں بھی سہم سہم سی جاتی تھی مگر اب وہ مجھ سے نظریں چرا رہا تھا، جیسے میں اس سے نظریں چراتی رہی تھی۔

” تم کون ہوتے ہو ماؤں کی فریاد کا مذہب چننے والے!”

“میں ۔۔۔۔!” وہ حیرت اور بے یقینی سے یوں چونکا جیسے حیران ہو کہ اسے کیسے نہیں پہچانا جا رہا!

” آپ نہیں جانتے جناب! کہ میں کون ہوں!”

” معلوم ہے اسی دھماکے کے خود کُش بمبار ہو ” اندر سے بے تاثر آواز میں جواب آیا

” پھر بھی آپ مجھے قریب آنے سے روک رہے ہیں! دروازہ کھولیے جناب اور مجھے اندر آنے دیجیے۔۔۔۔۔حوریں کب سے میری منتظر ہیں اور میں کب سے باہر کھڑا ہوں”

” حوروں کو تمہارے لیے قبولیت دینے کی اجازت نہیں دی گئی”

” کیسے قبولیت کی اجازت نہیں دی گئی! میں سر کٹا چکا ہوں۔۔۔ یہ رہا میرا سر ۔۔۔۔ میں پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہوں ۔۔۔۔ یہ رہے میرے ٹکڑے ۔۔۔۔ “

وہ دیوانہ وار اپنا سر اور ٹکڑے اُٹھا اُٹھا کر بہشت کے بند دروازے کے سامنے لہراتا جاتا تھا اور چیختا جاتا تھا۔

” اپنا سر اور ٹکڑے واپس اُٹھا لو۔۔۔۔۔ سر حوروں اور بہشت کے لیے نہیں کٹایا جاتا۔۔۔۔۔۔ سر صرف راہِ حق میں کٹتا ہے ۔۔۔۔ راہِ حق بھی وہ جو کسی بے خبر اور بے گناہ پر موت بن کر نہیں ٹوٹتی ۔۔۔بلکہ سینہ تان کر ظلم اور ناحق کے سامنے کھڑی ہوتی ہے۔۔۔۔ اُس مقام پر سر کٹتا ہے۔۔۔۔۔ ورنہ جان جس کے قبضے میں ہے۔۔۔۔ اسے کسی کی جان کی ضرورت نہیں۔۔۔۔ اور یہ جو تم لائے ہو ۔۔۔۔ یہ گندگی کا ڈھیر ہے۔۔۔۔ اور کچھ بھی نہیں”

اس کی خون آلود آنکھوں میں آنسوؤں کا سا پانی اُترنے لگا۔ وہ مزید کچھ بول نہیں پا رہا تھا اب ۔۔۔۔۔ گو کہ بار بار اپنے پھٹے ہونٹوں کو کھولتا بھی تھا۔ بس ایک گھُٹی گھُٹی سی آواز نکلی اس کے اندر سے

” پھر۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔؟”

بہشت کے بند پڑے دروازے پر جیسے انگنت گھنے بادل گرجتے ہوئے اترتے چلے آ رہے تھے

” پھر یہ کہ ۔۔۔۔۔۔۔ فریاد کا معاملہ بڑا ہی سخت ہے لڑکے! ۔۔۔کوئی عورت اور مرد نہیں ہے فریاد کے معاملے میں ۔۔۔۔۔ فریاد کے معاملے میں کوئی مذہب بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔ بہشت و دوزخ سے بھی پہلے ۔۔۔۔۔ ہر چیز فریاد کی چھلنی سے گزرتی ہے ۔۔۔۔۔ بڑی رفتار ہے فریاد کی ۔۔۔۔ وہاں تک پہنچتی ہے سیدھی، جہاں فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں ۔۔۔۔۔ اُٹھا اپنے پُرزے ۔۔۔۔۔ اور لوٹ جا ۔۔۔۔ابھی ایک ایک ماں کی فریاد کی چھلنی سے گزرے گا تیرا معاملہ ۔۔۔۔۔۔۔ حوریں اور فرشتے سب ہی فریاد کے سامنے بے بس ہیں ۔۔۔۔۔۔ اُٹھا اپنے پُرزے اور لوٹ جا”

اندر سے آتی آواز میں سرد مہری اُتر آئی تھی اور وہ شکست زدہ سا جوں جوں اپنے پُرزے سمیٹتا جاتا تھا، پُرزے مزید پُرزے ہو کر اس کے ہاتھوں سے نکلتے اور بکھرتے جاتے تھے۔

ان ہی بکھرتے سمٹتے پرزوں کے بیچ میں نے دیکھا، اس کی اپنی ماں کی سسکیاں بھی پڑی سسک رہی تھیں! مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کی ماں کی سسکیوں کو سمیٹا اور ساتھ لائی ہوئی فریاد کی پوٹلی پر رکھ دیا۔

وہ اپنے پُرزے سمیٹ کر پل صراط کی بال سے بھی باریک اور تلوار کی دھار سے بھی تیز پگڈنڈی کی طرف مڑ چکا تھا اور اس کی ماں کی سسکیاں بہشت کے دروازے سے لپٹ لپٹ کر سسک رہی تھیں ” میں نے اپنی کوکھ سے انسان جنا تھا جناب! ۔۔۔۔ پتہ نہیں کب اسے انسان کھا گئے اور پتہ نہیں کب وہ انسان نہ رہا"-

نور الہدی شاہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔