پرنٹنگ مشین جرمنی کے ایک سنار گوتنبرگ نے 1455 میں ایجاد کی۔ اس وقت مسلم تہذیب تاریخی عروج پر تھی۔عثمانی خلافت کی عظیم سلطنت ایشیا میں شام عراق ایران آرمینیا آذربائیجان اردن سعودی عرب یمن مصر تیونس لیبیا مراکو تک اور یورپ میں یونان، روم، بوسنیا ،بلغاریہ ،رومانیہ، اسٹونیا ،ہنگری ،پولینڈ ،آسٹریا، کریمیا ،تک پھیلی ہوئ تھی۔
مذہبی علما نے فتوی دیدیا کہ پرنٹنگ مشین بدعت ہے اس پر قران اور اسلامی لٹریچر کا چھاپنا حرام ہے۔
عثمانی خلیفہ۔ سلطان سلیم اول نے پرنٹنگ مشین کے استعمال پر موت کی سزا کا فرمان جاری کر دیا۔
مسلم ممالک پر یہ پابندی 362 سال برقرار رہی۔
ہاتھ سے لکھے نسخے چھاپہ خانہ کا مقابلہ کیسے کرتے؟
کتابوں رسالوں کی فراوانی نے مغرب کو جدید علوم کا سمندر اور مسلم تہذیب کو بنجر سوچ کے جوہڑ میں تبدیل کر دیا۔
جاگے تو فکری بینائی کھو چکی تھی۔
آخر 1817 میں فتوی اٹھا لیا گیا۔
لیکن ان پونے چار سو سال کی پابندی نے مسلم تہذیب کو فتاووں اور عقیدوں کا ذہنی غلام بنا دیا۔
از خود سوچنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا۔ یہ فاصلہ آج تک نہ صرف برقرار ہے بلکہ مزید بڑھتا جا رہا ہے۔
مقام حیرت ہے کہ مسلمانوں کو اس تہذیبی زیاں پر ملال بھی نہیں۔ نہ ہی یہ تاریخ نصاب میں پڑھائی جاتی ہے کہ نئی نسل سابقہ غلطیوں سے سبق سیکھ سکے۔
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں