نائن
الیون کے بعد امریکی ایجنسیوں نے اپنا مانیٹرنگ کا نظام انتہائی سخت کردیا
اور انہوں نے ڈاک، ٹیلی کمیونیکیشن اور انٹرنیٹ پر بطور خاص نگرانی رکھ لی۔
مئی 2002 میں امریکی ایجنسیوں کو انٹرنیٹ پر ایک مشکوک ایکٹیویٹی نظر
آئی تو وہ الرٹ ہوگئے یہ ایکٹیویٹی ایک شادی شدہ جوڑے کی طرف سے 10 ہزار
امریکی ڈالرز کی انٹرنیٹ پر خریداری سے متعلق تھی جس میں انہوں نے بلٹ پروف
جیکٹس اندھیرے میں دیکھنے والی عینکیں اور ایسی کتابیں خریدی تھیں جن میں
گوریلا جنگ سے لے کر بم بنانے کے طریقے درج تھے۔
ایجسیوں نے اس جوڑے کو
ٹریک ڈاؤن کرلیا اور پوچھ گچھ کیلئے پولیس سٹیشن لے گئے جہاں ان دونوں نے
ایجنسیوں کو بتایا کہ وہ شکار اور کیمپنگ کیلئے یہ سامان اکٹھا کررہے تھے
ابتدائی تفتیش کے بعد انہیں جانے دیا گیا۔
اس خاتون کا نام عافیہ صدیقی
تھا جو اپنے شوہر امجد خان کے ساتھ تفتیش کیلئے پولیس سٹیشن بلائی گئی اور
اس وقت اس کے پاس امریکی شہریت بھی تھی
چند ماہ بعد عافیہ صدیقی پاکستان
آگئی چند ماہ کراچی میں رہنے کے بعد دوبارہ نوکری کی غرض سے امریکہ چلی
گئی اور امجد خان سے اس وقت طلاق لے لی جب اس کے ہاں تیسرے بچے کی پیدائش
میں ابھی 4 ماہ باقی تھے بچے کی پیدائش کے غالبا 2 ماہ بعد عافیہ صدیقی نے
عمار البلوچی/ عمار البلوشی سے شادی کر لی ،خالد البلوچی خالد البلوچی شیخ
خالد الکویتی کا بھتیجا تھا جو کہ دہشتگرد تنظیم القائدہ کا ایک بڑا نام
تھا اور نائن الیون کے حملوں کا ماسٹر مائنڈ بھی یہی شخص تھا
2003
میں خالد شیخ نے گرفتاری کے بعد دوران تفتیش عافیہ صدیقی کے بارے میں بتا
دیا کہ وہ ان کے گروہ کیلئے رابطہ کاری اور پلاننگ کے ٹاسک سرانجام دیتی
تھی مارچ 2003 میں امریکہ نے عافیہ صدیقی اور اس کے شوہر امجد خان کے نام
ہائی الرٹ جاری کیا اور پھر اس کے چند روز بعد عافیہ صدیقی اپنی بہن کے گھر
سے اپنے تین بچوں کے ہمراہ کراچی ریلوے سٹیشن جانے کا کہہ کر نکلی اور اس
کے بعد کسی سے رابطے میں نہ رہی
اس دوران امریکی سی آئی اے نے عافیہ صدیقی کو انتہائی مطلوب دہشتگرد کی لسٹ میں ڈال دیا اور اسے لیڈی القاعدہ کا ٹائٹل بھی دے دیا
2008
میں عافیہ صدیقی افغانستان میں غزنی کے مقام پر اس وقت گرفتار ہوئی جب وہ
برقع پہنے اپنے احمد نامی بچے کے ساتھ گورنر کی رہائش کے قریب کھڑی پائی
گئی ۔تلاشی لینے پر اس سے مختلف بوتلوں میں کیمیکلز برامد ہوئے، پرس میں ایک
یو ایس بی ڈرائیو تھی ۔جس میں نیویارک کے مختف مقامات کے نقشے اور مارکنگ
کی گئی تھی، اس کے ساتھ ساتھ بم بنانے کے پروسیجرز بھی موجود تھے۔
اگلے
دن امریکی ایف بی آئی والے تفتیش کیلئے غزنی تھانے پہنچے ۔جہاں مبینہ طور پر
پردے کے پیچھے کھڑی عافیہ صدیقی نے ایک پولیس والے کی زمین پر رکھی گن
اٹھائی اور فائرنگ شروع کردی ۔جواب میں ایک پولیس والے نے اس کے پیٹ میں
فائر کردیا اور اسے زخمی حالت میں بگرام ائیربیس پر لے آئے جہاں اس کا
آپریشن کیا گیا اور غالباً 17 روز کے بعد نیویارک منتقل کردیا گیا وہاں
عافیہ صدیقی کا علاج کیا گیا سائکلوجیکل ٹریٹمنٹ کی گئی اور 2010 میں اسے
عدالت میں پیش کرکے مقدمہ چلایا گیا عافیہ صدیقی نے گن اٹھا کر فائر کرنے
کے الزام کو ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ صرف پردے کے پیچھے دیکھنے
کیلئے گئی تھی اور امریکی اہلکار نے اس پر فائرنگ کردی ان تمام جرائم کی
وجہ سے اسے امریکہ میں اسے 86 سال قید کی سزا ہوئی
نائن الیون ہو یا
پھر اس کے بعد ہونے والے دہشتگردی کے واقعات عام لوگوں کا خون چاھے
پاکستان میں بہا یا امریکہ میں وہ غیرانسانی اور غیرمذہبی تھا نائن الیون
کا واقعہ انتہائی دلخراش اور غیرانسانی تھا بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان
میں ڈرون حملے اور افغانستان کی جنگ ایک غیرانسانی فعل تھا
عافیہ
صدیقی کو 2008 میں افغانستان میں گرفتار کیا گیا جب وہ القاعدہ کے ساتھ مل
کر امریکیوں کے خلاف کاروائی کا منصوبہ بنا رہی تھی۔ جبکہ اس کے پاس امریکی
شہریت بھی تھی اسلیے اسکے ساتھ امریکی شہریوں جیسا ہی سلوک کیا گیا اور
پروسیجر کو فالو کیا گیا
عافیہ صدیقی کے معاملے کو سب نے سیاسی
پوائنٹ اسکورنگ کےلئے استعمال کیا اسامہ کو مارنے کےلئے پاکستان کے اندر
گھس کر امریکہ کی نام نہاد اور فیک کاروائی پہ مبارکباد دینے والے، یوسف رضا
گیلانی نے امریکی آشیرباد سے ہی اسے قوم کی بیٹی قرار دیا تھا۔ تاکہ
دہشتگردی کا الزام پاکستان پہ آئے عافیہ امریکی شہری ہے امریکہ میں پلی
پڑھی اور انہی کی مہان یونیورسٹیوں سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں