Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 3 جولائی، 2022

میں پرانے پاکستان میں جانا چاہتا ہوں ۔

ایک فوجی سینئر  میجر (ریٹائر ) احمد سرفراز اللہ ( پی ایس سی ، پی ٹی ایس سی  ، اور جی) نے، حنا ربّانی کھر کی قسط وار بجلی کی ادائیگی  کی پوسٹ ، وٹس ایپ کی ۔میں نے جواب دیا ۔

سر ۔ آپ ایک نیک دل اور محبت کرنے والے ویٹرن ہیں ۔
لہذا ماضی کو بھول جائیں۔
اب کی بات کریں شکریہ۔
اُنہوں نے جواباً یہ پوسٹ کی ۔

 پوسٹ پڑھتے ہی توانائی کے بلبلے، اِس بوڑھے کو  کھینچ کر پرانے پاکستان لے گئے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

سر ! اِس بوڑھے 1999 کے ریٹائرڈ فوجی پنشنر نے  بجلی کا استعمال کم سے کم کردیا ہے ۔ بوڑھا   ، برامدے میں کرسیاں ڈالے بیٹھا رہتا ہے  ،  کیوں کہ پرانے پاکستان میں جانا چاھتا ہوں اپنے بچپن کے پاکستان میں ، جہاں نفرت ، عداوت اور دشمنی کم ، اور محبت زیادہ تھی ، جہاں سیاسی زہر ہماری رگوں میں جھوٹ کے انجکشنوں سے نہیں ڈالا گیا تھا ، پرانا دوست یہ نہیں کہتا تھا کہ:۔
٭- تم اگر پی ٹی آئی کے نہیں تو میرے گروپ سے نکل جاؤ۔

 ٭- تم ہمارے فرقےسے نہیں ، تو ہماری مسجد میں مت آؤ ۔

 ٭- انگریزی پڑھنے والے ، انگریزی سکول میں بنچوں اور کرسیوں پر بیٹھتے تھے ۔

 ٭- اردو پڑھنے والے ، ٹاٹ پر بیٹھتے تھے ، جن میں غریب و امیر ہر طبقے کے بچے ہوتے تھے ۔ ٭- جب فریج نہیں ہوتے تھے ۔ مٹکے کا پانی پیتے اور روزانہ کی سبزی یا گوشت ابا ،لاتے یا ہم ۔

 ٭- جب کوئی مہنگائی کارونا نہیں روتا تھا ۔مہنگائی کا جن قابو میں تھا ۔ پھر 

پرانے پاکستان میں پہلے بار۔

٭- سرسوں کے تیل اور بھینس کے دودھ سے نکلے ہوئے مکھن سے خالص گھی کے بدلی توانائی سے بھرپور بناسپتی گھی بننے لگا !۔

٭۔شربت کی جگہ چائے نے لے لی ۔

٭۔بیماریاں پھیلانے والے گڑ کی جگہ چینی نے لے لی ۔

٭۔ دیسی گندم کی جگہ۔ میکسی پاک گندم نے لے لی ۔

بتیس   سالہ ابّا فوج میں حوالدار تھے۔ اپنی پیدائش سے چھوٹے بھائی کی پیدائش تک کسی نے ڈبّے کا دودھ نہیں پیا ۔ امی نے کبھی شکوہ نہیں کیا کہ سات بچوں میں کم تنخواہ میں گذارہ نہیں ہوتا ۔امی ، ابّا خوش ، ہم بچے خوش ، محلے والے پرسکون ، رشتہ دار امن سے ۔

امی ہر روٹی کے پاؤ ٹکڑے کے حساب سے ، شام کو ، اللہ کے نام پر نعرہ لگانے والے کو آدھی آدھی روٹی دیتیں اور مسجد کا روٹی لاؤ جی کی آواز لگانے والے طالب کو ایک روٹی اور سالن کی پلیٹ اُس کے کنستر میں ، نمّو سے ڈلواتیں ، جس میں ہر قسم کا سالن  پڑا ہوتا تھا ۔

پھر بھیک منگوں نے نیا طریقہ نکالا ، جسے مٹھی آٹا سکیم کہتے تھے ۔ 

پھر چینی بڑھی اور اچانک امیر و کبیر  سیاست دانوں  اور بھیک منگوں کے بغل بچوں نے ، حکومت کو صلوٰتیں سنانی شروع کر دیں ۔وہ دن اور آج کا دن۔

ہر نوجوان جو ھذا من فضلِ ربی ۔ کے گھر میں پل کر بڑھا ہے۔ صلواتیں سنانے میں ڈاکٹر آف گالم گلوچ و فحش تصاویر ہے ، مگر نماز بھی پڑھتا ہے اور  إياك نعبد وإياك نستعين  کا نعرہ بھی لگاتا ہے ۔ یہ نعرہ صرف نعرہ ایجاد کرنے والے زمینی  بھکاری خداؤں  کے لئے ہے ۔     

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔