موبائل بند کرنے کے بعد میرے ذہن میں گھنٹی بجی ۔ ۔ ۔
درخواست ۔ آپ کی حیات کا ثبوت ہوتی ہے !!
لہذا ، تمام پنشنرز اپنی درخواستیں ، متعلقہ محکمے کے اکاؤنٹ کے شعبے کو بھجوائیں ۔
لیکن
کیا یقین ہے کہ اِن پر عمل کرتے ہوئے ، ہر یکم جولائی کو ، زندہ رہ جانے
والے ملازمین کی جی ایل آئی کی رقوم کے اپنی صوابدید کے مطابق
،استعمال کرنے والے ہائی کورٹس کے احکام کے مطابق منافع سمیت واپس کرنا
تو دور کی بات ، اصل زر ہی واپس کرنے کے روادار نہیں ہوں گے !
اُن
کی تو ، ہر سال زندہ رہ جانے والے ،1 تا 16 کے 80 فیصد ملازمین کر بچ
جانے والی رقوم سے کھڑی کی جانے والی لنکا ڈھے جائے گی !
تو اُفق کے پار بسنے والے ، پیارے جی ایل آئی کی اپنی رقوم واپس مانگنے پنشنرز ! آپ کا کیا خیال ہے ؟؟
تو مجھے ، جو فون آیا وہ صوبیدار (ر) جلال خان ، محسود سکاؤٹ کا آیا جس نے مجھے پریشان کر دیا ۔
"
آل پاکستان پنشنرز ایسوسی ایشن کے اِس فارم کے راستے میں کسی نے پکٹ لگا
لی تھی۔ پکٹ سمجھتے ہیں آپ ؟؟ نہیں کوئی بات نہیں یہ خالصتاً سول آرمڈ
فورسز کا کوڈ ورڈ ہے ۔ جو سڑک پر لگائی گئی سیکیورٹی چیک پوسٹ کے لئے بولا
جاتا ہے ۔
جس
میں رنگین تصویر ۔بجلی کے جنریٹر سے ،فارم کی رنگین فوٹو سٹیٹ
کیوں کہ پارا چنار میں نہ بجلی آتی ہے اور نہ ہی انٹر نیٹ مبلغ 300
روپے سکہ رائج الوقت مانگا جارہا تھا اور بذریعہ ٹی سی ایس ۔
آل پاکستان پنشنرز کے آفس، بذریعہ ٹی سی ایس بھجوانے کی قیمت الگ ، اگر
پنشنرز چاھے تو خود پاکستان پوسٹ سے بھجوادے ۔ جس کے جواب میں اُسے 3 سے
پانچ لاکھ جی ایل آئی ملے گا ۔
بوڑھے نے فوجی تربیت کے مطابق ، پکٹ لگانے والوں کی جنم پتری کھوجنا شروع کر دی ، جس پر تین نام سامنے آئے ۔ تینوں سے موبائل پر بات کی ۔ پھر پارا چنار میں موجود سول آرمڈ فورسز ، فرنٹیئر کور اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں سے وٹس ایپ کئے ہوئے فارم پر دیئے گئے نمبروں سے بات کی ، اُنہیں بتایا کہ فوراً ، پکٹ لگانے والوں کے پاس جائیں اور اُنہیں خبردار کریں کہ ، کہ فارم پر لکھے ہوئے موبائل نمبر سے فون آیا ہے ۔ کہ یہ غیر اخلاقی اور غیر اسلامی حرکت فوراً بند کی جائے ورنہ ۔ تمام نتائج کی ذمہ داری اُن پر آئے گی ۔
پھر بوڑھے نے فوراً چیئرمین ، انجنیئر بشیر احمد بلوچ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا اور اُن کے مشورے سے ،پنشنرز کے نام سے ، ایک درخواست بنائی اور تمام رجسٹرڈ و غیر رجسٹرڈ پنشنرز کو ، وٹس ایپ کردی ۔
میں نے رفاع یونیورسٹی اسلام آباد میں ، بی بی اے اور ایم بی اے کے سٹوڈنٹس کوPersonality Development اور OSHA بطور وزٹنگ فیکلٹی پڑھایا تھا۔
یہ 50 کریڈٹ گھنٹوں کے کورس ہوتے تھے اور میں نے یہ فوجی تربیت کے مطابق پڑھایا ۔
جب میں آخری نکتے، RESULTS DEPICTS PERSONALITY " کو سمجھاتا تھا تو بس یہ ایک جملہ بولتا تھا ،
یوں نتائج ، انسانی شخصیت کا آئینہ بن جاتے ہیں ۔
اوریہ اِس آفاقی سچ کی بنیاد پر ہوتا تھا ۔
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا ۔ فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا۔ قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا۔ وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا ۔
آپ سب دوستوں کا شکریہ ❤️🌹😍🥰🍬🍩
مزید مضامین پڑھیں :
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں