یہ کائنات بہت بڑی ہے، بہت ہی بڑی !
اگر ہم صرف قابلِ مشاہدہ کائنات کی بات کریں، تو اندازہ ہے کہ روشنی کو اپنی تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ جیسی زبردست رفتار سے سفر کرنے کے باوجود ، قابلِ مشاہدہ کائنات کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچنے میں 78 اَرب سال لگ جائیں گے۔
ہمارے اب تک کے بہترین اندازوں کے مطابق، کائنات میں لگ بھگ چار کھرب (400 اَرب) کہکشائیں ہیں۔
ہر کہکشاں میں اوسطاً ایک کھرب (100 اَرب) ستارے ہیں۔
اگر ان میں سے صرف ایک فیصد ستارے ہمارے سورج جیسے ہوئے، تو ہر کہکشاں میں ہمارے سورج جیسے ستاروں کی تعداد ایک اَرب ہوگی۔
اور اگر ان میں سے بھی صرف ایک فیصد ستاروں کے گرد، ہمارے نظامِ شمسی جیسے نظام ہائے شمسی ہوئے، تو صرف ایک کہکشاں میں ہمارے سورج سے مماثل نظامِ شمسی رکھنے والے ستاروں کی تعداد ایک کروڑ ہوگی۔
اگر ان میں سے صرف ایک فیصد نظام ہائے شمسی میں بالکل ہماری زمین جیسا کوئی سیارہ ہوا۔ تو ہر کہکشاں میں ہماری زمین جیسے ایک لاکھ سیارے ہوں گے۔
اگر ان میں سے بھی صرف ایک فیصد، زمین نما سیاروں پر ایسا ماحول ہوا کہ جس میں زندگی آنکھ کھول سکے؛ تو ہر ایک کہکشاں میں زمین کا گہوارہ بن جانے والے سیاروں کی تعداد ایک ہزار ہوگی۔
اور اگر ان میں سے بھی صرف ایک فیصد سیاروں پر حالات اتنے عرصے تک سازگار رہے کہ وہ ابتدائی حیات، ارتقاء کی منزلیں طے کرکے انسان جیسی ذہانت اور قوتِ ایجاد حاصل کرلے، تو پھر ہر کہکشاں میں انسان جیسی ذہین تہذیبوں کی تعداد ایک سو ہوگی۔
لیکن ٹھہریئے! یہ تو صرف ایک کہکشاں کی بات ہورہی ہے۔ اب ذرا اس ہندسے کو چار کھرب (چار سو اَرب) سے ضرب دیجئے۔
معلوم ہوگا کہ ممکنہ طور پر کائنات میں ہم انسانوں جیسی چار سو کھرب (چالیس ہزار آرب) ذہین مخلوقات، مختلف سیاروں پر آباد ہوسکتی ہیں۔
شاید یہ کائنات اپنے ہر گوشے میں زندگی سے لبریز ہو۔
لیکن آج تک کسی خلائی مخلوق نے ہم سے رابطہ نہیں کیا۔
ہم بہت کوشش کررہے ہیں لیکن اس وسیع و عریض کائنات میں اکیلے ہونے کا احساس کسی بھی طور کم ہونے میں نہیں آتا۔
کیا ہم واقعی اکیلے ہیں؟
یا پھر ابھی تک ترقی کی اس منزل تک پہنچ ہی نہیں سکے ہیں کہ جہاں پہنچ کر ہم کسی غیر ارضی ذہین مخلوق سے رابطہ کرنے کے قابل ہوجائیں؟
یہ سوالات ابھی تک عقدہ ہائے لاینحل کی طرح ہمیں گھیرے ہوئے ہیں۔ اور تو اور، ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ آنے والے وقت میں ان سوالوں کا کوئی جواب مل بھی سکے گا یا نہیں۔ اور اگر کوئی جواب ملے گا بھی، تو کب ملے گا؟
اگر ہم صرف قابلِ مشاہدہ کائنات کی بات کریں، تو اندازہ ہے کہ روشنی کو اپنی تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ جیسی زبردست رفتار سے سفر کرنے کے باوجود ، قابلِ مشاہدہ کائنات کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچنے میں 78 اَرب سال لگ جائیں گے۔
ہمارے اب تک کے بہترین اندازوں کے مطابق، کائنات میں لگ بھگ چار کھرب (400 اَرب) کہکشائیں ہیں۔
ہر کہکشاں میں اوسطاً ایک کھرب (100 اَرب) ستارے ہیں۔
اگر ان میں سے صرف ایک فیصد ستارے ہمارے سورج جیسے ہوئے، تو ہر کہکشاں میں ہمارے سورج جیسے ستاروں کی تعداد ایک اَرب ہوگی۔
اور اگر ان میں سے بھی صرف ایک فیصد ستاروں کے گرد، ہمارے نظامِ شمسی جیسے نظام ہائے شمسی ہوئے، تو صرف ایک کہکشاں میں ہمارے سورج سے مماثل نظامِ شمسی رکھنے والے ستاروں کی تعداد ایک کروڑ ہوگی۔
اگر ان میں سے صرف ایک فیصد نظام ہائے شمسی میں بالکل ہماری زمین جیسا کوئی سیارہ ہوا۔ تو ہر کہکشاں میں ہماری زمین جیسے ایک لاکھ سیارے ہوں گے۔
اگر ان میں سے بھی صرف ایک فیصد، زمین نما سیاروں پر ایسا ماحول ہوا کہ جس میں زندگی آنکھ کھول سکے؛ تو ہر ایک کہکشاں میں زمین کا گہوارہ بن جانے والے سیاروں کی تعداد ایک ہزار ہوگی۔
اور اگر ان میں سے بھی صرف ایک فیصد سیاروں پر حالات اتنے عرصے تک سازگار رہے کہ وہ ابتدائی حیات، ارتقاء کی منزلیں طے کرکے انسان جیسی ذہانت اور قوتِ ایجاد حاصل کرلے، تو پھر ہر کہکشاں میں انسان جیسی ذہین تہذیبوں کی تعداد ایک سو ہوگی۔
لیکن ٹھہریئے! یہ تو صرف ایک کہکشاں کی بات ہورہی ہے۔ اب ذرا اس ہندسے کو چار کھرب (چار سو اَرب) سے ضرب دیجئے۔
معلوم ہوگا کہ ممکنہ طور پر کائنات میں ہم انسانوں جیسی چار سو کھرب (چالیس ہزار آرب) ذہین مخلوقات، مختلف سیاروں پر آباد ہوسکتی ہیں۔
شاید یہ کائنات اپنے ہر گوشے میں زندگی سے لبریز ہو۔
لیکن آج تک کسی خلائی مخلوق نے ہم سے رابطہ نہیں کیا۔
ہم بہت کوشش کررہے ہیں لیکن اس وسیع و عریض کائنات میں اکیلے ہونے کا احساس کسی بھی طور کم ہونے میں نہیں آتا۔
کیا ہم واقعی اکیلے ہیں؟
یا پھر ابھی تک ترقی کی اس منزل تک پہنچ ہی نہیں سکے ہیں کہ جہاں پہنچ کر ہم کسی غیر ارضی ذہین مخلوق سے رابطہ کرنے کے قابل ہوجائیں؟
یہ سوالات ابھی تک عقدہ ہائے لاینحل کی طرح ہمیں گھیرے ہوئے ہیں۔ اور تو اور، ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ آنے والے وقت میں ان سوالوں کا کوئی جواب مل بھی سکے گا یا نہیں۔ اور اگر کوئی جواب ملے گا بھی، تو کب ملے گا؟
( علیزہ احمد کی ریسرچ )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں