کتاب اللہ : الارض وسماوات کی تخلیق کے لئے اللہ کا مکمل ضابطہ ۔
الکتاب: المتقین کے لئے معلومات و افعال کا خزانہ ۔
القرآن : انسانی نفس کی زکاء کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ۔
الکتاب: المتقین کے لئے معلومات و افعال کا خزانہ ۔
القرآن : انسانی نفس کی زکاء کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ۔
اللہ کے کُن سے فَیَکُون ہونے والے ، کتاب اللہ کے تین کلمات جو ہمارے سامنے مکمل آیات بن کرآتے ہیں اور :
1۔ بذریعہ آنکھ :ہم اُس کی شبیہ دیکھتے ہیں ۔
2۔ بذریعہ کان : اُس کی آواز سنتے ہیں ۔
3- بذریعہ ناک اُس کی بو سونگھتے ہیں ۔
4- بذریعہ ہاتھ اُسے محسوس کرتے ہیں ۔
5- بذریعہ زبان چکھتے ہیں ۔
اِس پانچوں حواس سے ملنے والی معلومات ، ہمارے دماغ میں محفوظ ہوجاتی ہیں ، جس کی صفات ہم اپنے ذہن میں تسلیم کرنے کے بعد اُسے ایک صفت (اِسم) دیتے ہیں ۔
وہ اِسم ہم اپنی زبان میں، مکمل یقین کے ساتھ ، اللہ کی اُس آیت سے منسلک کر دیتے ہیں ۔
ہماری دی گئی صفت ، اُس بنیادی صفت پھل ، مچھلی اور پرندہ کو تبدیل نہیں کرتی ۔
اگر ہم اُن پر تدبّر کریں ، تو ہر آیت،ایک مفصل کتاب ہوتی ہے ۔
جیسے اگر آپ سے پوچھا جائے ، کہ مچھلی کی یہ کون سے قسم ہے؟
تو شائد آپ نہ بتا سکیں ، لیکن اگر ایک عالم سے پوچھیں جس نے مچھلیوں کی اقسام میں تفکٗر کیا ہو تو وہ کم از کم ایک صفحہ سے سو صفحات تک اُس کی مکمل خصوصیات مفصل بتا دے گا ۔
لیکن اگر اُس سے الکتاب میں بیئن کی گئی ، ایک بستی کی مچھلیوں﴿7:163﴾ یا حوتِ موسیٰ ﴿18:61﴾ یا حوتِ یونس ﴿37:142﴾ کے بابت پوچھیں !
تو وہ اِس سے زیادہ نہیں بتا سکتا کہ اوّل الذکر کھائے جانے والی مچھلیاں تھیں اورآخر الذکر ایسی مچھلی جو انسان کو کھا جاتی ۔
اگر کوئی اِس سے زیادہ وضاحت کرتا ہے تو یہ لفاظی کہلائے گی کیوں کہ اُس کے پاس معلومات زیادہ نہیں ہیں ۔ اور نہ ہی الکتاب میں اِس سے زیادہ ذکر ہے ۔
غرض کہ کتاب اللہ (کائنات ) میں ، اللہ کی ہر آیت کی بنیادی صفات ہیں، جو اللہ نے الکتاب میں انسانوں کی بنیادی ہدایت کے لئے ، بنیادی الفاظ میں مفصّل بتائیں ہیں ۔تاکہ ایک اُمّی انسان اُسے بآسانی عمل کے لیے سمجھ لے !
روح القّدس نے اللہ کا پیغام محمدﷺ کو بتایا ::
1۔ بذریعہ آنکھ :ہم اُس کی شبیہ دیکھتے ہیں ۔
2۔ بذریعہ کان : اُس کی آواز سنتے ہیں ۔
3- بذریعہ ناک اُس کی بو سونگھتے ہیں ۔
4- بذریعہ ہاتھ اُسے محسوس کرتے ہیں ۔
5- بذریعہ زبان چکھتے ہیں ۔
اِس پانچوں حواس سے ملنے والی معلومات ، ہمارے دماغ میں محفوظ ہوجاتی ہیں ، جس کی صفات ہم اپنے ذہن میں تسلیم کرنے کے بعد اُسے ایک صفت (اِسم) دیتے ہیں ۔
وہ اِسم ہم اپنی زبان میں، مکمل یقین کے ساتھ ، اللہ کی اُس آیت سے منسلک کر دیتے ہیں ۔
ہماری دی گئی صفت ، اُس بنیادی صفت پھل ، مچھلی اور پرندہ کو تبدیل نہیں کرتی ۔
اگر ہم اُن پر تدبّر کریں ، تو ہر آیت،ایک مفصل کتاب ہوتی ہے ۔
جیسے اگر آپ سے پوچھا جائے ، کہ مچھلی کی یہ کون سے قسم ہے؟
تو شائد آپ نہ بتا سکیں ، لیکن اگر ایک عالم سے پوچھیں جس نے مچھلیوں کی اقسام میں تفکٗر کیا ہو تو وہ کم از کم ایک صفحہ سے سو صفحات تک اُس کی مکمل خصوصیات مفصل بتا دے گا ۔
لیکن اگر اُس سے الکتاب میں بیئن کی گئی ، ایک بستی کی مچھلیوں﴿7:163﴾ یا حوتِ موسیٰ ﴿18:61﴾ یا حوتِ یونس ﴿37:142﴾ کے بابت پوچھیں !
تو وہ اِس سے زیادہ نہیں بتا سکتا کہ اوّل الذکر کھائے جانے والی مچھلیاں تھیں اورآخر الذکر ایسی مچھلی جو انسان کو کھا جاتی ۔
اگر کوئی اِس سے زیادہ وضاحت کرتا ہے تو یہ لفاظی کہلائے گی کیوں کہ اُس کے پاس معلومات زیادہ نہیں ہیں ۔ اور نہ ہی الکتاب میں اِس سے زیادہ ذکر ہے ۔
غرض کہ کتاب اللہ (کائنات ) میں ، اللہ کی ہر آیت کی بنیادی صفات ہیں، جو اللہ نے الکتاب میں انسانوں کی بنیادی ہدایت کے لئے ، بنیادی الفاظ میں مفصّل بتائیں ہیں ۔تاکہ ایک اُمّی انسان اُسے بآسانی عمل کے لیے سمجھ لے !
روح القّدس نے اللہ کا پیغام محمدﷺ کو بتایا ::
وَلَوْ جَعَلْنَاہُ قُرْآناً أَعْجَمِیّاً لَّقَالُوا لَوْلَا
فُصِّلَتْ آیَاتُہُ أَأَعْجَمِیٌّ وَعَرَبِیٌّ قُلْ ہُوَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا
ہُدًی وَشِفَاء وَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُونَ فِیْ آذَانِہِمْ وَقْرٌ وَہُوَ
عَلَیْہِمْ عَمًی أُولَـٰئِكَ یُنَادَوْنَ مِن مَّکَانٍ
بَعِیْدٍ (41/44)
اگر ہم اُس کو عجمی میں قُرْآناً قرار دیتے تو وہ
کہتے کہ اس کی آیات مفصّل کیوں نہیں؟
کیا عجمی اور عربی؟
کہہ! وہ ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے ھدایت اور شفا ہے .
اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے اور اِن کے اوپر اندھا پن ہے، وہ دور کے مکان سے پکارے جا تے رہتے ہیں ۔
کیا عجمی اور عربی؟
کہہ! وہ ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے ھدایت اور شفا ہے .
اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے اور اِن کے اوپر اندھا پن ہے، وہ دور کے مکان سے پکارے جا تے رہتے ہیں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں