اُفق کے پار بسنے والے شگفتہ گو دوستو ۔ میری درخواست ہے کہ حاضر لائن ہونا مشکل ہے اور آن لائن حواس میں آنے کے بعد شامل ہو سکتا ہوں ۔ جو اگلی ڈیٹ لائن کراس ہونے تک جاری رکھی جاسکتی ہے
ڈاکٹر نے عرصہ سے میری گولیوں کی تعداد بڑھائی ہوئی ہے ۔ میں جو گولیاں دوپہر کے کھانے کے بعد کھاتا ہوں وہ سخت غنودگی طاری کر دیتی ہے ۔ اور میں دو بجے سے شام 6 بجے تک لازمی سوتا ہوں ۔ اگر نیند نہ آئے اور بوجہ مجبوری غنوٹنا پڑھے تو بڑھیا کی آواز آتی ہے ۔ میری بات سن رہے ہو ، تو بند پپوٹوں سے جواب دیتا ہوں جی سن رہا ہوں۔
کہاں سن رہے ہو ؟ یا خراٹے سنا رہے ہو ۔
بیوی سنتا کان سے ہوں اور جواب ، منہ میں دانت نہ ہونے کی وجہ سے ، ہاں اور ہوں کی تال ہیں ۔ اور جب تال لمبی ہو تو مطلب کیا کہا ؟
آہ اُفق کے پار بسنے والے شگفتہ گو دوستو ۔ اگر جواب آں غزل زوجہ نہ دیا جائے تو، ایک ہزار ایک رات کا مرثیہ اُٹھنے کے بعد سننا پڑتا ۔
عقلمند کہتے ہیں ۔ کہ بیوی کو اپنی ساری دن کی مشغولیات بمع موبائل پر سننے والی معلومات شوہر کو سنانا فرض کفایہ ہے ۔ لہذا چپ کرکے سنتے رہو اور بیچ ہوں ہاں اور کیا لازمی کہو ۔ اور اپنے رائے کی پوٹلی کو بند رکھا وگرنہ ۔ ۔ ۔۔ آپ خود بھگتیں گے ! ایک عقل کی بات وہ یہ کہ بوڑھے کو سیاسیت یا مذھب کی روداد سنانا ریڈ لائن پھلانگ کر خود کو دلدل میں پھینکنا ہے ، جو وٹس ایپ کی وجہ سے بوڑھے کے معدے میں حلق تک ٹھنسی ہوتی ہے ۔
بڑھاپے میں نیند کم آتی ہے لہذا زبر دستی 24 گھنٹوں میں نیند کے 8 گھنٹے پورا کرنے کا مشورہ ماہر صحت کا ہے ۔ لیکن اگر صبح 4 بجے اُٹھنے کے بعد 8 بجے نیند آجائے تو مزید دو گھنٹے برے نہیں ۔
بوڑھے اور بڑھیا کے درمیان محائدہ (حدود وقیود) عرصے سے نافذہے جو بلا تردد و شکوہ قبول کرنا پڑتا ہے ۔ لہذا بوڑھے کو صرف ایک گھنٹہ کا آؤٹ پاس ملتا ہے وہ بھی پنجاب کیش اینڈ کیری ،انصاف گلی اور بنک تک ۔ ملٹری ہسپتال و سی ایم ایچ ، اے ایف آئی آر ایم کے لئے بڑھیا کے ہم رکاب ہوتا ہے ۔ ڈیفنس روڈ پر اچھلتے کودتے جانے اور آنے کی وجہ سے جوڑ جوڑ فریاد کرتا ہے ۔ باقی کسر ٹیل بون کی فریاد لوہے کی آرام دہ یا اذیت زدہ صوفے نکال دیتے ہیں ۔
آرتھو پیڈیاکس کی ہدایات کے مطابق کبھی بھی چالیس سال سے اوپر کے نوجوان اس انداز میں بیٹھا کریں جیسے سکول میں ماسٹر صاحب دیوار سے ٹیک لگوا کر کرسی بنوایا کرتے تھے ۔ لیکن آج کل افسرانہ صوفے پر بیٹھا بوڑھا یوں نظر آتا ہے کہ جیسے بس ٹانگوں کے نیچےسے ھاتھ نکل کر کان پکڑنے کی کسر باقی ہے اور صوفے سے اٹھتے وقت کراہِ اِبل بلبلا کر نکلتی ہے جسے سن کر نوجوان و بچے ایسے مسکراتے ہیں جیسے ہم مسکرایا کرتے تھے اور دل میں نصیحت کرتے بزرگو گھر میں بیٹھو یوں گھومنے کی کیا ضرورت جہاں بیٹھ کر اونٹ کی طرح چار قسطوں میں اُٹھنا پڑے اور پانچویں قسط کوئی ہمدرد ہاتھ سے کھینچ کر پورا کردے ۔ نہ آنکھوں والوں کو بصارت پکڑائی جا سکتی ہے اور نہ ہی اولو الاحبار کو عبرت ۔ کیوں کے۔ ۔ ۔
بنجارے کی لاٹ سب کے ٹھاٹ لمبے لیٹا دیتی ہے ۔
--------------------------------------
سال2024 ، جون کا پہلا ہفتہ تاریخ 8 ۔ آن لائن وقت 11:11 بجے چھٹی کے بعد
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں