Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 10 جون، 2024

فوجیانہ مزاح اور ایک جدی پشتی فوجی

 ڈاکٹر محمد اسماعیل جوئیہ  ۔ ہمارے شگفتہ گو  محفل کے  شگفتہ دوستوں میں سے ہیں ۔ آپ کہیں  گے بھائی  ضرور ہوں گے ۔ بڑھاپے میں ہمارے بھی کئی ڈاکٹر  دوست ہیں ۔ جیسے دانتوں کا ڈاکٹر ، آنکھوں کا ڈاکٹر ۔ کان ، ناک اور گلے کا ڈاکٹر ۔پھیڑوں کا ڈاکٹر ۔ذیابیطس کا ڈاکٹر اور اب قلب کا ڈاکٹر  ، وغیرہ وغیرہ ، ارےارےبھائی ذرا صبریہ سب ڈاکٹر تو ہمارے بھی دوست  ہیں ۔ لیکن یہ ادب کے ڈاکٹر ہیں اور مزے کی بات فوجیانہ مزاح کے باوردی ڈاکٹر بھی ہیں ۔

 شگفتہ گو  محفل  کا آغاز 28 ستمبر 2018 میں اللہ کی امان میں جانے والے ہنس مکھ دوست انجینئر آصف اکبر  اور ڈاکٹر عزیز فیصل نے شروع کیا ۔شائد دونوں شعر سنا سنا  کر  بور ہوچکے تھے۔ چنانچہ  مزاح میں نثر   کے لئے   مزاح کے نئے پودوں کی  آبیاری     کی کوشش میں اُنہوں نے اپنے باغیچہ میں ہمارا  بوٹا  بھی چن لیا ۔ گو یا ۔

 پتہ پتہ بوٹا   بوٹا  حال ہمارا    ۔۔۔۔

معذرت! یہ کیا بھیانکر غلطی سرزد ہونے لگی تھی ، اپنی یا اشعارِ اغیار کا اِس محفل میں قطعی داخلہ ممنوع  قرار دیا گیا تھا  ۔

پہلی محفل   مناثرہ کا آغاز  ۔ جناب آصف اکبر کے   دولت کدے سے  ہوا ،   پھر  ہر ماہ کے پہلے ہفتے کو متواترقہقہوں بھری یہ محفل لائن حاضر ہوتی   اور پھر کرونا نے سب کو آن لائن کردیا  ۔ کرونا کے اختتام  پر کبھی لائن حاضر اور کبھی آن لائن گھروں سے قہقہے بکھیرے جاتے ۔ لیکن 28 ستمبر کو جو سالگرہ منائی جاتی وہ آصف اکبر کی یاد میں منائی جاتی ، پہلے  شگفتہ گویاؤں  کی یہ محفل محدود تھی لیکن آہستہ آہستہ اِس میں حسب ذوق شگفتگین دوستوں کا اِس شرط پر اضافہ  کیا گیا ۔ کہ نثری ادبی حدود  میں رہنے والے  احباب کا انتخاب کیا جائے  یوں، ڈاکٹر محمد اسماعیل جوئیہ       کابوٹا  نہیں بلکہ  شجرِ سایہ دار بھی  اِس باغ میں لگا دیا  گیا  ۔

اور پھر نیوٹن کے سیب کی مانند ایک زناٹے  سے ، دو کٹھل  شجر مزاح سے 26 مئی 2025  کے گرم دن  میرے سر پر گرے۔

اِس بانگ کے ساتھ ۔"سر برائے تبصر ہ و تنقید"۔

باوردی/فوجیانہ مزاح ۔ ھو ھو اور ھاھا ۔یہ بھی کوئی بات ہوئی کبھی مزاح کو آپ نے فوجی وردی میں ملبوس دیکھا کے ۔ نہیں نہ کیسے دیکھا ہوگا ؟ کیوں کہ آپ یا آپ کے جد باوردی نہیں تھے ، ممکن ہے کہ چچا ، تایا یا بھائی ہوں گے تو آپ کو کیا لینا ۔ خیر میرا بچپن جب لڑکپن میں داخل ہوا ، تو ہمارے گورنمنٹ برکی مڈل سکول ایبٹ آباد  کے پیچھے ایک ڈرامہ ھال میں والد اپنے دوستوں کے ساتھ لے گئے جہاں بہت سارے فوجی مَفتی پہنے پہنے بنچوں پر  بیٹھے تھے ۔اور تمام جے جی اوز سرخ بلیذر اور ٹائی لگائے       کرسیوں پر اور سب سے آگے ایک لائن میں آفیسرز جو سارے ڈاکٹر تھے  سوٹ پہنے بیٹھے تھے  کہ بگل بجا اور  آرمی میڈیکل کو ر سنٹر کے کمانڈنٹ صاحب ، سیکنڈ اِن کمانڈ ، ایڈجوٹنٹ ، کواٹر ماسٹر کے ہمراہ ھال میں داخل ہوئے ، سب حاضرین کھڑے ہوئے ۔ سنٹر صوبیدار میجر نے سلیوٹ مارا  اور مہمانِ خصوصی   اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہوگئے ۔
سامنے سٹیج تھا جس پرمختلف پروگرام شروع ہوئے ، اُس کے بعد ھال کے تمام نوجوانوں نے زور زور سے قہقہے لگانے شروع کردیئے۔ اباکی طرف دیکھا تو وہ بس مسکرا رہے تھے۔ گھر آکر معلوم ہواکہ وہ سب سینیئر کی نقلیں اتار کر مذاق اُڑا رہے تھے ۔ اور سب ہنس رہے تھے ۔ یہ مذاق یا مزاح سے ہمارا پہلا تعارف تھا یہ کوئی 1962 کی بات ہے     ۔

سویلئن مزاح سے ہماراتعارف بچوں کے رسالوں کی حد تک تھا ۔ لیکن فوجی مزاح  چارلی چپلن  کی فلموں تک محدود ، جو اِسی ڈرامہ ھال میں اتوار کو دکھائی جاتی ، یاجب ہم سنٹر کے پریڈ گراونڈ میں پریڈ کرتے دیکھتے۔ جب   غور کیا تو   یہ انکشاف ہوا  کہ فوجی باوردی  مزاح تو ہمارے چاروں طرف بکھرا ہوا ہے ۔ جو ہمارے  والد کے بیٹ مین  سے شروع ہوتا  اور پھیلتا ہوا دوسرے  بیٹ مینوں تک چلا جاتا ۔ کیوں کہ یہ کلّی اِن پڑھ ہوتے ۔ اِن سے جو احمقانہ حرکات سرزد ہوتیں وہ مزاح کے طور پر محفلوں کی جان بن جاتیں ۔

نوجوانی میں کرنل محمد خان کی کتابیں سٹیشن لائبریری سے لے کر پڑھیں جو خالصتاً افسرانہ روئدادِ مزاح تھیں ۔اکیڈمی گئے تو پہلے مزاح پر مضمون  بقلم خود  فرسٹ ٹرم میں لکھا اور قیادت میگزین کی زینت بنا ۔ اُس کے بعد کئی مضامین لکھے ، کورس میٹس کے مطابق اُن میں مزاح ہوتا اور ہمارے خیال میں وہ آپ بیتی یا جگ بیتی ہوتی۔ اور   تنقید تو دور کی بات دیگر مضامین پر تبصرہ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ۔کیوں؟ ۔ کہ ایک گولہ فائر کرنے کے بعد دشمن کی طرف سے فی توپ 6 گولے کیسے بھگتے جاتے جب کہ مخالفین کے پاس دو یا تین نہیں بلکہ پوری  18 توپیں ہوں ؟

   لہذا ۔   ڈاکٹر محمد اسماعیل جوئیہ کےحکم پر کان لپیٹ  لئے وجہ کہ ڈاکٹر صاحب کو جو پہلا تراشا بھیجا اُسے  مزاح سمجھنا، توہینِ مزاح ہے ۔ 

جس پر جو کمنٹ ہم نے لکھا وہ ناقابلَ اشاعت تھا ۔ 

آج 10 جون کو ، میں نے غلطی سے ایک پوسٹ نیوز فیڈ میں ڈالی اور اُس نے ڈاکٹر صاحب کے دروازے پر دستک دی ۔ ڈاکٹر صاحب نے کواڑ کھولے بغیر وائس میسج بھیجا ۔ کہ آپ کے تبصرہ و تنقید کا انتظار ہے بے شک کتابیں  تھوڑا پڑھ کر تبصرہ لکھیں اور جہاں تنقید کی ضرورت ہو وہاں تنقید لکھیں شکریہ  
میں نے جواب دیا ۔

آج موڈ ہے شائد شام تک کتاب لکھ دوں وہاں سے اپنے مطلب کی لائنیں کشید کر لینا ۔ شکریہ

اب یہاں تک پہنچ کر میری سائیکل کے  کنگریاں اِس ناقابلِ عبور چڑھائی پر فیل ہونے لگیں  ۔ ڈاکٹر صاحب کے مشورے پر اب پیدل اِس چڑھائی کو چڑھنا پڑے گا ۔ دعا کریں کہ کامیابی ہو ۔

پہلی چڑھائی ۔ 

٭-باوردی مزاح ۔ڈاکٹر محمد اسماعیل جوئیہ ۔188 صفحات

دوسری چڑھائی ۔ 

٭-فوجیانہ  مزاح ۔ڈاکٹر محمد اسماعیل جوئیہ ۔135 صفحات

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

 

 

 

 

 ٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔