28 ستمبر شام 7 بجے ، فیس بُک میسنجر پر پیغام وصول ہوا :
" اتوار 30 ستمبر 3 بجے میرے گھر پر شگُفتہ نثر کی ایک محفل آراستہ ہو گی انشاء اللہ!
تشریف لائیے مسلح ہو کر۔ آصف اکبر ، جے "
" جناب نیکی اور پُوچھ پُوچھ ، چشمِ ماروشن دلِ ماشاد ۔خادم حاضر ہو جائے گا " ۔ جواب دیا
آشفتہ سری اور شگفتہ نثری اپنے ہی گملوں کی قلمی فصلیں ہیں ۔ اِن کے جلو میں حاضر نہ ہونا کفرانِ نعمت میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔
ماضی کے پیوستہ اَنمٹ فرمان کے مطابق 5 بجے آصف اکبر صاحب کے گھر پر پہنچ گئے ۔ کار پارک کر کے مُڑے تھے ، کہ دائیں طرف والے دولت کدے پر دو جانی پہچانی شخصیات نظر آئیں ، نعیم صاحب اور بریگیڈئر علوی جو نعیم صاحب کے گھر آئے تھے ، اُن سے سُٹ پنجہ کیا ، حال و احوال برائے صحت و گالف پوچھنے کے بعد آصف صاحب کے گھر کی طرف رُخ کیا ، کہ دو صاحب پابندِ اوقات کو آصف صاحب کے گھر کی گھنٹی بجاتے دیکھا ۔
گیٹ کھلا ایک نوجوان بر آمد ہوا اور دونوں صاحبان کے پیچھے ہم بھی پورچ میں داخل ہوئے ، کہ دروازے سے آصف صاحب نمودار ہوئے ۔علیک سلیک کے بعد ڈاکٹر عزیز فیصل اور ارشد محمود صاحب سے تعارف ہوا ۔
مسز آصف اکبر کو سلام کیا ۔ اُنہوں نے ہماری بیگم کا پوچھا وہ نہیں آئیں ؟ ۔
بتایا کہ آج کل وہ شوگر سے لبریز ہیں ۔لہذاگھر سے باہر نکلنے سے پرہیز کرتی ہیں ۔
تھوڑی دیر بعد ہم ، آصف اکبر ،ڈاکٹر فخرہ نورین ، محترمہ حبیبہ طلعت ، ڈاکٹر عزیز فیصل ، میجر (ر) عاطف مرزا -ارشد محمود، سعید سادھو اور محمد عارف شریک محفل تھے ۔
آصف اکبر صاحب نےمحفل برپا کرنے کے لئے اپنے خدشات کا اظہار کیا ، کہ ہنسی مزاح ہماری زندگیوں سے غائب ہو چکا ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ ہم زندگی کے مصنوعی دور میں دھکیل دیئے جائیں ۔
محفل ِ شگفتہ نثر شروع ہوئی سب نےمزاح سے لبریز اپنے اپنے مضمون سنائے ۔ ہرجملہ پر داد و تحسین ،شتائش ِ مصنف بنتے گئے ۔
ہم نے بھی شگُفتہ نثر:--- بوڑھے کا دسترخوان ۔ بگھارے بینگن ----سنائی۔
آصف اکبر نے اپنی شگُفتہ نثر :--- اعتراض کیجئے !---- سنائی اور خوب داد وصول کی ۔
اختتام پر ، مسز آصف اکبر نے ، اپنے ہاتھوں سے بنائے انواع واقسام کے پکوان سے محفل کی رونق کو دوبالا اور آصف اکبر صاحب کو شہہ بالا بنادیا ۔ کیوں کہ ہر پکوان کی اعلیٰ مزاجی صحت کی داد وہ سمیٹتے رہے ۔ گو کہنے کو یہ چائے کی دعوت تھی مگر اِس دعوتِ مختصر نے ، عشائیے کی اِس بوڑھے سے قربانی مانگ لی ۔ نوجوانوں کا معلوم نہیں ۔
طعام کے بعد چائے سب کو آصف صاحب کی بہوِ نیک اختر نے پیش کی جو ذائقے میں لاجواب تھی ۔ چائے کی چسکیوں کے دوران ، گفتگو کی پھلجھڑیاں بھی چھوڑی جارہی تھیں ۔ اور مستقبل کی محفلوں کے قواعد و ضوابط بھی ترتیب دیئے جا رہے تھے ۔
ہر ماہ اور مہینے کا دوسرا ہفتہ ہر نئے میزبان کے ہاں محفل سجانے کا سب نے عندیہ دیا۔
ڈاکٹر عزیز فیصل ، صدارت گذیدہ لگتے تھے۔ لہذا کسی کو بھی کرسیءِ صدارت دینے پر تیار نہ تھے ۔ چنانچہ طے یہ پایا کہ محفل مزاح نگارانِ قہقہہ آور بغیر کسی صدر کے برپا کی جائے گی ۔
محفل میں شعر و شاعری کے داخلے پر سختی سے پابندی لگانے کا اعلان ہوا ، جس کی سب نے تائید کی ۔ کیوں کہ مزاحیہ نثر کا فروغ اس بزم کی اولین ترجیح ہے۔
آئندہ نشست، شگُفتہ نثر کی دوسری محفل ۔ مورخہ 13 اکتوبر 2018، بروز ہفتہ منعقد کئے جانے کا اعلان کیا ۔
" اتوار 30 ستمبر 3 بجے میرے گھر پر شگُفتہ نثر کی ایک محفل آراستہ ہو گی انشاء اللہ!
تشریف لائیے مسلح ہو کر۔ آصف اکبر ، جے "
" جناب نیکی اور پُوچھ پُوچھ ، چشمِ ماروشن دلِ ماشاد ۔خادم حاضر ہو جائے گا " ۔ جواب دیا
آشفتہ سری اور شگفتہ نثری اپنے ہی گملوں کی قلمی فصلیں ہیں ۔ اِن کے جلو میں حاضر نہ ہونا کفرانِ نعمت میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔
ماضی کے پیوستہ اَنمٹ فرمان کے مطابق 5 بجے آصف اکبر صاحب کے گھر پر پہنچ گئے ۔ کار پارک کر کے مُڑے تھے ، کہ دائیں طرف والے دولت کدے پر دو جانی پہچانی شخصیات نظر آئیں ، نعیم صاحب اور بریگیڈئر علوی جو نعیم صاحب کے گھر آئے تھے ، اُن سے سُٹ پنجہ کیا ، حال و احوال برائے صحت و گالف پوچھنے کے بعد آصف صاحب کے گھر کی طرف رُخ کیا ، کہ دو صاحب پابندِ اوقات کو آصف صاحب کے گھر کی گھنٹی بجاتے دیکھا ۔
گیٹ کھلا ایک نوجوان بر آمد ہوا اور دونوں صاحبان کے پیچھے ہم بھی پورچ میں داخل ہوئے ، کہ دروازے سے آصف صاحب نمودار ہوئے ۔علیک سلیک کے بعد ڈاکٹر عزیز فیصل اور ارشد محمود صاحب سے تعارف ہوا ۔
مسز آصف اکبر کو سلام کیا ۔ اُنہوں نے ہماری بیگم کا پوچھا وہ نہیں آئیں ؟ ۔
بتایا کہ آج کل وہ شوگر سے لبریز ہیں ۔لہذاگھر سے باہر نکلنے سے پرہیز کرتی ہیں ۔
تھوڑی دیر بعد ہم ، آصف اکبر ،ڈاکٹر فخرہ نورین ، محترمہ حبیبہ طلعت ، ڈاکٹر عزیز فیصل ، میجر (ر) عاطف مرزا -ارشد محمود، سعید سادھو اور محمد عارف شریک محفل تھے ۔
آصف اکبر صاحب نےمحفل برپا کرنے کے لئے اپنے خدشات کا اظہار کیا ، کہ ہنسی مزاح ہماری زندگیوں سے غائب ہو چکا ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ ہم زندگی کے مصنوعی دور میں دھکیل دیئے جائیں ۔
محفل ِ شگفتہ نثر شروع ہوئی سب نےمزاح سے لبریز اپنے اپنے مضمون سنائے ۔ ہرجملہ پر داد و تحسین ،شتائش ِ مصنف بنتے گئے ۔
ہم نے بھی شگُفتہ نثر:--- بوڑھے کا دسترخوان ۔ بگھارے بینگن ----سنائی۔
آصف اکبر نے اپنی شگُفتہ نثر :--- اعتراض کیجئے !---- سنائی اور خوب داد وصول کی ۔
اختتام پر ، مسز آصف اکبر نے ، اپنے ہاتھوں سے بنائے انواع واقسام کے پکوان سے محفل کی رونق کو دوبالا اور آصف اکبر صاحب کو شہہ بالا بنادیا ۔ کیوں کہ ہر پکوان کی اعلیٰ مزاجی صحت کی داد وہ سمیٹتے رہے ۔ گو کہنے کو یہ چائے کی دعوت تھی مگر اِس دعوتِ مختصر نے ، عشائیے کی اِس بوڑھے سے قربانی مانگ لی ۔ نوجوانوں کا معلوم نہیں ۔
طعام کے بعد چائے سب کو آصف صاحب کی بہوِ نیک اختر نے پیش کی جو ذائقے میں لاجواب تھی ۔ چائے کی چسکیوں کے دوران ، گفتگو کی پھلجھڑیاں بھی چھوڑی جارہی تھیں ۔ اور مستقبل کی محفلوں کے قواعد و ضوابط بھی ترتیب دیئے جا رہے تھے ۔
ہر ماہ اور مہینے کا دوسرا ہفتہ ہر نئے میزبان کے ہاں محفل سجانے کا سب نے عندیہ دیا۔
ڈاکٹر عزیز فیصل ، صدارت گذیدہ لگتے تھے۔ لہذا کسی کو بھی کرسیءِ صدارت دینے پر تیار نہ تھے ۔ چنانچہ طے یہ پایا کہ محفل مزاح نگارانِ قہقہہ آور بغیر کسی صدر کے برپا کی جائے گی ۔
محفل میں شعر و شاعری کے داخلے پر سختی سے پابندی لگانے کا اعلان ہوا ، جس کی سب نے تائید کی ۔ کیوں کہ مزاحیہ نثر کا فروغ اس بزم کی اولین ترجیح ہے۔
آئندہ نشست، شگُفتہ نثر کی دوسری محفل ۔ مورخہ 13 اکتوبر 2018، بروز ہفتہ منعقد کئے جانے کا اعلان کیا ۔
اِس کے ساتھ آئیندہ اپنی اپنی تخلیقات کے ساتھ دوبارہ ملنے کے عزم کے ساتھ محفل برخاست کرنے کا اعلان ہوا ۔
قوعد و ضوابط:
٭- اول -محفل مزاح نگارانِ قہقہہ آور بغیر کسی صدر کے برپا کی جائے گی ۔
٭-دوئم -مزاحیہ نثر کا فروغ اس بزم کی اولین ترجیح ہے۔ شعر و شاعری کے داخلے پر سختی سے پابندی ہے -
٭- ہر ماہ اور مہینے کا دوسرا ہفتہ ہر نئے میزبان کے ہاں محفل سجائی جائے گی-
٭- بانی ممبران کے علاوہ شروع میں نئے ممبروں سے اجتناب کیا جائے ۔
آصف اکبر ، میجر (ر) نعیم الدین خالد،ڈاکٹر فخرہ نورین ، محترمہ حبیبہ طلعت ، ڈاکٹر عزیز فیصل ، میجر (ر) عاطف مرزا -ارشد محمود ، سعید سادھو اور محمد عارف
٭- نئے ممبر کا نیا ہونا شرط ہے- پرانے قدآور ممبر کی شمولیت اعراض برتا جائے -
( مبصّر - نعیم الدین خالد )
قوعد و ضوابط:
٭- اول -محفل مزاح نگارانِ قہقہہ آور بغیر کسی صدر کے برپا کی جائے گی ۔
٭-دوئم -مزاحیہ نثر کا فروغ اس بزم کی اولین ترجیح ہے۔ شعر و شاعری کے داخلے پر سختی سے پابندی ہے -
٭- ہر ماہ اور مہینے کا دوسرا ہفتہ ہر نئے میزبان کے ہاں محفل سجائی جائے گی-
٭- بانی ممبران کے علاوہ شروع میں نئے ممبروں سے اجتناب کیا جائے ۔
آصف اکبر ، میجر (ر) نعیم الدین خالد،ڈاکٹر فخرہ نورین ، محترمہ حبیبہ طلعت ، ڈاکٹر عزیز فیصل ، میجر (ر) عاطف مرزا -ارشد محمود ، سعید سادھو اور محمد عارف
٭- نئے ممبر کا نیا ہونا شرط ہے- پرانے قدآور ممبر کی شمولیت اعراض برتا جائے -
( مبصّر - نعیم الدین خالد )
٭٭٭٭٭٭واپس جائیں٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں