٭جب میٹرک میں 2009 میں والد کو خود فون کیا تو والد نے صاف انکار کرتے ہوئے یہ شرط رکھی کہ
’پہلے اپنی والدہ کے خلاف تھانے میں درخواست دو کہ وہ اچھی خاتون نہیں تو میں تمھارے لیے سوچوں گا‘۔
میں انھیں والد کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہوں ۔۔۔
وہ جس نے کبھی میرا نام نہیں لیا۔ ان کے خاندان کے شجرے میں میرا نام ہی موجود نہیں !
لوگ پوچھتے ہیں باپ کہاں ہے؟
کیا یہی تمھاری ماں ہے؟
میں نے سماجی سطح پر 20 سال سے ، ذلت سہی ہے۔!
٭تطہیر فاطمہ نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں اپنا نام ’تطہیر بنت پاکستان‘ لکھا ہے اور یہی دراصل ان کا مطالبہ بھی ہے کہ وہ 22 برس کی عمر میں اپنے دستاویزات میں ولدیت کے خانے سے اپنے والد شاہد ایوب کا نام ہٹا دینا چاہتی ہیں۔
پاکستان کے قانون میں یتیم بچوں اور والد کے لاپتہ ہونے والوں کی شناختی دستاویزات کے لیے تو قانون موجود ہے ۔
لیکن ایسے بچے جن کے والد حیات ہوں اور بچوں کو ماں کی گود میں ڈال کر، ایک طرف ہوگئے ہوں۔
اُن کے لیے پاکستانی قانون خاموش ہے!
لیکن اللہ کا قانون خاموش نہیں ۔جو ہزاروں سال سے موجود ہے !
روح القدّس نے محمدﷺ کو اللہ کا حکم بتایا :
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَـٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿33:5﴾
اللہ کے نزدیک یہ انصاف ہے کہ اُنہیں اُن کے باپ کے نام سے پکارو !
اگر تمھیں اُن کے باپ کا علم نہیں ، تو وہ تمھارے (اللہ کے ) الدین میں بھائی ہیں ۔اور تمھارے موالی ہیں ۔
اگر تم نے یہ خطا کر لی ہے( کہ اُنہیں بن باپ کا طعنہ دیا ہے) جبکہ تمھارے قلوب ،عمداً ایسا نہیں کرنا چاھتے ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں !
اللہ غفور اور رحیم ہے !
وہ جس نے کبھی میرا نام نہیں لیا۔ ان کے خاندان کے شجرے میں میرا نام ہی موجود نہیں !
لوگ پوچھتے ہیں باپ کہاں ہے؟
کیا یہی تمھاری ماں ہے؟
میں نے سماجی سطح پر 20 سال سے ، ذلت سہی ہے۔!
٭تطہیر فاطمہ نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں اپنا نام ’تطہیر بنت پاکستان‘ لکھا ہے اور یہی دراصل ان کا مطالبہ بھی ہے کہ وہ 22 برس کی عمر میں اپنے دستاویزات میں ولدیت کے خانے سے اپنے والد شاہد ایوب کا نام ہٹا دینا چاہتی ہیں۔
پاکستان کے قانون میں یتیم بچوں اور والد کے لاپتہ ہونے والوں کی شناختی دستاویزات کے لیے تو قانون موجود ہے ۔
لیکن ایسے بچے جن کے والد حیات ہوں اور بچوں کو ماں کی گود میں ڈال کر، ایک طرف ہوگئے ہوں۔
اُن کے لیے پاکستانی قانون خاموش ہے!
لیکن اللہ کا قانون خاموش نہیں ۔جو ہزاروں سال سے موجود ہے !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
روح القدّس نے محمدﷺ کو اللہ کا حکم بتایا :
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَـٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿33:5﴾
اللہ کے نزدیک یہ انصاف ہے کہ اُنہیں اُن کے باپ کے نام سے پکارو !
اگر تمھیں اُن کے باپ کا علم نہیں ، تو وہ تمھارے (اللہ کے ) الدین میں بھائی ہیں ۔اور تمھارے موالی ہیں ۔
اگر تم نے یہ خطا کر لی ہے( کہ اُنہیں بن باپ کا طعنہ دیا ہے) جبکہ تمھارے قلوب ،عمداً ایسا نہیں کرنا چاھتے ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں !
اللہ غفور اور رحیم ہے !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں