سر کاٹ کر تشہیر کرانے کی روایتوں کا تاریخی تجزیہ:
امیرالمومنین عمر بن عبد العزیز اموی کا زمانہ خلافت ہجری 99 سے ہجری 101 تک کل دو سال اور پانچ مہینے رہا یعنی حادثہ کربلا سے تقریبا 40 برس بعد . پھر اگر بقول مولف مجاہد اعظم کے کہ اس روایت کے مان لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں.تو ساتھ ہی یہ بات مان لینے کی بھی ہے کہ اتنے عرصے میں سواۓ چند ایک ہڈیوں کے اور کیا بچا ہو گا کہ جس کے لئے دمشق اور کربلا کی کھدائی پر کھدائی کی جاتی .اور ان سے پہلے جو عالم فاضل خلفا جو تابعین کے زمرہ میں آتے ہیں اور وہ شخصیت پرستی کی توہمات سے بالا تر تھے کسی نے بھی یہ کام نہ کیا .مصنف مجاہد اعظم اگر تھوڑی مزید تحقیق سے کام لیتے تو انہیں یہ بات بھی مان لینے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا کہ حضرت حسین اور ان کے ساتھیوں کے سر نہ تو جسم سے جدا کیے گیے اور نہ ہی ان کی تشہیر کرائی گئی .
خود ملا باقر مجلسی کا بیان سنیے فرماتے ہیں:
" رسول الله صلم حسین کے سر کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس میں کوئی شک نہیں وہ سر اور بدن اشراف اماکن کو منتقل ہو گئے ( عالم بالا کو ،حوریں اور جنت کے فرشتے اور انبیا وغیرہ اس کو لے گیے ) اور یہ سر اور بدن عالم قدس میں ایک دوسرے سے ملحق ہو گیے اور دنیا میں کسی کو ان کی کیفیت معلوم نہ ہو سکی" . (جلاالعیون صفحہ 504)
ملا صاحب کے اس ارشاد کے بعد ترماح بن عدی کی وہ حدیث بھی سنیے جو ابومحنف نے روایت کی ہے طرماح بن عدی کہتے ہیں،
" میں " کشتگان یوم طف " کے درمیان سخت زخمی پڑا تھا کوئی مجھے زندہ نہیں سمجھتا تھا کہ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ 20 عدد سوارسفید لباس پہنے ہوے پہنچے اور ان کے آتے ہی تمام میدان مشک کی خوشبو سے مہک اٹھا میں نے سمجھا کہ یہ عبید الله بن زیاد ہو گا اور چاہتا ہو گا کہ حسین کے بدن کو مثل دے کہ ان سواروں میں سے ایک سوار جسد حسین کے پاس آ کر گھوڑے سے اترے اور جسم کے پاس بیٹھ گیا، اس وقت کہ جب لوگ حسین کے سر کو کوفہ کی طرف لے جا رہے تھے ،ان صاحب نے کوفہ کی طرف اشارہ کیا اور یک دم حسین کا سر آن پہنچا اور جسم کے ساتھ ملحق ہو گیا " (صفحہ 311 ناسخ التواریخ )-
اور ان صاحب نے اس کے بعد یہ الفاظ کہے،
" اے میرے بیٹے دیکھا تجھ کو قتل کر دیا تجھے نہ پہچانا ، تیرا پانی بند کر دیا"
پھر ساتھیوں کی طرف دیکھ کر کہا ،" اے بابا آدم ،اور اے دادا ابراہیم ، اور اے ابا اسماعیل ،اور اے برادر موسی، اور اے بھیا عیسی، دیکھا تم نے ! باغی ظالموں نے میرے بیٹے کے ساتھ کیا کیا .الله ان کو میری شفاعت سے محروم کرے" ۔
طرماح کا کہنا ہے ،
" یہ سنتے میں سمجھ گیا کہ یہ تو رسول الله ہیں اور ان کے ساتھ یہ سب انبیا ہیں"
اب غور کیجئے کہ ان ہی راویوں کے بیان سے یہ ثابت ہے کہ رسول الله کے معجزے سے اور انبیا اکرام کی موجودگی میں خصوصا باوا آدم کی موجودگی میں حضرت حسین کا سر جسم سے پیوست اور ملحق ہو گیا تھا ۔
ملا باقر مجلسی کی ایک اور روایت،
عالم قدس میں سر اور بدن دونوں ملحق ہو کر پہنچے اور رسول الله ان کو ساتھ لے گئے تھے .
دوسری روایت کہ جناب زیب العابدین اپنے امام ہونے کی کرامت دکھا کر کربلا پہنچے تھے اپنے والد کی نماز جنازہ پڑھی اور دفن کر کے لوٹ گئے تھے .
تیسری روایت ( ابو محنف )
" جناب فضہ خادمہ حضرت الزہرہ عراقی شیر " ابو الحارث" کو لے کر آپ کے بے جان جسم کی حفاظت کے لئے آئیں تھیں اور اس ہیبتناک شیر کو دیکھتے ہی عمر بن سعد اور ان کے فوجی جو سر کاٹنے آئے تھے ڈر کر یہ کہتے ہوے بھاگ گئے کہ یہ فتنہ ہے اسے مت چھیڑو۔ (جلاالعیون.صفحہ 475 )
چوتھی روایت،
ام المومنین حضرت ام سلمہ سے خواب میں آنحضرت نے فرمایا کہ میں حسین کو دفن کر کے آیا ہوں .اور ان کے جھوٹ کیسے پکڑے جاتے ہیں کہ ام سلمہ واقعہ کربلا سے ڈیڑھ سال پہلے ہی انتقال فرما گئیں تھیں ۔
آپ بس غور فرمائیں کہ بقول ملا صاحب جو سر کاٹنے آئے تھے وہ بغیر سر کاٹے پلٹ گئے اور بقول ناسخ التواریخ کے خود حضرت علی ایک عظیم ہیبت ناک شیر کی شکل میں لاش کی حفاظت کرتے رہے (صفحہ 403 ناسخ التواریخ )
تو کیا پھر سر کاٹنے اور ان کی تشہیر کرنے کی روایتیں خود بخود من گھڑت ثابت نہیں ہو جاتیں ؟
یہ سب روایتیں تو صرف ایک سر کے بارے میں ہیں (حضرت حسین کے سر کے )
باقی مقتولین کے سروں کے دفن کا تو تاریخ اور تذکرے میں کوئی ذکر ہی نہیں ملتا .
خود مولف مجاہد اعظم( صفحہ 303 )میں فرماتے ہیں کہ دوسرے شہداے کربلا کے سروں کے متلق تمام تاریخیں خاموش ہیں ان لئے ہمیں بھی خاموش رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں،
جبکہ تعداد ان کٹے ہوے سروں کی دو یا چار تو نہ تھی اور مصنف ناسخ التواریخ نے اکٹھے 86 سر شمار کیے ہیں اور کہتے ہیں کہ چالیس اونٹوں پر لاد کر لے جائے گئے تھے .۔
بہر حال سر 86 ہوں یا 72 ،غیر لوگوں کے سروں کے بارے میں اگر تاریخ خاموش رہتی تو کوئی عجیب بات نہیں تھی۔
مگر حضرت حسین ہی کے بیٹوں ، بھائیوں ، بھتیجوں ،بھانجوں اور بنی ہاشم اور نو نہالان اہل بیعت کے سروں کے بارے میں سب تاریخیں خاموش کیوں ہیں ؟
ان کے سروں کا آخر کیا ہوا .یہ سب کہاں دفن ہوئے؟
حضرت حسین کے بڑے صاحب زادے علی اکبر تو امیر یزید کے رشتے میں بھانجے لگتے تھے ان کے سر کو خلیفہ وقت اور اہل خاندان نے کہاں دفن کیا ؟
پھر حضرت حسین کے سوتیلے بھائیوں عبدللہ (محمّد الاکبر ) عباس ، جعفر، عثمان یہ سب کہاں دفن ہوئے کس نے ان کو دفن کیا ؟
ایک اور روایت میں کہا جاتا ہے کہ حسین کے سوتیلے بھائیوں عبدللہ (محمّد الاکبر ) عباس ، جعفر، عثمان کے سروں کو شمر بن الجوشن ساتھ لے کر گیا تھا کیوں کہ وہ رشتے میں ان کا ماموں لگتا تھا تو پھر ان بھانجوں کے سروں کا ماموں نے کیا کیا کہاں دفن کیا؟
دمشق یا شام میں یا کسی اور مقام میں ، آخر کوئی پتہ نشان تو ملنا چاہیئے تھا کہ نہیں کیا ان سروں کے بارے میں مورخین کی یہ خاموشی معنی خیز نہیں ؟
حسین کی بیٹی سیدہ سکینہ جو کوفہ یا کربلا سے دمشق آئیں تھیں اور وہاں سے مدینہ تشریف لے گئیں تھیں آپ حادثہ کربلا کے 75 برس بعد تک زندہ رہیں ۔ان کے بارے میں روایتیں گڑھ لیں کہ دمشق کے قید خانے میں بچپن ہی میں وفات پا گئیں.اور دمشق میں ان کی ایک چھوٹی سی مصنوعی قبر بھی بنا ڈالی۔
مگر ان ہی سکینہ کے بھائیوں چچوں اور دوسرے عزیزوں کے سروں کے دفن کی جگہ کا کوئی پتہ نشان نہیں حالانکہ ان کے سر بھی جیسا ان من گھڑت روایتوں میں بیان کیا گیا ہے اس قافلے کے ساتھ دمشق آئے جس میں سیدہ سکینہ بھی تھیں تو پھر ان سروں کا آخر کیا ہوا کہاں دفن کیے گیے .یا دفن ہوئے بھی کہ نہیں ؟
کربلا کے مقتولوں کے سر کاٹ کر ،ان کی مشہوری کرنے کا بیان ابھی جاری ہے۔
امیرالمومنین عمر بن عبد العزیز اموی کا زمانہ خلافت ہجری 99 سے ہجری 101 تک کل دو سال اور پانچ مہینے رہا یعنی حادثہ کربلا سے تقریبا 40 برس بعد . پھر اگر بقول مولف مجاہد اعظم کے کہ اس روایت کے مان لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں.تو ساتھ ہی یہ بات مان لینے کی بھی ہے کہ اتنے عرصے میں سواۓ چند ایک ہڈیوں کے اور کیا بچا ہو گا کہ جس کے لئے دمشق اور کربلا کی کھدائی پر کھدائی کی جاتی .اور ان سے پہلے جو عالم فاضل خلفا جو تابعین کے زمرہ میں آتے ہیں اور وہ شخصیت پرستی کی توہمات سے بالا تر تھے کسی نے بھی یہ کام نہ کیا .مصنف مجاہد اعظم اگر تھوڑی مزید تحقیق سے کام لیتے تو انہیں یہ بات بھی مان لینے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا کہ حضرت حسین اور ان کے ساتھیوں کے سر نہ تو جسم سے جدا کیے گیے اور نہ ہی ان کی تشہیر کرائی گئی .
خود ملا باقر مجلسی کا بیان سنیے فرماتے ہیں:
" رسول الله صلم حسین کے سر کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس میں کوئی شک نہیں وہ سر اور بدن اشراف اماکن کو منتقل ہو گئے ( عالم بالا کو ،حوریں اور جنت کے فرشتے اور انبیا وغیرہ اس کو لے گیے ) اور یہ سر اور بدن عالم قدس میں ایک دوسرے سے ملحق ہو گیے اور دنیا میں کسی کو ان کی کیفیت معلوم نہ ہو سکی" . (جلاالعیون صفحہ 504)
ملا صاحب کے اس ارشاد کے بعد ترماح بن عدی کی وہ حدیث بھی سنیے جو ابومحنف نے روایت کی ہے طرماح بن عدی کہتے ہیں،
" میں " کشتگان یوم طف " کے درمیان سخت زخمی پڑا تھا کوئی مجھے زندہ نہیں سمجھتا تھا کہ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ 20 عدد سوارسفید لباس پہنے ہوے پہنچے اور ان کے آتے ہی تمام میدان مشک کی خوشبو سے مہک اٹھا میں نے سمجھا کہ یہ عبید الله بن زیاد ہو گا اور چاہتا ہو گا کہ حسین کے بدن کو مثل دے کہ ان سواروں میں سے ایک سوار جسد حسین کے پاس آ کر گھوڑے سے اترے اور جسم کے پاس بیٹھ گیا، اس وقت کہ جب لوگ حسین کے سر کو کوفہ کی طرف لے جا رہے تھے ،ان صاحب نے کوفہ کی طرف اشارہ کیا اور یک دم حسین کا سر آن پہنچا اور جسم کے ساتھ ملحق ہو گیا " (صفحہ 311 ناسخ التواریخ )-
اور ان صاحب نے اس کے بعد یہ الفاظ کہے،
" اے میرے بیٹے دیکھا تجھ کو قتل کر دیا تجھے نہ پہچانا ، تیرا پانی بند کر دیا"
پھر ساتھیوں کی طرف دیکھ کر کہا ،" اے بابا آدم ،اور اے دادا ابراہیم ، اور اے ابا اسماعیل ،اور اے برادر موسی، اور اے بھیا عیسی، دیکھا تم نے ! باغی ظالموں نے میرے بیٹے کے ساتھ کیا کیا .الله ان کو میری شفاعت سے محروم کرے" ۔
طرماح کا کہنا ہے ،
" یہ سنتے میں سمجھ گیا کہ یہ تو رسول الله ہیں اور ان کے ساتھ یہ سب انبیا ہیں"
اب غور کیجئے کہ ان ہی راویوں کے بیان سے یہ ثابت ہے کہ رسول الله کے معجزے سے اور انبیا اکرام کی موجودگی میں خصوصا باوا آدم کی موجودگی میں حضرت حسین کا سر جسم سے پیوست اور ملحق ہو گیا تھا ۔
ملا باقر مجلسی کی ایک اور روایت،
عالم قدس میں سر اور بدن دونوں ملحق ہو کر پہنچے اور رسول الله ان کو ساتھ لے گئے تھے .
دوسری روایت کہ جناب زیب العابدین اپنے امام ہونے کی کرامت دکھا کر کربلا پہنچے تھے اپنے والد کی نماز جنازہ پڑھی اور دفن کر کے لوٹ گئے تھے .
تیسری روایت ( ابو محنف )
" جناب فضہ خادمہ حضرت الزہرہ عراقی شیر " ابو الحارث" کو لے کر آپ کے بے جان جسم کی حفاظت کے لئے آئیں تھیں اور اس ہیبتناک شیر کو دیکھتے ہی عمر بن سعد اور ان کے فوجی جو سر کاٹنے آئے تھے ڈر کر یہ کہتے ہوے بھاگ گئے کہ یہ فتنہ ہے اسے مت چھیڑو۔ (جلاالعیون.صفحہ 475 )
چوتھی روایت،
ام المومنین حضرت ام سلمہ سے خواب میں آنحضرت نے فرمایا کہ میں حسین کو دفن کر کے آیا ہوں .اور ان کے جھوٹ کیسے پکڑے جاتے ہیں کہ ام سلمہ واقعہ کربلا سے ڈیڑھ سال پہلے ہی انتقال فرما گئیں تھیں ۔
آپ بس غور فرمائیں کہ بقول ملا صاحب جو سر کاٹنے آئے تھے وہ بغیر سر کاٹے پلٹ گئے اور بقول ناسخ التواریخ کے خود حضرت علی ایک عظیم ہیبت ناک شیر کی شکل میں لاش کی حفاظت کرتے رہے (صفحہ 403 ناسخ التواریخ )
تو کیا پھر سر کاٹنے اور ان کی تشہیر کرنے کی روایتیں خود بخود من گھڑت ثابت نہیں ہو جاتیں ؟
یہ سب روایتیں تو صرف ایک سر کے بارے میں ہیں (حضرت حسین کے سر کے )
باقی مقتولین کے سروں کے دفن کا تو تاریخ اور تذکرے میں کوئی ذکر ہی نہیں ملتا .
خود مولف مجاہد اعظم( صفحہ 303 )میں فرماتے ہیں کہ دوسرے شہداے کربلا کے سروں کے متلق تمام تاریخیں خاموش ہیں ان لئے ہمیں بھی خاموش رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں،
جبکہ تعداد ان کٹے ہوے سروں کی دو یا چار تو نہ تھی اور مصنف ناسخ التواریخ نے اکٹھے 86 سر شمار کیے ہیں اور کہتے ہیں کہ چالیس اونٹوں پر لاد کر لے جائے گئے تھے .۔
بہر حال سر 86 ہوں یا 72 ،غیر لوگوں کے سروں کے بارے میں اگر تاریخ خاموش رہتی تو کوئی عجیب بات نہیں تھی۔
مگر حضرت حسین ہی کے بیٹوں ، بھائیوں ، بھتیجوں ،بھانجوں اور بنی ہاشم اور نو نہالان اہل بیعت کے سروں کے بارے میں سب تاریخیں خاموش کیوں ہیں ؟
ان کے سروں کا آخر کیا ہوا .یہ سب کہاں دفن ہوئے؟
حضرت حسین کے بڑے صاحب زادے علی اکبر تو امیر یزید کے رشتے میں بھانجے لگتے تھے ان کے سر کو خلیفہ وقت اور اہل خاندان نے کہاں دفن کیا ؟
پھر حضرت حسین کے سوتیلے بھائیوں عبدللہ (محمّد الاکبر ) عباس ، جعفر، عثمان یہ سب کہاں دفن ہوئے کس نے ان کو دفن کیا ؟
ایک اور روایت میں کہا جاتا ہے کہ حسین کے سوتیلے بھائیوں عبدللہ (محمّد الاکبر ) عباس ، جعفر، عثمان کے سروں کو شمر بن الجوشن ساتھ لے کر گیا تھا کیوں کہ وہ رشتے میں ان کا ماموں لگتا تھا تو پھر ان بھانجوں کے سروں کا ماموں نے کیا کیا کہاں دفن کیا؟
دمشق یا شام میں یا کسی اور مقام میں ، آخر کوئی پتہ نشان تو ملنا چاہیئے تھا کہ نہیں کیا ان سروں کے بارے میں مورخین کی یہ خاموشی معنی خیز نہیں ؟
حسین کی بیٹی سیدہ سکینہ جو کوفہ یا کربلا سے دمشق آئیں تھیں اور وہاں سے مدینہ تشریف لے گئیں تھیں آپ حادثہ کربلا کے 75 برس بعد تک زندہ رہیں ۔ان کے بارے میں روایتیں گڑھ لیں کہ دمشق کے قید خانے میں بچپن ہی میں وفات پا گئیں.اور دمشق میں ان کی ایک چھوٹی سی مصنوعی قبر بھی بنا ڈالی۔
مگر ان ہی سکینہ کے بھائیوں چچوں اور دوسرے عزیزوں کے سروں کے دفن کی جگہ کا کوئی پتہ نشان نہیں حالانکہ ان کے سر بھی جیسا ان من گھڑت روایتوں میں بیان کیا گیا ہے اس قافلے کے ساتھ دمشق آئے جس میں سیدہ سکینہ بھی تھیں تو پھر ان سروں کا آخر کیا ہوا کہاں دفن کیے گیے .یا دفن ہوئے بھی کہ نہیں ؟
کربلا کے مقتولوں کے سر کاٹ کر ،ان کی مشہوری کرنے کا بیان ابھی جاری ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭واپس ۔شیطان نامہ ۔ فہرست ٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں