حسینی قافلہ کے شرکا اور باقی ماندگان
حضرت حسین کے اپنی اولاد کے علاوہ ان کے جو بھائی بہنوئی اور بھتیجے ساتھ گئے اور ان میں سے جو صحیح سلامت واپس لوٹے ان کی کیفیت مخلتف کتب تاریخ و نساب کے اعتبار سے یہ ھے ۔
حضرت حسین کے چودہ بھائیوں میں سے جو ان کے خروج کے وقت زندہ تھے صرف چار ان کے ساتھ گئے تھے یعنی
1- عباس و جعفر و عثمان و عبداللہ ام النبین بنت حزام الکلابی کے بطن سے تھے اور انکے ماموں کا قبیلہ کوفہ و عراق میں سکونت رکھتا تھا جس میں شمر زی الجوشن وغیرہ تھے
2- حضرت حسین کے بزرگ ابو یزید عقیل کے سولہ بیٹوں میں مسلم بن عقیل ، جو حضرت حسین کے بہنوئی بھی تھے کوفیوں سے بیعت لینے کے سلسلے میں پہلےہی کوفہ بھیجے جا چکے تھے اور حکومت کے خلاف کاروائی کے جرم میں پہلے ہی سزاے قتل پا چکے تھے
٭- ان کی زوجہ رقیہ بنت علی سے تین بیٹے تھے عبداللہ و علی و محمد ، یہ تینوں اپنی والدہ کے ساتھ حسینی قافلہ میں گئے تھے ۔
٭ - مسلم کے بھائیوں میں سے دو بھائی حسینی قافلہ میں مع اپنی بیبیوں اور اولاد کے ساتھ شامل تھے یعنی عبداللہ الاکبر بن عقیل جن کو حضرت علی کی تین بیٹیاں یک بعد دیگرے بیاہی گئی تھیں۔یعنی میمونہ ، ام ھانی ، و ام کلثوم الصغری
٭- ان میں سے ایک زوجہ اور چار بیٹے محمد، عبد الرحمن، مسلم ،اور عقیل حسینی قافلہ میں شامل تھے ،
٭ - دوسرے عبد الرحمن بن عقیل تھے جن کی زوجہ خدیجہ بنت علی سے ان کے دو بیٹے سعید اور عقیل ساتھ گیے تھے ۔
3۔ حضرت حسین کے چچیرے بھائی اور بہنوئی عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کے بیس یا چوبیس بیٹے بیان کیے جاتے ہیں۔
٭- ان کی زوجہ زینب بنت علی تو جیسا پہلے زکرہو چکا ہے اپنے بھائی کے ساتھ قافلہ میں تھیں مگر ان کے بیٹے علی الزینبی بن عبداللہ بن جعفر اور بیٹی ام کلثوم ان کے ساتھ نہ گئے تھے ۔
٭- عبداللہ بن جعفر کے جو دو بیٹے عون اور محمد جو حسینی قافلہ کے ساتھ تھے وہ حسین کی روانگی کے بعد اپنے والد کا پیغام لے کر گئے تھے کہ واپس لوٹ آئیں اور آگے نہ بڑھیں( الامامہ و السیاسۃ جلد 2 صفحہ 2)۔ یہ دونوں حضرت حسین کے اصرار پر ساتھ چلے گئے اور واپس نہ لوٹے۔ مگر یہ دونوں سیدہ زینب کے بطن سے نہ تھے دوسری ماؤں سے تھے
4- اسی طرح عون بن جعفر بن ابی طالب کی اولاد سے کوئی نہ گیا تھا۔
5- حضرت حسن کی اولاد کا شمار مختلف تاریخ دانوں نے مختلف کیا ہے ، ناسخ التواریخ نے 20 شمار کیے ہیں جو آپ کی شادیوں کے لحاظ سے درست خیال کیا جا سکتا ہے (جلد 8 صفحہ 282)- ان میں سے 6 اپنے چچا کے ساتھ گئے اور 14 نہ گئے ۔
٭- جانے والوں میں ایک تو حسن بن الحسن (حسن مثنی) جو حضرت حسین کے داماد ان کی بیٹی فاطمہ کے شوہر تھے۔
٭- دوسرے طلحہ بن حسن تھے جن کی والدہ ام اسحاق بنت طلحہ بن عبید اللہ ( بیوہ حضرت حسن )جن سے حضرت حسین نے خود نکاح کر لیا تھا اوران کے بطن سے فاطمہ بنت الحسین تھیں۔
٭- تیسرے بیٹے حضرت حسن کے جو اپنے چچا کے قافلہ میں تھےانکا نام عمرو تھا جو مسلم بن عقیل کے بہنوئی تھے یعنی رملہ بنت عقیل کے شوہر تھے
٭- ان کے علاوہ زید ،قاسم، ابو بکر، حضرت حسن بن علی کے بیٹے حسینی قافلہ میں موجود تھے۔ جن کا ذکر اکثر مورخین نے کیا ہے۔ عمدہ الطالب کے مصنف کہتے ھیں کہ زید اپنے چچا کے ساتھ نہیں گیے تھے (صفحہ 49۔ ) مگر یہ غلط ہے وہ اپنے چچا کے ساتھ گئے تھے اور واپس آئے تھے۔
اس تشریح کا مقصد ہے کہ ابو طالب کی اولاد کے 75 شخص اس قابل تھے جو آپ کے ساتھ جا سکتے تھے مگر ایک چوتھائی سے بھی کم تعداد آپ کے ساتھ شریک ہوئی۔
جو آپ کے ساتھ آپ کے خروج میں شریک تھےان میں بھی اکثریت ایسے افراد کی تھی جو بھتیجے اور چچا زاد بھائی ہونے کے ساتھ داماد یا بہنوئی ہونے کا رشتہ بھی رکھتے تھے۔
حضرت حسین کے 6 بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ناسخ التواریخ نے 6 بیٹے اور 4 بیٹیاں بتائی ہیں (صفحہ 532 )
ابن خشاب نے 6 بیٹے اور تین بیٹیاں لکھی ہیں۔
حضرت حسین نے جن خواتین سے ازدواجی رشتہ قائم کیا ، ان کی درست تعداد تو معلوم نہیں لیکن کنیزوں اور جواری کے علاوہ سات بیویوں کے نام کتب تاریخ میں ملتے ہیں۔
1- آمنہ بنت ابی مرہ بن عروہ ثقی (حضرت ابو سفیان کی نواسی اور امیر یزید کی پھوپھی زاد بہن۔) ان کے بطن سے علی اکبر تھے جو کربلا میں مقتول ہوے۔ (طبری- کتاب نسب قریش -المعارف وغیرہ،)
2- سلافہ سندھیہ خاتون ۔ آپ ام ولد تھیں۔ان کے بطن سے علی بن حسین (زین العابدین) تھے ۔ ان کی والدہ کا نام شہر بانو بنت یزد جرد بتایا جاتا ہےجو غلط ھے۔ ( طبری- المعارف- ) اور گیری واکر کی مشہور تحریر ایرانیوں کی حضرت علی و حسین سے محبت و عقیدت کی وجہ کا مطالعہ کریں۔
3- ام اسحق بنت طلحہ بن عبید اللہ ، ان کے بطن سے فاطمہ دختر حسین تھیں ---( کتاب نسب قرہش ، جمہرہ الانساب ابن حزم ، وغیرہ۔
4- رباب بنت امرو القیس کلبید اور ان کے بطن سے سکینہ بنت حسین پیدا ھوئیں۔عبداللہ طفیل صغیر مقتول کو بھی ین کے بطن سے بتایا جاتا ھے۔( کتاب المعارف و کتاب نسب قریش)
5- حفصہ بنت عبد الرحمن بن ابو بکر الصدیق ( کتاب المجر ) محمد بن الحسین ان کے بطن سے تھے مگر روایات مختلف بھی ہیں۔
6- ایک بیٹی ابو مسعود انصاری کی آپ کے نکاح میں تھیں ۔ ان کی اولاد اور نام معلوم نہیں۔
7- قبیلہ بلی (قضاعہ) کی ایک خاتون بھی آپ کے نکاح میں تھیں جن کے بطن سے عمر بن الحسین تھے ۔(کتاب نسب قریش صفحہ 59)۔ ناسخ التواریخ نے عمر بن الحسین کا زکر ان الفاظ میں کیا ھے۔- کہ میں نے پسر حسین کا شمار پانچ عدد کیا ہے اور ایک کا نام ان میں عمر خیال کیا ھے کہتے ھیں کہ پانچ چار سال کی عمر تھی۔الامامہ و السیاسۃ کے مصنف نے(صفحہ 533۔) اور ناسخ التواریخ نے بحوالہ کشف انعمہ محمد کو حسین کا بیٹا شمار کیا ہے - (صفحہ 532۔)
حسین کے بیٹے کس کس عمر کے تھے؟
اور کیا آپ کے بیٹے علی اکبر کربلا میں قتل ہوئے تھے ؟
زین العابدین بھی آپ کے بیٹے تھے تو علی اصغر کون تھے؟
اس بارے میں مختلف اقوال ہیں تاہم سب مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ علی بن حسین (زین العابدین) کی عمر حادثہ کربلا کے وقت 23 یا 24 سال کی تھی اور وہ صاحب اولاد تھے ان کی زوجہ ام عبداللہ بنت حسن بن علی سے دو بیٹے حسین الاکبر اور محمد الباقر کربلا میں ان کے ساتھ تھے حسین الاکبر بڑے تھے اور ان کے نام پر ان کی کنیت تھی۔(کتاب نسب قریش صفحہ 59۔)
اور کتابوں میں یہ مکذوبہ روایت بیان کی گئی ہے کہ انکو نابالغ بچہ سمجھ کر چھوڑ دیا گیا۔اور قتل نہ کیا گیا۔اسی طرح حضرت حسین کے داماد حسن مثنی اور ان کے بھائی عمرو بن الحسن جو مسلم بن عقیل کے بہنوئی تھےاور اکیس اور بیس سال کی عمروں کے تھے کم سن بتایا گیا ہے محض اس وجہ سے کہ یہ حضرات اپنے دیگر عزیزوں کے ساتھ صحیح سلامت کربلا سے واپس لوٹے تھے تا کہ ان جھوٹی روایتوں پر پردہ ڈالا جا سکے کہ حکومت نسل حسین کا خاتمہ کرنا چاہتی تھی۔
اس لیےتو کبھی یہ کہا گیا کہ مریض تھے لڑائی میں شریک نہیں ہوے یا ابن زیاد قتل کرنا چاہتا تھا تو ان کی پھوپھی لپٹ گیئں کہ مجھے بھی ان کے ساتھ قتل کر دے تو اس ظالم کو رحم آ گیا اور قتل نہ کیا۔
اور کبھی کہا کہ کم سن سمجھ کر چھوڑ دیا۔
اب ان علامہ ابن جریر طبری، کوئی پوچھے کہ ان صاحب اولاد شادی شدہ جوان عمر کے لوگوں کو تو چھوٹی عمر کا سمجھ کر چھوڑ دیا اور قتل نہ کیا ، تو پھر ایک معصوم شیر خوار بچے عبداللہ بن حسین کو کیا بڑی عمر کا سمجھ لیا تھا؟
اس ننھے جسم میں کیوں تیر پیوست کیا گیا اور تیر بھی ایسا آنکھوں والا تھا کہ سیدھا حلق میں جا کے لگا۔۔ جلاالعیون ملا باقر مجلسی لکھتے ہیں کہ وہ ابھی پیدا ہی ہوا تھا اور حضرت حسین اس نو مولود کے کان میں آذان دینے کے لیے میدان جنگ میں گھوڑے پر سوار تھے۔
تاریخ یعقوبی کے مصنف لکھتے ہیں کہ حسین نے ان کو گود میں لیا ہوا تھا ۔
اس قسم کی من گھڑت روایتوں کا مقصد محض مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے اور ان کو بھڑکانے کے سوا اور کیا ھو سکتا ھے۔
الامامہ والسیاسۃ کے مصنف نے درست ہی لکھا ھے کہ برادران مسلم کے ناا عاقبت اندیشانہ طور پر سرکاری فوج پر حملہ کر دینے سے یکا یک تلوار چل پڑی اور یہ حادثہ پیش آگیا۔
اس مصنف نے حسین کے ان صاحب زادے کا نام محمد بن حسین بن علی بتایا ہے۔اور انہوں نے باقی بچنے والے نوجوانوں کی تعداد 12 بیان کی ہے اگر اس میں نا بالغ بچوں کا بھی شمار کر لیا جاے تو ہماری فہرست کی مزید تائید ہو جاتی ہے۔اور اس حقیقت کی وضاحت ہو جاتی ھے کہ نہ باقاعدہ جنگ ہوئی نہ وحشیانہ مظالم اور یہ حادثہ یکا یک پیش آ گیا اور باقی بچنے والوں کو بحفاظت اور احترام کے ساتھ خلیفہ وقت کے پاس بھیج دیا جو ان کے قریبی رشتہ دار تھے۔
حضرت حسین کے اپنی اولاد کے علاوہ ان کے جو بھائی بہنوئی اور بھتیجے ساتھ گئے اور ان میں سے جو صحیح سلامت واپس لوٹے ان کی کیفیت مخلتف کتب تاریخ و نساب کے اعتبار سے یہ ھے ۔
حضرت حسین کے چودہ بھائیوں میں سے جو ان کے خروج کے وقت زندہ تھے صرف چار ان کے ساتھ گئے تھے یعنی
1- عباس و جعفر و عثمان و عبداللہ ام النبین بنت حزام الکلابی کے بطن سے تھے اور انکے ماموں کا قبیلہ کوفہ و عراق میں سکونت رکھتا تھا جس میں شمر زی الجوشن وغیرہ تھے
2- حضرت حسین کے بزرگ ابو یزید عقیل کے سولہ بیٹوں میں مسلم بن عقیل ، جو حضرت حسین کے بہنوئی بھی تھے کوفیوں سے بیعت لینے کے سلسلے میں پہلےہی کوفہ بھیجے جا چکے تھے اور حکومت کے خلاف کاروائی کے جرم میں پہلے ہی سزاے قتل پا چکے تھے
٭- ان کی زوجہ رقیہ بنت علی سے تین بیٹے تھے عبداللہ و علی و محمد ، یہ تینوں اپنی والدہ کے ساتھ حسینی قافلہ میں گئے تھے ۔
٭ - مسلم کے بھائیوں میں سے دو بھائی حسینی قافلہ میں مع اپنی بیبیوں اور اولاد کے ساتھ شامل تھے یعنی عبداللہ الاکبر بن عقیل جن کو حضرت علی کی تین بیٹیاں یک بعد دیگرے بیاہی گئی تھیں۔یعنی میمونہ ، ام ھانی ، و ام کلثوم الصغری
٭- ان میں سے ایک زوجہ اور چار بیٹے محمد، عبد الرحمن، مسلم ،اور عقیل حسینی قافلہ میں شامل تھے ،
٭ - دوسرے عبد الرحمن بن عقیل تھے جن کی زوجہ خدیجہ بنت علی سے ان کے دو بیٹے سعید اور عقیل ساتھ گیے تھے ۔
3۔ حضرت حسین کے چچیرے بھائی اور بہنوئی عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کے بیس یا چوبیس بیٹے بیان کیے جاتے ہیں۔
٭- ان کی زوجہ زینب بنت علی تو جیسا پہلے زکرہو چکا ہے اپنے بھائی کے ساتھ قافلہ میں تھیں مگر ان کے بیٹے علی الزینبی بن عبداللہ بن جعفر اور بیٹی ام کلثوم ان کے ساتھ نہ گئے تھے ۔
٭- عبداللہ بن جعفر کے جو دو بیٹے عون اور محمد جو حسینی قافلہ کے ساتھ تھے وہ حسین کی روانگی کے بعد اپنے والد کا پیغام لے کر گئے تھے کہ واپس لوٹ آئیں اور آگے نہ بڑھیں( الامامہ و السیاسۃ جلد 2 صفحہ 2)۔ یہ دونوں حضرت حسین کے اصرار پر ساتھ چلے گئے اور واپس نہ لوٹے۔ مگر یہ دونوں سیدہ زینب کے بطن سے نہ تھے دوسری ماؤں سے تھے
4- اسی طرح عون بن جعفر بن ابی طالب کی اولاد سے کوئی نہ گیا تھا۔
5- حضرت حسن کی اولاد کا شمار مختلف تاریخ دانوں نے مختلف کیا ہے ، ناسخ التواریخ نے 20 شمار کیے ہیں جو آپ کی شادیوں کے لحاظ سے درست خیال کیا جا سکتا ہے (جلد 8 صفحہ 282)- ان میں سے 6 اپنے چچا کے ساتھ گئے اور 14 نہ گئے ۔
٭- جانے والوں میں ایک تو حسن بن الحسن (حسن مثنی) جو حضرت حسین کے داماد ان کی بیٹی فاطمہ کے شوہر تھے۔
٭- دوسرے طلحہ بن حسن تھے جن کی والدہ ام اسحاق بنت طلحہ بن عبید اللہ ( بیوہ حضرت حسن )جن سے حضرت حسین نے خود نکاح کر لیا تھا اوران کے بطن سے فاطمہ بنت الحسین تھیں۔
٭- تیسرے بیٹے حضرت حسن کے جو اپنے چچا کے قافلہ میں تھےانکا نام عمرو تھا جو مسلم بن عقیل کے بہنوئی تھے یعنی رملہ بنت عقیل کے شوہر تھے
٭- ان کے علاوہ زید ،قاسم، ابو بکر، حضرت حسن بن علی کے بیٹے حسینی قافلہ میں موجود تھے۔ جن کا ذکر اکثر مورخین نے کیا ہے۔ عمدہ الطالب کے مصنف کہتے ھیں کہ زید اپنے چچا کے ساتھ نہیں گیے تھے (صفحہ 49۔ ) مگر یہ غلط ہے وہ اپنے چچا کے ساتھ گئے تھے اور واپس آئے تھے۔
اس تشریح کا مقصد ہے کہ ابو طالب کی اولاد کے 75 شخص اس قابل تھے جو آپ کے ساتھ جا سکتے تھے مگر ایک چوتھائی سے بھی کم تعداد آپ کے ساتھ شریک ہوئی۔
جو آپ کے ساتھ آپ کے خروج میں شریک تھےان میں بھی اکثریت ایسے افراد کی تھی جو بھتیجے اور چچا زاد بھائی ہونے کے ساتھ داماد یا بہنوئی ہونے کا رشتہ بھی رکھتے تھے۔
حضرت حسین کے 6 بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ناسخ التواریخ نے 6 بیٹے اور 4 بیٹیاں بتائی ہیں (صفحہ 532 )
ابن خشاب نے 6 بیٹے اور تین بیٹیاں لکھی ہیں۔
حضرت حسین نے جن خواتین سے ازدواجی رشتہ قائم کیا ، ان کی درست تعداد تو معلوم نہیں لیکن کنیزوں اور جواری کے علاوہ سات بیویوں کے نام کتب تاریخ میں ملتے ہیں۔
1- آمنہ بنت ابی مرہ بن عروہ ثقی (حضرت ابو سفیان کی نواسی اور امیر یزید کی پھوپھی زاد بہن۔) ان کے بطن سے علی اکبر تھے جو کربلا میں مقتول ہوے۔ (طبری- کتاب نسب قریش -المعارف وغیرہ،)
2- سلافہ سندھیہ خاتون ۔ آپ ام ولد تھیں۔ان کے بطن سے علی بن حسین (زین العابدین) تھے ۔ ان کی والدہ کا نام شہر بانو بنت یزد جرد بتایا جاتا ہےجو غلط ھے۔ ( طبری- المعارف- ) اور گیری واکر کی مشہور تحریر ایرانیوں کی حضرت علی و حسین سے محبت و عقیدت کی وجہ کا مطالعہ کریں۔
3- ام اسحق بنت طلحہ بن عبید اللہ ، ان کے بطن سے فاطمہ دختر حسین تھیں ---( کتاب نسب قرہش ، جمہرہ الانساب ابن حزم ، وغیرہ۔
4- رباب بنت امرو القیس کلبید اور ان کے بطن سے سکینہ بنت حسین پیدا ھوئیں۔عبداللہ طفیل صغیر مقتول کو بھی ین کے بطن سے بتایا جاتا ھے۔( کتاب المعارف و کتاب نسب قریش)
5- حفصہ بنت عبد الرحمن بن ابو بکر الصدیق ( کتاب المجر ) محمد بن الحسین ان کے بطن سے تھے مگر روایات مختلف بھی ہیں۔
6- ایک بیٹی ابو مسعود انصاری کی آپ کے نکاح میں تھیں ۔ ان کی اولاد اور نام معلوم نہیں۔
7- قبیلہ بلی (قضاعہ) کی ایک خاتون بھی آپ کے نکاح میں تھیں جن کے بطن سے عمر بن الحسین تھے ۔(کتاب نسب قریش صفحہ 59)۔ ناسخ التواریخ نے عمر بن الحسین کا زکر ان الفاظ میں کیا ھے۔- کہ میں نے پسر حسین کا شمار پانچ عدد کیا ہے اور ایک کا نام ان میں عمر خیال کیا ھے کہتے ھیں کہ پانچ چار سال کی عمر تھی۔الامامہ و السیاسۃ کے مصنف نے(صفحہ 533۔) اور ناسخ التواریخ نے بحوالہ کشف انعمہ محمد کو حسین کا بیٹا شمار کیا ہے - (صفحہ 532۔)
حسین کے بیٹے کس کس عمر کے تھے؟
اور کیا آپ کے بیٹے علی اکبر کربلا میں قتل ہوئے تھے ؟
زین العابدین بھی آپ کے بیٹے تھے تو علی اصغر کون تھے؟
اس بارے میں مختلف اقوال ہیں تاہم سب مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ علی بن حسین (زین العابدین) کی عمر حادثہ کربلا کے وقت 23 یا 24 سال کی تھی اور وہ صاحب اولاد تھے ان کی زوجہ ام عبداللہ بنت حسن بن علی سے دو بیٹے حسین الاکبر اور محمد الباقر کربلا میں ان کے ساتھ تھے حسین الاکبر بڑے تھے اور ان کے نام پر ان کی کنیت تھی۔(کتاب نسب قریش صفحہ 59۔)
اور کتابوں میں یہ مکذوبہ روایت بیان کی گئی ہے کہ انکو نابالغ بچہ سمجھ کر چھوڑ دیا گیا۔اور قتل نہ کیا گیا۔اسی طرح حضرت حسین کے داماد حسن مثنی اور ان کے بھائی عمرو بن الحسن جو مسلم بن عقیل کے بہنوئی تھےاور اکیس اور بیس سال کی عمروں کے تھے کم سن بتایا گیا ہے محض اس وجہ سے کہ یہ حضرات اپنے دیگر عزیزوں کے ساتھ صحیح سلامت کربلا سے واپس لوٹے تھے تا کہ ان جھوٹی روایتوں پر پردہ ڈالا جا سکے کہ حکومت نسل حسین کا خاتمہ کرنا چاہتی تھی۔
اس لیےتو کبھی یہ کہا گیا کہ مریض تھے لڑائی میں شریک نہیں ہوے یا ابن زیاد قتل کرنا چاہتا تھا تو ان کی پھوپھی لپٹ گیئں کہ مجھے بھی ان کے ساتھ قتل کر دے تو اس ظالم کو رحم آ گیا اور قتل نہ کیا۔
اور کبھی کہا کہ کم سن سمجھ کر چھوڑ دیا۔
اب ان علامہ ابن جریر طبری، کوئی پوچھے کہ ان صاحب اولاد شادی شدہ جوان عمر کے لوگوں کو تو چھوٹی عمر کا سمجھ کر چھوڑ دیا اور قتل نہ کیا ، تو پھر ایک معصوم شیر خوار بچے عبداللہ بن حسین کو کیا بڑی عمر کا سمجھ لیا تھا؟
اس ننھے جسم میں کیوں تیر پیوست کیا گیا اور تیر بھی ایسا آنکھوں والا تھا کہ سیدھا حلق میں جا کے لگا۔۔ جلاالعیون ملا باقر مجلسی لکھتے ہیں کہ وہ ابھی پیدا ہی ہوا تھا اور حضرت حسین اس نو مولود کے کان میں آذان دینے کے لیے میدان جنگ میں گھوڑے پر سوار تھے۔
تاریخ یعقوبی کے مصنف لکھتے ہیں کہ حسین نے ان کو گود میں لیا ہوا تھا ۔
اس قسم کی من گھڑت روایتوں کا مقصد محض مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے اور ان کو بھڑکانے کے سوا اور کیا ھو سکتا ھے۔
الامامہ والسیاسۃ کے مصنف نے درست ہی لکھا ھے کہ برادران مسلم کے ناا عاقبت اندیشانہ طور پر سرکاری فوج پر حملہ کر دینے سے یکا یک تلوار چل پڑی اور یہ حادثہ پیش آگیا۔
اس مصنف نے حسین کے ان صاحب زادے کا نام محمد بن حسین بن علی بتایا ہے۔اور انہوں نے باقی بچنے والے نوجوانوں کی تعداد 12 بیان کی ہے اگر اس میں نا بالغ بچوں کا بھی شمار کر لیا جاے تو ہماری فہرست کی مزید تائید ہو جاتی ہے۔اور اس حقیقت کی وضاحت ہو جاتی ھے کہ نہ باقاعدہ جنگ ہوئی نہ وحشیانہ مظالم اور یہ حادثہ یکا یک پیش آ گیا اور باقی بچنے والوں کو بحفاظت اور احترام کے ساتھ خلیفہ وقت کے پاس بھیج دیا جو ان کے قریبی رشتہ دار تھے۔
کربلا کے مقتولوں کے سر کاٹ کر ،ان کی مشہوری کرنے کا بیان
ابھی جاری ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں