مقتولین کے سروں کی تشہیر
بقول مصنف مجاہد اعظم جب کوفہ میں ہی نہیں کی گئی۔ تو کربلا سے ان کا کوفہ لایا جانا کیوں اور کس غرض سے تھا ؟
کیا اس کا مقصد جو ان راویوں نے بیان کیا ہے کہ کوفہ سے قادسیہ پہنچایا گیا وہاں سے ایک مقام شرقی الحساصه ، اور وہاں سے دریاۓ فرات پار کر کے تقریت پھر مختلف مقامات پر ہوتے ہوئے موصل وہاں سے پھر کئی سو میل کا چکر کاٹ کے نسیبن و قنسرین ، پھر حلب اور حما اس کے بعد حمص اور بعلبک سے ہو کر دمشق نقشے پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہو گا کہ ان راویوں نے اپنے سیاسی مقصد کے پیش نظر ان سروں کی تشہیر کے عراق و الجزائر اور نواح دیار بکر اور ملک شام کے جو مقامات گنوائے ہیں ان کی مسافت نقشہ کے سکیل پر ناپ کر 910 انگریزی میل بنتی ہے ۔جو کسی طرح بھی قابل اعتبار نہیں اور پھر اس کے ساتھ جو روایتیں گھڑیں ہیں خاص طور پر وہ حکایتیں اور افسانے جو بڑے اہتمام کے ساتھ بیان ہوے ہیں کہ خدا کی پناہ ،صرف دو مثالیں سنتے جائیے .
جب پہلی ہی منزل پر پڑاؤ ڈالا تو پچاس سواروں نے جو سر حسین کے صندوق کی حفاظت پر مامور تھے ، مجلس آراستہ کی اور شراب پی پی کرمد ہوش ہو گیے ان میں سے صرف ایک محافظ جن نے شراب نہ پی تھی جاگ رہا تھا ، کہ یکا یک آسمان سے سخت کڑک اور چمک پیدا ہوئی آسمان کے دروازے کھل گئے ۔
حضرت آدم ، نوح ، ابراہیم ، اسماعیل ، اسحاق ،اور خاتم انبیا آسمان سے نیچے اترے حضرت جبرائیل جن کے ساتھ فرشتوں کی ایک جماعت تھی ان کے ساتھ تھے آتے ہی جبرائیل نے سر حسین والا صندوق کھولا سر کو چوما اور سینے سے لگایا پھر سب نبیوں نے ایسا کیا اور سب رونے لگے اور رسول اللہ سے تعزیت کرنے لگے۔
تو جبرائیل نے کہا کہ اگر آپ حکم دیں تو میں زمین کو آپ کی امت پر الٹ دوں جس طرح قوم لوط پر الٹی تھی تو آپ نے فرمایا کے میں تو بارگاہ خدا وندی میں ان سے حساب لوں گا ؛
پھر چند فرشتوں نے کہا کہ الله پاک نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ان پچاس آدمیوں کو ہلاک کر دیں ۔ چنانچے فرشتوں نے 49 آدمیوں کو اس طرح ہلاک کر دیا کہ ان کے جسم بھی خاک میں مل گئے اور ایک بچ گیا یا بچا لیا گیا ۔(جس کی زبانی یہ افسانہ سنانا تھا. ناسخ التواریخ صفحہ 342 ).
راستے میں چند نصرانی راہب سر حسین کے معجزے دیکھ کر مسلمان ہوگئے اور ایک جگہ تو بقول ابو محنف آپ کی زبان سے اشعار بھی کہلووا دیئے جن میں ابن زیاد پر لعنت بھیجی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جس امت نے حسین کو قتل کیا کیا وہ یوم حساب کو ان کے نانا کی شفاعت کی امید کر سکتی ہے؟
اس طرز اور لہجے میں دمشق کے سفر کے ان من گھڑت قصوں کا انبار لگانا کہ جن پر سرسری نظر ڈالتے ہی صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ ان کا مقصد واقعہ کربلا کے تاریخی حالات کا پس منظر بیان کرنا نہیں بلکہ ان کا مطلب کوئی اور ہی ہے ان میں سے دو ایک آپ بھی سنتے جائیے.کہ،
موصل کے باشندوں نے جب یہ خبر سنی کہ حسین کا سر ان کے شہر لایا جا رہا ہے تو وہاں کے انصاریوں کی دونوں شاخوں ( اوس و خزرج ) کے چالیس ہزار سوار نکل پڑے.اور اس بات پر حلف لیا کہ ان لوگوں کو قتل کر کے حسین کا سر چھین لیں اور یہاں لا کر دفن کر دیں تا کہ قیامت کے دن کچھ تو سر خرو ہو سکیں.(صفحہ 114 مقتل ابی محنف )۔
مگر ابن زیاد کے فوجی ان انصاری سواروں سے بھی زیادہ چالاک نکلے اور بیرون شہر سے صاف بچ کر نکل گیے اور یہ چالیس ہزار دیکھتے ہی رہ گئے .پھر تو سیبور کے لوگ ہی ان سے بہادر نکلے کہ ابن زیاد کے پانچ دس نہیں اکٹھے 600 آدمیوں کو یک دم مار ڈالا اور ان کے صرف پانچ قتل ہوئے ۔(صفحہ 114 ایضاً)
ایک اور قصہ سنیے ، آگے چل کر جب ایک عیسائی راہب کی عبادت گاہ کے قریب پڑاؤ ڈالا تو ابھی آدھی رات ہی گزری تھی کہ گرج چمک کے ساتھ تسبیح اور ذکر کی آوازیں سنیں۔ اس نے باہر جھانک کر دیکھا تو اس صندوق میں کہ جس میں حسین کا سر تھا نور کی شعائیں نکل کر آسمان تک جا رہی تھیں آسمان کے دروازے کھلے تھے فرشتے موج در موج اترتے اور حسین کے سر کو مخاطب کر کے کہتے ،
اے رسول کے بیٹے سلام اے ابا عبدللہ صلوات و سلام علیک.
صبح راہب نے فوجیوں سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ حسین کا سر ہے ان کی والدہ فاطمہ اور نانا محمّد تھے تو راہب نے کہا کہ ہمارے مسیحی عالم اس صندوق کے بارے میں سچ کہتے تھے کہ جب یہ صاحب قتل ہو گا آسمان خون برسائے گا اور یہ بات ممکن نہیں ہو سکتی ۔سواے نبی یا نبی کے وصی کے قتل کے بغیر .(صفحہ 120 ایضا .)
راوی کہتا ہے کہ
راہب نے دس ہزار درہم کے دو توڑے دے کر ایک گھنٹہ کے لئے حسین کا سر فوجیوں سے مانگ لیا رویا سر کے بوسے دے اور کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گیا اور حسین کے سر سے عرض کرنے لگا کہ اپنے نانا کی شفاعت مجھے دلوا دیجیے .حسین کے سر نے اس سے بات کی اور شفاعت کا خودذمہ لیا . (ناسخ التواریخ جلد 2 صفحہ 348 از کتاب ششم )
ان دیو مالائی حکایات کے سلسلے میں ایک اور لطیفہ سن لیں کہ،
اس محافظ دستہ کے محافظ نے جب اگلی منزل پر پہنچ کر رقم تقسیم کرنے کی غرض سے تھیلیاں کھولیں تو درہموں کی بجاۓ مٹی کی کنکریاں برآمد ہوئیں جن کی دونوں طرف قران کی آیات لکھی ہوئی تھیں جن کا ترجمہ ہے کہ،
ظالموں سے پورا پورا حساب لیا جائے گا اور ان کو ویسا ہی بدلہ قیامت کے روز ملے گا .
محافظ دستے کا سردار جس کا نام خولی بتایا گیا ہے اس نے انا الله کہا اور اپنے لوگوں سے تاکید کی کہ اس راز کو چھپائے رہو.(ناسخ التواریخ جلد 2 صفحہ 248 )
کربلا کے مقتولوں کے سر کاٹ کر ،ان کی مشہوری کرنے کا بیان
ابھی جاری ہے۔
قسط نمبر 53 ٭٭٭٭ ابتداء ِ شیطان نامہ ٭٭٭٭ -قسط نمبر 55
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں