میری طبیعت کئی دنوں سے خراب تھی ، کبھی ہومیو پیتھک کی دوائیاں اور کبھی حکیم کی دوائیوں کے باوجود طبیت ٹھیک نہ ہوئی تو ، بڑھیا نے چلانا شروع کر دیا ،
" خودڈاکٹر بننے کے بجائے کسی دوسرے ڈاکٹر کو کیوں نہیں دکھاتے ؟"
میں نے سنا ، بس یہی کہا " اچھا "
بیٹی نے کہا ،
" پپا ، بحریہ میں ایک ہسپتال ہے وہاں ، بہترین ہسپتال ہے وہاں کیوں نہیں جاتے ؟"
میں نے سنا ، بس یہی کہا " اچھا "
بیٹے نے فون کیا ،
" پپا ، چکلالہ سکیم تھری میں ایک ڈاکٹر ہے ، میرے دوست کے والد نے وہاں سے علاج کروایا
وہ ٹھیک ہوگئے ، آپ ضرور جائیں " میں نے سنا ، بس یہی کہا " اچھا "
چھوٹا بھائی شام کو اپنی نواسی کے ساتھ ملنے کے لئے آیا ، بھابھی کی درد بھری داستان سُن کر بولا،
" بھائی ، ڈی ایچ اے ٹو کی طرف جاتے ہوئے ، راحت بیکری کے پاس ایک ڈاکٹر ہے ، اُس کے ہاتھ میں شفاء ہے وہاں جائیے ، وہ بہترین ہے ، آپ ضرور جائیں "
میں نے سنا ، بس یہی کہا " اچھا "
اگلے دن لڑکپن کادوست ، اپنی بیگم کے ساتھ آگیا ، باتوں باتوں میں ،
بڑھیا نے درد بھری آواز میں اُس سے کہا ،
" بھائی دیکھیں ، میں نے اِن کو کہا کہ کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھائیں یہ مانتے ہی نہیں !
" چل اٹھ ! " اُس نے حکمیہ لہجے میں کہا " بھابی ہم ڈاکٹر کے پاس جارہے ہیں اور بیگم تم والک کرکے گھر چلی جانا"
بادلِ ناخواستہ ، اُس کے ساتھ روانہ ہو گیا ، ڈاکٹر کے پاس پہنچے ، اُس نے وہ تمام ٹیسٹ لکھ دئیے ، جو ضروری نہیں تھے ، اور خاص طور پر بتایا کہ اِس لیباٹری سے ہی ٹیسٹ کروانا ۔
میں نے سنا ، بس یہی کہا " اچھا "
جو جو دوائیوں وہ سمجھتا تھا کہ اُسے اچھا خاصہ کمیشن دلوا دیں گی وہ لکھ دیں ۔
اِس میڈیکل شاپ پر یہ سب دستیاب ہیں ! یہ بہت ایماندار ہیں ، خالص دوائیاں دیتے ہیں ۔
"دوائیاں نا خالص بھی ہوتی ہیں ، ڈاکٹر صاحب "، میں نے نہ بولنے کا تہیہ کیا ہوا تھا ، لیکن زُبان پِھسل گئی!
ڈاکٹر نے کوئی جواب نہیں دیا ، بس ایک طنزیہ مسکراہٹ مجھ پر ڈالی اور بولا،
" یہ کچھ دوائیاں ہیں ہماری ڈسپنسری سے لے لیں ، اور ہاں دوائیاں ریگولر استعمال کرنا "
" دوائیوں کے کوئی سائیڈ ایفیکٹ " میں نے پوچھا ۔
" تھوڑے بہت تو ہوں گے " ڈاکٹر بولا" اگلی وزٹ میں، میں اُنہیں بھی دیکھ لوں گا "
میں نے سنا ، بس یہی کہا " اچھا "
باہر نکل کر میں نے ڈاکٹر کی فیس ادا کی جو میری ایک دن کی پنشن کے برابر تھی ۔
ڈسپنسری سے کچھ محلول پیروں کے تلووں پر لگانے کے لئے ، 4 بوتلوں میں لئے !
وہاں بھی پیسے دئیے ، جو میری 1/4 دن کی پنشن کے برابر تھی !
" سر کچھ دوائیاں، اگلی ونڈو سے لے لیں ، باقی جو ڈاکٹر صاحب نے میڈیکل سٹور کا لکھا ہے وہاں سے مل جائیں گی " ڈسپنسر بولا
میں نے سنا ، بس یہی کہا " اچھا
اور میں دروازے کی طرف بڑھا ، گاڑی میں بیٹھے ، دوست کو میڈیکل سٹور کا معلوم تھا ، اُس نے گاڑی میڈیکل سٹور کے سامنے گاڑی روکی ۔
" گھر چلو ، دوائیاں بعد میں لوں گا " میں نے کہا ۔
" اب آئیے ہیں تو لے لو دوائیاں ، دوبارہ کیا آنا !"دوست بولا ،
ایک مشہور دوائیوں کی فرم کا نام بتا کر بولا،" میں وہاں سے ہی لوں گا "
اپنی کالونی میں داخل ہوتے وقت مجھے یاد آیا ،پوچھا :
" ارے یہ بتاؤ ، تمھارے اُس محلے دار کا کیا ہوا ؟ جو بیمار تھا ۔ "
" یار ، دوائیوں کے سائیڈ ایفکیٹ کی وجہ سے اُسے فلاں مرض ہو گیا ، اللہ کی مرضی ، مہینے بعد انتقال ہو گیا " دوست بولا ۔
میں نے سنا ، بس یہی کہا " اوہ "
گھر کے پاس گاڑی رُکی ، میں گاڑی سے اترا ، شکریہ ادا کیا ، دوائیوں کی شیشیوں کے ڈھکنے کھولے اور اندر موجود محلول کو ، کو گھر کے سامنے سے گذرنے والی نالی میں انڈیل دیا ۔
" ارّے یہ کیا کیا ؟ " دوست حیرت سے بولا ۔
" بھائی ! میں نے ابھی زندہ رہنا ہے ، چم چم کی بیٹی کی شادی میں بھنگڑا ڈالنے کے لئے "
کہہ کر دوست کوہکّا بکّا چھو ڑ کے دوروازے کی طرف بڑھ گیا ۔
گھر میں داخل ہوا ،
" ڈاکٹر نے کیا کہا " ، بڑھیا نے پوچھا !
بیگم کے ہاتھ میں کاغذات دیئے ۔ اُس نے پڑھے !
" اِن ٹیسٹوں کی کیا ضرورت تھی؟ "ّ وہ خود کلامی میں بولی !
" یہ ، یہ دوائیاں کیوں دی؟ اور یہ دوائی !
آپ نے بتایا نہیں کہ آپ کو اِن سے الرجی ہے ؟ "
" اُس نے پوچھا ہی نہیں !" میں بولا ،
" یہ دوائیاں نہ لینا ، یہ ہمارے پاس ہیں ، سی ایم ایچ کے ڈاکٹر نے بھی یہی دی ہیں"، بڑھیا نے ڈاکٹر کے نسخے کا پوسٹ مارٹم شروع کیا !
ہاں یہ وٹامن ٹھیک ہے ، باہر کی ہے ۔ بس یہ لے لینا !
یہ کون سے دوائیاں ہیں ؟ ڈسپنسری کی ہیں شائد، لیں ہیں ؟"
" جی !" میں نے جواب دیا ۔
" کہاں ہیں ؟" بڑھیا نے پوچھا ۔
" باہر نالی میں بہا دی ہیں " میں بولا ۔
"کیوں ؟" بڑھیا تُنک کر بولی !
" نالی میں پلنے والے کیڑوں کو زیادہ ضرورت تھی " میں نے کہا ،" اینٹی سپٹک جو ہوئیں "
" اچھا یہ کاغذ دکھاؤ "
بڑھیا نے کاغذات دئیے ، میں نے پھاڑ کر ڈسٹ بِن میں ڈال دیئے ۔
" یہ کیا کیا آپ نے ؟" بڑھیا چلائی
"میں سائیڈ ایفیکٹ سے بچنا چاہتا ہوں ! "
میں نے جواب دیا اور سائیڈ ٹیبل سے اپنا پاؤچ اُٹھا کر پچھلے 10 سال سے رات کو ،کھانے والی گولیاں نکالیں ، اور پھانک کر پانی پی لیا !
" ربّ کا شکر ادا کر بھائی ، جِس نے ہماری گائے بنائی " اُونچا دھرایا ۔
دوستو ! سمجھ میں آیا کیوں ؟
ھا ھا ھا ،
ارے نوجوانو ! 10 سال سے ، فوجی دوائیاں کھا رہا ہوں!
جبھی تو زندگی کی بہاریں لوٹ رہا ہوں ، موجیں ہی موجیں ہیں !
" خودڈاکٹر بننے کے بجائے کسی دوسرے ڈاکٹر کو کیوں نہیں دکھاتے ؟"
میں نے سنا ، بس یہی کہا " اچھا "
بیٹی نے کہا ،
" پپا ، بحریہ میں ایک ہسپتال ہے وہاں ، بہترین ہسپتال ہے وہاں کیوں نہیں جاتے ؟"
میں نے سنا ، بس یہی کہا " اچھا "
بیٹے نے فون کیا ،
" پپا ، چکلالہ سکیم تھری میں ایک ڈاکٹر ہے ، میرے دوست کے والد نے وہاں سے علاج کروایا
وہ ٹھیک ہوگئے ، آپ ضرور جائیں " میں نے سنا ، بس یہی کہا " اچھا "
چھوٹا بھائی شام کو اپنی نواسی کے ساتھ ملنے کے لئے آیا ، بھابھی کی درد بھری داستان سُن کر بولا،
" بھائی ، ڈی ایچ اے ٹو کی طرف جاتے ہوئے ، راحت بیکری کے پاس ایک ڈاکٹر ہے ، اُس کے ہاتھ میں شفاء ہے وہاں جائیے ، وہ بہترین ہے ، آپ ضرور جائیں "
میں نے سنا ، بس یہی کہا " اچھا "
اگلے دن لڑکپن کادوست ، اپنی بیگم کے ساتھ آگیا ، باتوں باتوں میں ،
بڑھیا نے درد بھری آواز میں اُس سے کہا ،
" بھائی دیکھیں ، میں نے اِن کو کہا کہ کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھائیں یہ مانتے ہی نہیں !
" چل اٹھ ! " اُس نے حکمیہ لہجے میں کہا " بھابی ہم ڈاکٹر کے پاس جارہے ہیں اور بیگم تم والک کرکے گھر چلی جانا"
بادلِ ناخواستہ ، اُس کے ساتھ روانہ ہو گیا ، ڈاکٹر کے پاس پہنچے ، اُس نے وہ تمام ٹیسٹ لکھ دئیے ، جو ضروری نہیں تھے ، اور خاص طور پر بتایا کہ اِس لیباٹری سے ہی ٹیسٹ کروانا ۔
میں نے سنا ، بس یہی کہا " اچھا "
جو جو دوائیوں وہ سمجھتا تھا کہ اُسے اچھا خاصہ کمیشن دلوا دیں گی وہ لکھ دیں ۔
اِس میڈیکل شاپ پر یہ سب دستیاب ہیں ! یہ بہت ایماندار ہیں ، خالص دوائیاں دیتے ہیں ۔
"دوائیاں نا خالص بھی ہوتی ہیں ، ڈاکٹر صاحب "، میں نے نہ بولنے کا تہیہ کیا ہوا تھا ، لیکن زُبان پِھسل گئی!
ڈاکٹر نے کوئی جواب نہیں دیا ، بس ایک طنزیہ مسکراہٹ مجھ پر ڈالی اور بولا،
" یہ کچھ دوائیاں ہیں ہماری ڈسپنسری سے لے لیں ، اور ہاں دوائیاں ریگولر استعمال کرنا "
" دوائیوں کے کوئی سائیڈ ایفیکٹ " میں نے پوچھا ۔
" تھوڑے بہت تو ہوں گے " ڈاکٹر بولا" اگلی وزٹ میں، میں اُنہیں بھی دیکھ لوں گا "
میں نے سنا ، بس یہی کہا " اچھا "
باہر نکل کر میں نے ڈاکٹر کی فیس ادا کی جو میری ایک دن کی پنشن کے برابر تھی ۔
ڈسپنسری سے کچھ محلول پیروں کے تلووں پر لگانے کے لئے ، 4 بوتلوں میں لئے !
وہاں بھی پیسے دئیے ، جو میری 1/4 دن کی پنشن کے برابر تھی !
" سر کچھ دوائیاں، اگلی ونڈو سے لے لیں ، باقی جو ڈاکٹر صاحب نے میڈیکل سٹور کا لکھا ہے وہاں سے مل جائیں گی " ڈسپنسر بولا
میں نے سنا ، بس یہی کہا " اچھا
اور میں دروازے کی طرف بڑھا ، گاڑی میں بیٹھے ، دوست کو میڈیکل سٹور کا معلوم تھا ، اُس نے گاڑی میڈیکل سٹور کے سامنے گاڑی روکی ۔
" گھر چلو ، دوائیاں بعد میں لوں گا " میں نے کہا ۔
" اب آئیے ہیں تو لے لو دوائیاں ، دوبارہ کیا آنا !"دوست بولا ،
ایک مشہور دوائیوں کی فرم کا نام بتا کر بولا،" میں وہاں سے ہی لوں گا "
اپنی کالونی میں داخل ہوتے وقت مجھے یاد آیا ،پوچھا :
" ارے یہ بتاؤ ، تمھارے اُس محلے دار کا کیا ہوا ؟ جو بیمار تھا ۔ "
" یار ، دوائیوں کے سائیڈ ایفکیٹ کی وجہ سے اُسے فلاں مرض ہو گیا ، اللہ کی مرضی ، مہینے بعد انتقال ہو گیا " دوست بولا ۔
میں نے سنا ، بس یہی کہا " اوہ "
" ارّے یہ کیا کیا ؟ " دوست حیرت سے بولا ۔
" بھائی ! میں نے ابھی زندہ رہنا ہے ، چم چم کی بیٹی کی شادی میں بھنگڑا ڈالنے کے لئے "
کہہ کر دوست کوہکّا بکّا چھو ڑ کے دوروازے کی طرف بڑھ گیا ۔
گھر میں داخل ہوا ،
" ڈاکٹر نے کیا کہا " ، بڑھیا نے پوچھا !
بیگم کے ہاتھ میں کاغذات دیئے ۔ اُس نے پڑھے !
" اِن ٹیسٹوں کی کیا ضرورت تھی؟ "ّ وہ خود کلامی میں بولی !
" یہ ، یہ دوائیاں کیوں دی؟ اور یہ دوائی !
آپ نے بتایا نہیں کہ آپ کو اِن سے الرجی ہے ؟ "
" اُس نے پوچھا ہی نہیں !" میں بولا ،
" یہ دوائیاں نہ لینا ، یہ ہمارے پاس ہیں ، سی ایم ایچ کے ڈاکٹر نے بھی یہی دی ہیں"، بڑھیا نے ڈاکٹر کے نسخے کا پوسٹ مارٹم شروع کیا !
ہاں یہ وٹامن ٹھیک ہے ، باہر کی ہے ۔ بس یہ لے لینا !
یہ کون سے دوائیاں ہیں ؟ ڈسپنسری کی ہیں شائد، لیں ہیں ؟"
" جی !" میں نے جواب دیا ۔
" کہاں ہیں ؟" بڑھیا نے پوچھا ۔
" باہر نالی میں بہا دی ہیں " میں بولا ۔
"کیوں ؟" بڑھیا تُنک کر بولی !
" نالی میں پلنے والے کیڑوں کو زیادہ ضرورت تھی " میں نے کہا ،" اینٹی سپٹک جو ہوئیں "
" اچھا یہ کاغذ دکھاؤ "
بڑھیا نے کاغذات دئیے ، میں نے پھاڑ کر ڈسٹ بِن میں ڈال دیئے ۔
" یہ کیا کیا آپ نے ؟" بڑھیا چلائی
"میں سائیڈ ایفیکٹ سے بچنا چاہتا ہوں ! "
میں نے جواب دیا اور سائیڈ ٹیبل سے اپنا پاؤچ اُٹھا کر پچھلے 10 سال سے رات کو ،کھانے والی گولیاں نکالیں ، اور پھانک کر پانی پی لیا !
" ربّ کا شکر ادا کر بھائی ، جِس نے ہماری گائے بنائی " اُونچا دھرایا ۔
دوستو ! سمجھ میں آیا کیوں ؟
ھا ھا ھا ،
ارے نوجوانو ! 10 سال سے ، فوجی دوائیاں کھا رہا ہوں!
جبھی تو زندگی کی بہاریں لوٹ رہا ہوں ، موجیں ہی موجیں ہیں !
اب تک کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہوا !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں