Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 25 ستمبر، 2018

25 ستمبر2018 کی ڈائری- -سائیڈ ایفیکٹ-میں نے ابھی زندہ رہنا ہے

میری طبیعت کئی دنوں سے خراب تھی ، کبھی ہومیو پیتھک کی دوائیاں اور کبھی  حکیم کی دوائیوں کے باوجود طبیت ٹھیک نہ ہوئی تو ، بڑھیا نے چلانا شروع کر دیا ،
" خودڈاکٹر بننے کے بجائے کسی دوسرے  ڈاکٹر کو کیوں نہیں دکھاتے ؟"

میں نے سنا ،  بس یہی کہا " اچھا " 
بیٹی نے کہا ،

" پپا ، بحریہ میں ایک ہسپتال ہے وہاں  ، بہترین ہسپتال ہے وہاں کیوں نہیں جاتے ؟"

میں نے سنا ،  بس یہی کہا " اچھا " 
 بیٹے نے فون کیا ،
" پپا ، چکلالہ سکیم  تھری میں ایک ڈاکٹر ہے ، میرے دوست کے والد نے وہاں سے علاج کروایا 
 وہ ٹھیک ہوگئے ، آپ ضرور جائیں " میں نے سنا ،  بس یہی کہا " اچھا "  
  چھوٹا  بھائی شام کو اپنی نواسی کے ساتھ ملنے کے لئے آیا   ، بھابھی کی درد بھری داستان سُن کر بولا،
" بھائی  ، ڈی ایچ  اے ٹو کی طرف جاتے ہوئے ، راحت بیکری کے پاس ایک ڈاکٹر ہے ، اُس کے ہاتھ میں شفاء ہے وہاں جائیے  ، وہ بہترین ہے  ، آپ ضرور جائیں "
 
میں نے سنا ،  بس یہی کہا " اچھا " 
 اگلے دن لڑکپن کادوست ، اپنی بیگم کے ساتھ آگیا ، باتوں باتوں میں  ،
بڑھیا  نے درد بھری آواز میں اُس سے کہا ،
 " بھائی دیکھیں ، میں نے اِن کو کہا کہ کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھائیں یہ مانتے ہی نہیں !
 " چل اٹھ ! " اُس نے حکمیہ لہجے میں کہا " بھابی ہم ڈاکٹر کے پاس جارہے ہیں  اور بیگم تم والک کرکے گھر چلی جانا"
بادلِ ناخواستہ  ، اُس کے ساتھ روانہ ہو گیا ، ڈاکٹر کے پاس پہنچے ، اُس نے وہ تمام ٹیسٹ  لکھ دئیے ، جو ضروری نہیں تھے ، اور خاص طور پر بتایا کہ اِس لیباٹری سے ہی ٹیسٹ کروانا ۔ 

میں نے سنا ،  بس یہی کہا " اچھا "  
 جو جو دوائیوں  وہ سمجھتا تھا کہ اُسے اچھا خاصہ کمیشن دلوا دیں گی وہ لکھ دیں ۔
اِس  میڈیکل شاپ پر یہ سب دستیاب ہیں ! یہ بہت ایماندار ہیں ، خالص دوائیاں دیتے ہیں ۔
"دوائیاں نا خالص بھی ہوتی ہیں ، ڈاکٹر صاحب "، میں نے نہ بولنے کا تہیہ کیا ہوا تھا ، لیکن زُبان پِھسل گئی!

 ڈاکٹر نے کوئی جواب نہیں دیا ، بس ایک طنزیہ مسکراہٹ مجھ پر ڈالی  اور بولا،
" یہ کچھ دوائیاں ہیں ہماری ڈسپنسری سے لے لیں ، اور ہاں دوائیاں ریگولر استعمال کرنا "
" دوائیوں کے کوئی سائیڈ ایفیکٹ " میں نے پوچھا ۔
" تھوڑے بہت تو ہوں گے " ڈاکٹر بولا" اگلی وزٹ میں،   میں اُنہیں  بھی دیکھ لوں گا "

میں نے سنا ،  بس یہی کہا " اچھا "  
 باہر نکل کر میں نے ڈاکٹر کی فیس ادا کی  جو میری ایک دن کی پنشن کے  برابر تھی ۔
ڈسپنسری سے  کچھ محلول پیروں کے تلووں پر لگانے  کے لئے ،  4 بوتلوں میں لئے !
وہاں بھی پیسے دئیے ، جو میری  1/4 دن کی پنشن کے برابر تھی !
" سر  کچھ دوائیاں، اگلی ونڈو سے لے لیں ، باقی جو ڈاکٹر صاحب نے میڈیکل سٹور کا لکھا ہے وہاں سے    مل جائیں گی "  ڈسپنسر بولا

 میں نے سنا ،  بس یہی کہا " اچھا 
 اور میں دروازے کی طرف بڑھا ،  گاڑی میں بیٹھے ،  دوست کو میڈیکل سٹور کا معلوم تھا ، اُس نے  گاڑی میڈیکل سٹور کے سامنے گاڑی روکی ۔
"  گھر چلو ، دوائیاں  بعد میں لوں گا " میں نے کہا ۔
" اب آئیے ہیں تو لے لو   دوائیاں ، دوبارہ کیا آنا !"دوست  بولا ،
ایک مشہور  دوائیوں کی فرم کا نام بتا کر بولا،" میں  وہاں سے ہی لوں گا "
 اپنی کالونی میں داخل ہوتے وقت مجھے یاد آیا ،پوچھا :
" ارے یہ بتاؤ ، تمھارے اُس محلے دار کا کیا ہوا ؟ جو بیمار تھا ۔ "
" یار ، دوائیوں کے سائیڈ ایفکیٹ  کی وجہ سے اُسے فلاں مرض ہو گیا ، اللہ کی مرضی ، مہینے بعد انتقال ہو گیا " دوست بولا ۔

 میں نے سنا ،  بس یہی کہا " اوہ "

گھر کے پاس گاڑی رُکی ، میں گاڑی سے اترا   ، شکریہ ادا کیا ، دوائیوں کی شیشیوں کے ڈھکنے کھولے اور اندر موجود محلول کو ،  کو  گھر کے سامنے سے گذرنے والی  نالی میں انڈیل دیا ۔
" ارّے یہ کیا کیا ؟ " دوست حیرت سے بولا ۔ 
" بھائی ! میں نے ابھی زندہ رہنا ہے ، چم چم کی بیٹی کی شادی میں  بھنگڑا ڈالنے کے لئے "  
کہہ کر دوست کوہکّا بکّا چھو ڑ کے دوروازے  کی طرف بڑھ گیا ۔
گھر میں داخل ہوا ،
" ڈاکٹر نے کیا کہا " ،  بڑھیا نے پوچھا !
بیگم کے ہاتھ میں  کاغذات دیئے ۔ اُس نے پڑھے !
" اِن ٹیسٹوں کی کیا ضرورت تھی؟ "ّ وہ خود کلامی میں بولی !
" یہ ، یہ دوائیاں  کیوں دی؟  اور یہ دوائی ! 

آپ نے بتایا نہیں کہ آپ کو اِن سے الرجی ہے ؟ "
" اُس نے پوچھا ہی نہیں !"  میں بولا ،
" یہ دوائیاں نہ لینا  ، یہ ہمارے پاس ہیں ، سی ایم ایچ کے ڈاکٹر نے بھی یہی دی ہیں"، بڑھیا نے ڈاکٹر کے نسخے کا پوسٹ مارٹم  شروع کیا !

 ہاں یہ وٹامن ٹھیک ہے ، باہر کی ہے ۔ بس یہ  لے لینا ! 
یہ کون سے دوائیاں ہیں ؟ ڈسپنسری کی ہیں شائد، لیں  ہیں ؟"
" جی !" میں نے جواب دیا ۔
" کہاں ہیں ؟" بڑھیا نے پوچھا ۔

" باہر نالی میں بہا دی ہیں " میں بولا ۔
"کیوں ؟" بڑھیا تُنک کر بولی !
" نالی میں پلنے والے کیڑوں کو زیادہ ضرورت تھی " میں نے کہا  ،" اینٹی سپٹک جو ہوئیں "

" اچھا یہ کاغذ دکھاؤ "
بڑھیا نے کاغذات دئیے ، میں نے پھاڑ کر ڈسٹ بِن میں ڈال دیئے ۔
" یہ کیا کیا آپ نے ؟" بڑھیا چلائی
"میں سائیڈ ایفیکٹ سے بچنا چاہتا ہوں   ! "  

میں نے جواب دیا اور سائیڈ ٹیبل سے  اپنا پاؤچ اُٹھا کر پچھلے 10 سال سے  رات کو ،کھانے والی    گولیاں نکالیں ، اور پھانک کر پانی پی لیا !
" ربّ  کا شکر ادا کر بھائی ، جِس نے ہماری گائے بنائی " اُونچا دھرایا ۔
دوستو ! سمجھ میں آیا کیوں ؟
ھا ھا ھا ،
ارے نوجوانو ! 10 سال سے  ، فوجی دوائیاں کھا رہا ہوں!

جبھی تو زندگی کی بہاریں لوٹ رہا ہوں ، موجیں ہی موجیں ہیں !

اب تک کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہوا !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔