نمبر ایک ( کربلا) حضرت حسین کے صاحب زادے علی بن الحسین زین العابدین کو ان کے والد اور دوسرے مقتولین کے سر سپرد کئے گیے اور انہوں نے چالیس دن بعد کربلا آ کر دفن کئے .(صفحہ 278 جلد 2 ناسخ التواریخ . )
نمبر دو .(مدینہ منورہ ) عامل مدینہ کے پاس حضرت حسین کا سر اور دوسرے سر بھیج دیے گیے .اور وہاں بھی دو جگہ دفن کرنے کی روایت بیان کی گئی ہے .
(١) حضرت فاطمہ کے پہلو میں جنت البقیح میں .
(٢).حضرت حسن کے پہلو میں جو قبہ حضرت عباس میں مدفون ہیں .(ناسخ التواریخ ایضا )
نمبر تین .(دمشق ) تین دن تک سر حسین دمشق کی دروازے پر لٹکا کر باب الفرادیش دمشق میں دفن ہوا (.ناسخ التواریخ ).
نمبر چار .(مسقلان ) دمشق کو جب یہ سر بھیجے جا رہے تھے تو وہاں کے عامل نے سر حسین لے کر وہیں دفن کر دیا .ایضا!
نمبر پانچ .(نجف ) ملک شام کو جب یہ سر بھیجے جا رہے تھے ایک غلام نے حضرت کا سر چرا لیا اور حضرت علی کے پہلو میں دفن کر دیا .(صفحہ 377 ایضاً . )
نمبر چھ .(مقابر مسلمین میں ) سلیمان بن عبد الملک نے ( متوفی 99 ہجری ) یہ سر مقابر مسلمین میں دفن کرایا ان کو رسول الله نے خواب میں آ کر یہ حکم دیا تھا تو اس نے یزید کے خزانے کے صندوقوں سے تین برس بعد حسین کا سر نکال کر دفن کیا .
نمبر سات (75 برس بعد کسی نا معلوم میدان میں ) 75 برس بعد ہجری 133 میں جب عباسی فوجوں نے بنو امیہ کا خزانہ لوٹا وہاں ایک سپاہی کو ایک تھیلی ملی ، کھول کر دیکھا تو سر کے ساتھ ایک پرچی بھی ملی جس پر لکھا تھا یہ حسین کا سر ہے اس نے دیکھتے ہی اسی میدان میں جہاں تھیلی کھولی تھی دفن کر دیا .
نمبر آٹھ .( مصر )تقریبا پانچ سو برس بعد یعنی 540 ہجری میں عبیدیوںکے ایک سپہ سالار نے عسقلان سے منتقل کر کے قاہرہ مصر میں حسین کا سر دفن کرا دیا جہاں پر اب شہید حسین کی عالی شان عمارت ہے.
دیگر تاریخوں میں اور بھی مقامات درج کئے گئے ہیں ان کو ملا لیا جائے تو 12 مقامات کا اور اضافہ ہو جائے گا. حضرت حسین کے سر کو کاٹ کے ان مختلف مقامات پر ( جو ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر ہیں ) اس کی مشہوری کرانے کی من گھڑت روایتوں کے ساتھ جناب محمّد الباقر کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ حسین کا سر جسم کے ساتھ ہے اور جسم سر کے ساتھ .(ناسخ التواریخ صفحہ 377) .
اور یہ بھی کہتے ہیں کہ جب یہ سر واپس ہو کر کوفہ آیا تو ابن زیاد نے سوچا کہ کہیں کوئی فتنہ نہ کھڑا ہو جائے اس سر کو نہ کوفہ میں دفن کرایا نہ ہی کربلا میں بلکہ نجف میں حضرت علی کی قبر میں دفن کرا دیا اور چونکہ علی اور حسین ایک ہی نور میں سے ہیں ان لئے سر اپنے ہی جسم سے پیوستہ رہا.(ناسخ التواریخ ایضا ً)ْ
شیعا مورخ مجاہد اعظم نجف میں سر دفن کرنے کی روایت کو درست نہیں مانتے اور یہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کی قبر مبارک کا تو اس زمانے میں کسی کو پتہ ہی نہیں تھا ۔سوائے امام اہل بیعت کے .( صفحہ 302 مجاہد اعظم) .
اور اب ایک اور تاریخی حقیقت کا انکشاف ہو رہا ہے دل تھام کر سنیے.
حضرت علی کے انتقال کے بعد 350 برس تک حضرت علی کی قبر کا کسی کو بھی پتہ نہیں تھا .
بنی بویہ کے عہد میں عزد الدولہ ویلمی متوفی ہجری 372 نے نجف میں یہ مزار بنوایا تھا ( اور اس ویلمی خاندان کا پچھلی پوسٹ قسط 36 میں تفصیل سے ذکر ہو چکا ہے ) صاف ظاہر ہے جب حضرت علی کی قبر کا کسی کو پتہ ہی نہیں تھا تو یہ روایت خود ہی من گھڑت ثابت ہو جاتی ہے کہ ایک غلام نے سر چرا کر حضرت علی کی قبر میں دفن کر دیا .(حیات القلوب صفحہ 504 ).
فرض کریں اگر سر چرا بھی لیا جاتا تو دمشق سے قریب ترین مقام کربلا ہی تھا ۔اسے چھوڑ کر نجف میں جہاں حضرت علی کی قبر کا اس وقت نام و نشان ہی نہ تھا کیسے دفن کر دیا؟
مجاہد اعظم اس سلسلہ میں یہ فرماتے ہیں وہ بھی اپنے خیال اور قیاس آرائی سے کام لیتے ہوے کہ ہمیں قیاس اور اجتہاد سے کام لیتے ہوے الی السورت یہی لگتا ہے کہ یہ جسد مبارک سر کے ساتھ ایک ہی مقام پر دفن ہے( صفحہ 302 .)
اور وہ نجف ، مدینہ ، عسقلان ، قاہرہ ،مصر میں سر کو دفن کرنے کی روایتوں کو درست نہیں سمجھتے .اور نہ ہی یہ مانتے ہیں کہ زین الابدین نے دوبارہ کربلا آ کر دفن کیا ۔کیوں کہ بقول ان کے وو دوبارہ کربلا آئے ہی نہیں.
اس لئے ہم کو اس روایت کے کہ عمر بن عبد العزیز نے آپ کے سر مبارک کو دمشق سے کربلا بھجوایا مان لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں (صفحہ 303 . )
اور وہ روایت یہ ہے کہ جب خلیفہ ، حضرت عمر بن عبد العزیز تک پہنچی تو حضرت حسین کا سر دفن کرنے کی جگہ کی تحقیق اور تلاش میں زمین کو کھدوایا گیا اور سر مبارک قبضہ میں لے لیا گیا۔ لیکن پھر کسی نے نہ جانا کہ اس سر کے ساتھ کیا ہوا کیوں کہ وہ ایک دیندار شخص تھے۔ تو گمان یہ ہوتا ہے کہ کربلا بھجوا دیا ہو اور جسم کے ساتھ ملحق کر دیا گیا ہو ۔(ناسخ التواریخ جلد 6 صفحہ 378 از کتاب دوئم)
نمبر دو .(مدینہ منورہ ) عامل مدینہ کے پاس حضرت حسین کا سر اور دوسرے سر بھیج دیے گیے .اور وہاں بھی دو جگہ دفن کرنے کی روایت بیان کی گئی ہے .
(١) حضرت فاطمہ کے پہلو میں جنت البقیح میں .
(٢).حضرت حسن کے پہلو میں جو قبہ حضرت عباس میں مدفون ہیں .(ناسخ التواریخ ایضا )
نمبر تین .(دمشق ) تین دن تک سر حسین دمشق کی دروازے پر لٹکا کر باب الفرادیش دمشق میں دفن ہوا (.ناسخ التواریخ ).
نمبر چار .(مسقلان ) دمشق کو جب یہ سر بھیجے جا رہے تھے تو وہاں کے عامل نے سر حسین لے کر وہیں دفن کر دیا .ایضا!
نمبر پانچ .(نجف ) ملک شام کو جب یہ سر بھیجے جا رہے تھے ایک غلام نے حضرت کا سر چرا لیا اور حضرت علی کے پہلو میں دفن کر دیا .(صفحہ 377 ایضاً . )
نمبر چھ .(مقابر مسلمین میں ) سلیمان بن عبد الملک نے ( متوفی 99 ہجری ) یہ سر مقابر مسلمین میں دفن کرایا ان کو رسول الله نے خواب میں آ کر یہ حکم دیا تھا تو اس نے یزید کے خزانے کے صندوقوں سے تین برس بعد حسین کا سر نکال کر دفن کیا .
نمبر سات (75 برس بعد کسی نا معلوم میدان میں ) 75 برس بعد ہجری 133 میں جب عباسی فوجوں نے بنو امیہ کا خزانہ لوٹا وہاں ایک سپاہی کو ایک تھیلی ملی ، کھول کر دیکھا تو سر کے ساتھ ایک پرچی بھی ملی جس پر لکھا تھا یہ حسین کا سر ہے اس نے دیکھتے ہی اسی میدان میں جہاں تھیلی کھولی تھی دفن کر دیا .
نمبر آٹھ .( مصر )تقریبا پانچ سو برس بعد یعنی 540 ہجری میں عبیدیوںکے ایک سپہ سالار نے عسقلان سے منتقل کر کے قاہرہ مصر میں حسین کا سر دفن کرا دیا جہاں پر اب شہید حسین کی عالی شان عمارت ہے.
دیگر تاریخوں میں اور بھی مقامات درج کئے گئے ہیں ان کو ملا لیا جائے تو 12 مقامات کا اور اضافہ ہو جائے گا. حضرت حسین کے سر کو کاٹ کے ان مختلف مقامات پر ( جو ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر ہیں ) اس کی مشہوری کرانے کی من گھڑت روایتوں کے ساتھ جناب محمّد الباقر کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ حسین کا سر جسم کے ساتھ ہے اور جسم سر کے ساتھ .(ناسخ التواریخ صفحہ 377) .
اور یہ بھی کہتے ہیں کہ جب یہ سر واپس ہو کر کوفہ آیا تو ابن زیاد نے سوچا کہ کہیں کوئی فتنہ نہ کھڑا ہو جائے اس سر کو نہ کوفہ میں دفن کرایا نہ ہی کربلا میں بلکہ نجف میں حضرت علی کی قبر میں دفن کرا دیا اور چونکہ علی اور حسین ایک ہی نور میں سے ہیں ان لئے سر اپنے ہی جسم سے پیوستہ رہا.(ناسخ التواریخ ایضا ً)ْ
شیعا مورخ مجاہد اعظم نجف میں سر دفن کرنے کی روایت کو درست نہیں مانتے اور یہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کی قبر مبارک کا تو اس زمانے میں کسی کو پتہ ہی نہیں تھا ۔سوائے امام اہل بیعت کے .( صفحہ 302 مجاہد اعظم) .
اور اب ایک اور تاریخی حقیقت کا انکشاف ہو رہا ہے دل تھام کر سنیے.
حضرت علی کے انتقال کے بعد 350 برس تک حضرت علی کی قبر کا کسی کو بھی پتہ نہیں تھا .
بنی بویہ کے عہد میں عزد الدولہ ویلمی متوفی ہجری 372 نے نجف میں یہ مزار بنوایا تھا ( اور اس ویلمی خاندان کا پچھلی پوسٹ قسط 36 میں تفصیل سے ذکر ہو چکا ہے ) صاف ظاہر ہے جب حضرت علی کی قبر کا کسی کو پتہ ہی نہیں تھا تو یہ روایت خود ہی من گھڑت ثابت ہو جاتی ہے کہ ایک غلام نے سر چرا کر حضرت علی کی قبر میں دفن کر دیا .(حیات القلوب صفحہ 504 ).
فرض کریں اگر سر چرا بھی لیا جاتا تو دمشق سے قریب ترین مقام کربلا ہی تھا ۔اسے چھوڑ کر نجف میں جہاں حضرت علی کی قبر کا اس وقت نام و نشان ہی نہ تھا کیسے دفن کر دیا؟
مجاہد اعظم اس سلسلہ میں یہ فرماتے ہیں وہ بھی اپنے خیال اور قیاس آرائی سے کام لیتے ہوے کہ ہمیں قیاس اور اجتہاد سے کام لیتے ہوے الی السورت یہی لگتا ہے کہ یہ جسد مبارک سر کے ساتھ ایک ہی مقام پر دفن ہے( صفحہ 302 .)
اور وہ نجف ، مدینہ ، عسقلان ، قاہرہ ،مصر میں سر کو دفن کرنے کی روایتوں کو درست نہیں سمجھتے .اور نہ ہی یہ مانتے ہیں کہ زین الابدین نے دوبارہ کربلا آ کر دفن کیا ۔کیوں کہ بقول ان کے وو دوبارہ کربلا آئے ہی نہیں.
اس لئے ہم کو اس روایت کے کہ عمر بن عبد العزیز نے آپ کے سر مبارک کو دمشق سے کربلا بھجوایا مان لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں (صفحہ 303 . )
اور وہ روایت یہ ہے کہ جب خلیفہ ، حضرت عمر بن عبد العزیز تک پہنچی تو حضرت حسین کا سر دفن کرنے کی جگہ کی تحقیق اور تلاش میں زمین کو کھدوایا گیا اور سر مبارک قبضہ میں لے لیا گیا۔ لیکن پھر کسی نے نہ جانا کہ اس سر کے ساتھ کیا ہوا کیوں کہ وہ ایک دیندار شخص تھے۔ تو گمان یہ ہوتا ہے کہ کربلا بھجوا دیا ہو اور جسم کے ساتھ ملحق کر دیا گیا ہو ۔(ناسخ التواریخ جلد 6 صفحہ 378 از کتاب دوئم)
کربلا کے مقتولوں کے سر کاٹ کر ،ان کی مشہوری کرنے کا بیان
ابھی جاری ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں