تبلیغیوں کے مولانا زکریاصاحب نے فضائل پر کتابیں لکھی ہیں مثلاً فضائل اعمال ‘ فضائل درود ‘ فضائل حج ‘ فصائل صدقات وغیرہ ۔انہی کتابوں کو تبلیغی جماعت کی تعلیمی مجالس میں پڑھنے اور سننے کی بیعت لی جاتی ہے ۔فضائل اعمال کا ترجمہ عربی زبان کے علاوہ دنیا کی اکثر زبانوں میں ہو چکا ہے ۔ چونکہ عرب کا عقیدہ توحید بہتر ہوتا ہے اس لئے انہیں فضائل اعمال کی بجائے ریاض الصالحین پڑھائی جاتی ہے تا کہ تبلیغی جماعت کے شرکیہ عقائد کو عربیوں سے چھپایا جا سکے ۔
آئیے ! فضائل اعمال میں جھوٹ پر مبنی باتوں کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے ۔
1-ایک سید صاحب کا قصہ لکھا ہے کہ بارہ دن تک ایک ہی وضو سے ساری نمازیں پڑھیں اور پندرہ برس مسلسل لیٹنے کی نوبت نہیں آئی ۔کئی کئی دن ایسے گزر جاتے کہ کوئی چیز چکھنے کی نوبت نہ آتی ۔
(فضائل اعمال ‘ فضائل نماز باب سوم ص360)
ابتداءمیں حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے آپ کو رسی سے باندھ لیا کرتے کہ نیند کے غلبہ سے گر نہ جائیں ۔
(فضائل اعمال ‘ فضائل نماز باب سوم ص374)
تبلیغی بزرگوں کو تو15برس لیٹنے کی نوبت نہیں آتی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بہتان باندھا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غلبہ نیند سے گرنے کا اندیشہ ہوتا تھا۔العیاذ باللہ
ابن الکاتب کا معمول تھا کہ روزانہ آٹھ قرآن شریف پڑھتے تھے ۔
(فضائل اعمال ‘ فضائل قرآن ‘تلاوت کرنیوالوں کے واقعات ص 254)
حضرت زین العابدین روزانہ ایک ہزار رکعت پڑھتے تھے ۔
(فضائل اعمال فضائل نماز باب سوم ص378)
کیا اسلام اس طرح کے بڑے بڑے ریکارڈ بنانے کا دین ہے ؟
ایک بزرگ کا قصہ لکھا ہے کہ وہ روزانہ ایک ہزار رکعت کھڑے ہو کر پڑھتے جب پاﺅں رہ جاتے یعنی کھڑے ہونے سے عاجز ہو جاتے تو ایک ہزار رکعت بیٹھ کر پڑھتے۔
(فضائل صدقات حصہ دوم ص588)
اگرتبلیغیوں کے مولانا زکریا نے یہ واقعات اس لئے لکھے ہیں کہ ان کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرلیا جائے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر شریعت سازی کی گئی ہے تو ہم دوزانو ہو کر پڑھنے اور سننے والوں سے گذارش کرتے ہیں کہ شریعت کا اتنی دیدہ دلیری سے مذاق نہ اڑائیں اور اللہ سے ڈریں ۔
6۔حضرت جنید سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ خواب میں شیطان کو ننگا دیکھا انہوں نے فرمایا کہ تجھے شرم نہیں آتی کہ آدمیوں کے سامنے ننگا ہوتا ہے۔ وہ کہنے لگا کہ یہ کوئی آدمی ہیں ‘ آدمی وہ ہیں جو شونیزیہ کی مسجد میں بیٹھے ہیں جنہوں نے میرے بدن کو دبلا کر دیا اور میرے جگر کے کباب کر دیئے ۔حضرت جنید فرماتے ہیں کہ میں شونیزیہ کی مسجد میں گیا میں نے دیکھا چند حضرات گھٹنوں پر سر رکھے مراقبہ میں مشغول ہیں جب انہوں نے مجھے دیکھا تو کہنے لگے کہ خبیث کی باتوں سے کہیں دھوکہ میں نہ پڑ جانا ۔
( فضائل اعمال فضائل ذکر باب اول صفحہ 437)
اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ اصل ایمان والے صوفیاءہیں اور انہیں علم غیب بھی ہوتا ہے کہ شیطان کسی کو خواب میں کیا کہہ گیا ہے ۔
ابو سنان کہتے ہیں خدا کی قسم ! میں ان لوگوں میں تھا جنہوں نے ثابت کو دفن کیا۔ دفن کرتے ہوئے لحد کی ایک اینٹ گر گئی تو میں نے دیکھا کہ وہ کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں میں نے اپنے ساتھی سے کہا ! دیکھو یہ کیا ہو رہاہے اس نے مجھے کہا چپ ہو جا۔
( فضائل اعما ل فضائل نماز باب سوم ص361)
قبر کتنی گہری کھودی گئی تھی ؟
ایسے ہی جھوٹے واقعات کو سچ سمجھ کر تبلیغی جماعت کے تبلیغیوں کے مولانا انعام الحسن 1992‘1993 اور 1994کے اجتماعات میں ان الفاظ کیساتھ بیعت لیتے تھے۔ ”بیعت کی ہم نے تبلیغیوں کے مولانا محمد الیاس کے ہاتھ پر انعام کے واسطے سے“۔حالانکہ تبلیغیوں کے مولانا الیاس 1944میں فوت ہوگئے تھے۔
شیخ عبدالواحد مشہور صوفیاءمیں ہیں ۔انہوں نے خواب میں نہایت خوبصورت لڑکی دیکھی جس نے کہا میری طلب میں کوشش کر میں تیری طلب میں ہوں تب انہوں نے چالیس برس تک صبح کی نماز عشاءکے وضو سے پڑھی۔
(فضائل اعما ل فضائل نماز باب سوم ص 356)
اس سے ثابت ہوا کہ یہ بات غلط ہے کہ صوفیاءصرف اللہ کی رضا کیلئے عبادت کرتے ہیں بلکہ خوبصورت لڑکیوں کیلئے۔
ایک بزرگ کی خدمت میں ایک شخص ملنے آیا ۔ وہ ظہر کی نماز میں مشغول تھے ۔وہ انتظار میں بیٹھ گیا جب نماز سے فارغ ہو چکے تو نفلوں میں مشغول ہو گئے اور عصر تک نفلیں پڑھتے رہے ۔یہ انتظار میں بیٹھا رہا نفلوں سے فارغ ہوئے تو عصر کی نماز شروع کر دی اور اس سے فارغ ہو کر دعا میں مشغول ہو گئے ۔پھر مغرب کی نماز پڑھی اور نفلیں شروع کر دیں۔عشاءکی نماز تک اس میں مشغول رہے عشاءکی نماز پڑھ کر نفلوں کی نیت باندھ لی اور صبح تک اس میں مشغول رہے ۔پھر صبح کی نماز پڑھی اور ذکر شروع کر دیا اور درود و ظائف پڑھتے رہے ۔اسی میں مصلے پر بیٹھے بیٹھے آنکھ جھپک گئی فوراً آنکھوں کو ملتے ہوئے اٹھے۔استغفار و توبہ کرنے لگے اور یہ دعا پڑھی:اللہ ہی سے پناہ مانگتا ہو ںایسی آنکھ کی جو نیند سے بھرتی نہیں -
( فضائل اعمال فضائل نماز باب سوم ص 386)
یعنی 17گھنٹے نان سٹاپ عبادت ! نیز جو لوگ صوفیاءکو ملنا چاہیں اس واقعہ کو ذہن میں رکھ کر سوچ سمجھ کر فیصلہ فرمائیں ۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے جب وہ گناہ صادر ہو گیا (جسکی وجہ سے جنت سے دنیا میں بھیج دیئے گئے تو ہر وقت روتے تھے اور دعا و استغفار کرتے رہتے تھے ) ایک مرتبہ آسمان کی طرف منہ کیا اور عرض کیا یا اللہ ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے مغفرت چاہتا ہوں۔وحی نازل ہوئی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں ؟ (جن کے واسطے سے تم نے استغفار کی) عرض کیاکہ جب آپ نے مجھے پیدا کیا تھا تو میں نے عرش پر لکھا ہوا دیکھا تھا : لا الہ اللہ محمد رسول اللہ تو میں سمجھ گیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اونچی ہستی اور کوئی نہیں جن کا نام تم نے اپنے نام کے ساتھ رکھا۔ وحی نازل ہوئی کہ وہ خاتم النبیین ہیں ‘ تمہاری اولاد میں سے ہیں ۔لیکن وہ نہ ہوتے تو تم بھی پیدا نہ کئے جاتے ۔
(فضائل اعمال ‘ فضائل ذکر باب دوم ص 497)
اسکے نیچے تبلیغیوں کے مولانا زکریا صاحب نے اس روایت کو موضوع (من گھڑت)لکھا ہوا ہے جھوٹ سنا کر کسی کو درست کر نیکی بجائے سچائی کو عام کرنا چاہیے انبیاءکرام کا اسلوب دعوت بھی یہی تھا ۔ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ وضو کا پانی گرتے ہوئے یہ محسوس فرما لیتے تھے کہ کونسا گناہ اس میں دھل رہا ہے- ۔
(فضائل اعمال ‘ فضائل نماز باب اول ص304)
: صحابہ کرام کی شان میںتبلیغیوں کے مولانا زکریا کی گستاخیاں
لکھتے ہیں؛
میں نے اپنے والد صاحب نور اللہ مرقدہ سے بھی بار ہا سنا اور اپنے گھر کی بوڑھیوں سے بھی سنا ہے کہ میرے والد صاحب کا جب دودھ چھڑایا گیا تو پاؤپارہ حفظ ہو چکا تھا اور ساتویں برس کی عمر میں قرآن شریف پورا حفظ ہو چکا تھا اور وہ اپنے والد یعنی میرے دادا صاحب سے مخفی فارسی کا معتدبہ حصہ بوستان ‘ سکندر نامہ وغیرہ پڑھ چکے تھے ۔
(فضائل اعمال حکایات صحابہ باب یازد ہم ص 180)
حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
صاحب تلقیح نے ان صحابہ میں ان (حسن رضی اللہ تعالی عنہ)کا ذکر کیا ہے جن سے تیرہ حدیثیں روایت کی جاتی ہیں ۔ بھلاسات برس کی عمر ہی کیا ہوتی ہے ۔
(فضائل اعمال حکایات صحابہ باب یاز دہم ص178)
حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں لکھتے ہیں؛
چھ برس کا بچہ کیا دین کی باتوں کو محفوظ کر سکتا ہے ؟لیکن امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی روایتیں حدیث کی کتابوں میں نقل کی جاتی ہیں اور محدیثین نے اس جماعت میں ان کا شمار کیا ہے جن سے آٹھ روایتیں منقول ہیں ۔
( فضائل اعمال حکایات صحابہ باب یازدہم ص 179)
تبلیغیوں کے مولانا زکریا صاحب نے سات سال کی عمر میں اپنے والد صاحب کو مکمل قرآن اور بہت کچھ یاد کروا دیا جبکہ حسن رضی اللہ تعالی عنہ و حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں فرمادیا کہ سات برس کی عمر ہی کیا ہوتی ہے۔
ایک بزرگ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ اپنی پنڈلیوں کوکوڑے مارتے تھے اور یہ بھی کہا کرتے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ یوں سمجھتے ہیں ( کہ جنت کے سارے درجے ) وہی اڑا کر لے جائیں گے نہیں ! ہم ان سے (ان درجوں میں ) اچھی طرح مزاحمت کریں گے تا کہ ان کوبھی معلوم ہو جائے کہ وہ بھی اپنے پیچھے مردوں کو چھوڑ کر آئے ہیں۔(فضائل صدقات حصہ دوم ص 592)
مالک بن دینار کہتے ہیں کہ ایک نوجوان جس کے پاس کوئی توشہ اور پانی نہیں تھا۔جب اسے کرتہ دینا چاہا تو اس نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ دنیا کے کرتے سے ننگا رہنا اچھا ہے ۔نہ احرام باندھا ‘ نہ لبیک کہا کہ کہیں لا لبیک جواب نہ ملے ۔اس کے بعد کہا اے اللہ ! لوگوں نے قربانیوں کے ساتھ تیرا تقرب حاصل کیا میرے پاس کوئی چیز قربانی کے لئے نہیں سوائے اپنی جان کے ۔ میں اسکو تیری بارگاہ میں پیش کرتا ہوں تو اسکو قبول فرما۔اس کے بعدچیخ ماری اور مردہ ہو کر گر گیا اس کے بعد غیب سے آواز آئی یہ اللہ کا دوست ہے ‘ خدا کا قتیل ہے مالک بن دینار کہتے ہیں میں نے اس کی تجہیز و تکفین کی رات کو اسے خواب میں دیکھا اور پوچھا تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوا ؟کہنے لگا جو شہداءبدر کے ساتھ ہوا بلکہ اس پر بھی کچھ زیادہ ہوا ۔میں نے پوچھا زیادہ ہونے کی وجہ ؟ کہنے لگا کہ وہ کافروں کی تلوار سے شہید ہوئے اور میں عشق مولیٰ کی تلوار سے ہوا ۔
( فضائل حج ص 221)
یقینا تبلیغی جماعت کے بزرگوں کے علاوہ صحابہ کرام سے مقابلہ بازی کوئی ادنیٰ درجے کا مسلمان بھی نہیں کر سکتا ۔اصل میں تبلیغی جماعت کے ساتھ رہ کر ایمان اتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ انسان صحابہ کرام کو بھی چیلنج کر نا شروع کر دیتا ہے ۔( استغفر اللہ )
عقیدہ توحیدملاحظہ ہو
ایک کفن چورکے متعلق لکھا ہے کہ اس نے ایک قبر کھودی تو اندر سے ایک شخص تخت پر بیٹھے قرآن پاک سامنے رکھے تلاوت میں مصروف نظر آئے نیچے نہر چل رہی تھی یہ بے ہوش ہو کر گر پڑا ۔لوگوںنے اسے قبر سے نکالا تین دن بعد ہوش آیا اور قصہ سنایا بعض لوگوں نے اسکی قبر دیکھنے کی تمنا کی ۔اس سے پوچھا کہ قبر بتا دے ۔اس نے ارادہ بھی کیا کہ ان کو لیجا کر قبر دکھاؤں۔ رات کو خواب میں ان قبر والے بزرگ کو دیکھا کہہ رہے ہیں اگر تو نے میری قبر بتائی تو ایسی آفتوں میں پھنس جائے گا کہ یاد کرے گا۔
(فضائل صدقات حصہ دوم ص 659)
اس قصہ کا جھوٹ ہونا خود اسی قصہ سے ظاہر ہو رہا ہے ۔ایک طرف لوگوں نے اسے قبر سے نکالا اور دوسری طرف لوگوں نے اس سے قبر کا پتہ پوچھا ۔
مشہور بزرگ ابن الجلاءفرماتے ہیں میرے والد کا انتقال ہوا ۔انہیں نہلانے کیلئے تختہ پر رکھا گیا تو وہ ہنسنے لگے نہلانے والے چھوڑ کر چل دیئے ۔
( فضائل صدقات حصہ دوم ص660)
ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرید کو غسل دیا اس نے میرا انگوٹھا پکڑلیا۔میں نے کہا میرا انگوٹھا چھوڑ دو مجھے معلوم ہے کہ تو مرا نہیں بلکہ یہ ایک مکان سے دوسرے مکان میں انتقال ہے ۔ اس نے میر ا انگوٹھا چھوڑ دیا ۔
( فضائل صدقات حصہ دوم ص660)
غور فرمائیں کیا دین اسلام میں روایت کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ ایک بزرگ فرماتے ہیں ان بزرگ کا نام و نشان تک نہیں آخر روایت بیان کرنے کیلئے کو ئی تو اصول ہونا چاہئے ۔
شیخ ابو یعقوب سنو سی کہتے ہیں میرے پاس ایک مرید آیا اور کہنے لگا میں کل ظہر کے وقت مر جاؤں گا ۔ چنانچہ وہ واقعی مر گیا میں نے اسے غسل دیا اور دفن کیا ۔جب میں نے اسے قبر میں رکھا تو اس نے آنکھیں کھول دیں میں نے کہا مرنے کے بعد بھی زندگی ہے کہنے لگا میں زندہ ہوں اور اللہ کا ہر عاشق زندہ ہی رہتا ہے ۔
( فضائل صدقات حصہ دوم ص660)
ابو سعید خزار کہتے ہیں مکہ مکرمہ میں باب بنی شیبہ کے باہر مجھے خوبصورت آدمی کی میت پڑی نظر آئی۔میں نے اسے غور سے دیکھا تو وہ ہنسنے لگا ۔
فضائل صدقات حصہ دوم ص671)
کیا ان واقعات کو ماننے سے قرآن کریم کا انکار لازم نہیں آتا ؟ فیصلہ قارئین پر ہے ۔
اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور غیروں سے کچھ نہ ہونے کا یقین دلوں میں کیسے آتا ہے ؟
سفیان ثوری ایک شخص سے ملتے ہیں اور اس سے ہر قدم پر درود پڑھنے کی وجہ پوچھتے ہیں تو وہ بتاتا ہے کہ میں اور میرے والد حج کو جارہے تھے راستے میں ان کا انتقال ہو گیا اور منہ کالا ہو گیا میں دیکھ کر بڑا رنجیدہ ہوااور انا للہ پڑھی اور کپڑے سے انکا منہ ڈھک دیا اتنے میں میری آنکھ لگ گئی ۔میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک صاحب بہت زیادہ حسین ‘ صاف ستھرا لباس اور بہترین خوشبو میں تیزی سے قدم بڑھائے چلے آرہے ہیں۔انہوں نے میرے باپ کے منہ پر سے کپڑا ہٹایا اور اسکے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو اس کا چہرہ سفید ہو گیا۔واپس جانے لگے تو میں نے انکا جلدی سے کپڑا پکڑ لیا اور میں نے کہا اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے آپ کو ن ہیں کہ آپ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے میرے باپ پر مسافرت میں احسان فرمایا ۔ وہ کہنے لگے تو مجھے نہیں پہنچانتا ؟ میں محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم صاحب قرآن ہوں یہ تیرا باپ بڑا گنہگار تھا لیکن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرتا تھا جب اس پر یہ مصیبت نازل ہوئی تو میں اسکی فریاد کو پہنچا اور میں ہراس شخص کی فریاد کو پہنچتا ہوں جو مجھ پرکثرت سے درود بھیجے ۔
( فضائل درود فصل پنجم واقعہ نمبر 43ص 102)
سفیان ثوری ایک نوجوان سے ملتے ہیں اور اس سے ہر قدم پر درود پڑھنے کی وجہ پوچھتے ہیں تو وہ بتاتا ہے کہ میں اور میری والدہ حج کو جارہے تھے ۔میری ماں وہیں رہ گئی (یعنی مر گئی ) اور اسکامنہ کالا ہو گیا اور اس کا پیٹ پھول گیا جس سے مجھے یہ اندازہ ہو گیا کہ کوئی سخت گناہ ہو گیا ۔ اس سے میں نے اللہ جل شانہ کی طرف دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو میں نے دیکھا کہ تہامہ (حجاز ) سے ایک ابر آیا اس سے ایک آدمی ظاہر ہوا اس نے اپنا مبارک ہاتھ میری ماں کے منہ پر پھیرا جس سے وہ بالکل روشن ہو گیا اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو ورم بالکل جاتا رہا۔میں نے ان سے عرض کیا آپ کون ہیں ؟ کہ میری اور میری ماں کی مصیبت دور کی۔انہوں نے فرمایا میں تیرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔
( فضائل درود فصل پنجم واقعہ46 ص104)
ان واقعات سے تبلیغی جماعت اور بریلویت ایک ہو جاتے ہیں ۔نیز گستاخی کی بھی حد کر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردہ عورت کے منہ اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا۔(استغفراللہ)
انبیاءکی گستاخی
ایک بزرگ کی ایک راہب سے ملاقات ہوئی ۔گفتگو کے دوران راہب نے حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں بتایا کہ وہ چالیس دن تک فاقہ کر لیتے تھے ۔تو ان بزرگ نے ساٹھ دن تک فاقہ کر کے دکھا دیاوہ راہب مسلمان ہو گیا ۔
( فضائل صدقات حصہ دوم ص572)
پس ثا بت ہوا کہ تبلیغی جماعت کے بزرگ اتنے پختہ ایمان والے ہوتے ہیں کہ انبیاءکرام کے ساتھ مقابلہ تک کرلیتے ہیں لیکن جہاد کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ابھی ایمان مضبوط نہیں۔
شیخ علی متقی فرماتے ہیں ایک فقیر نے فقراءمغرب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ اسکو شرا ب پینے کے لئے فرماتے ہیں“ ۔استغفراللہ
( فضائل درود فصل دوم واقعہ نمبر۹ص53)
کعبہ کی گستاخی
بعض بزرگوں سے نقل کیا گیا ہے کہ بہت سے لوگ خراسان میں مکہ سے تعلق کے اعتبا رسے بعض ان لوگوں سے قریب ہیں جو طواف کر رہے ہوں بلکہ بعض لوگ تو ایسے ہوتے ہیں کہ خود کعبہ انکی زیارت کو جاتا ہے۔
( فصائل حج ص ۱۱۱) ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں