Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 28 ستمبر، 2018

پاکستانی ٹھگ

 مگر ایسا نہیں تھا، حالات ناسازگار و نامساعد پاکر ٹھگوں کے بچے کچے افراد نے اپنے آپ کو نئے روپ میں ڈھالا اور جو بظاہر جس بھی مذہب کا پیروکار تھا اسی کے مطابق ایک نارمل زندگی گزارنے لگا اور یہ سب کے سب مناسب موقع کے انتظار میں چپ چاپ خاموشی سے شرافت کی زندگی گزارتے رہے مگر اپنی اولادوں کو ٹھگی کی تربیت اور سارے طور طریقوں کی وراثت دے کر جاتے رہے، یہ برادری اس انتظار میں رہی کہ کب انہیں دوبارہ پنپنے کا موقع ملتا ہے کیونکہ یہ ان کے بنیادی عقائد میں سے ایک بڑا اہم عقیدہ ہے کہ ایسا تو ہوسکتا ہے کہ دنیا سے کبھی نیکی اور اچھائی بالکل ختم ہوجائیں لیکن ایسا ہونا ناممکن ہے کہ برائی اور گندگی بالکل ختم ہوجائے۔ 
ٹھگوں کی آئندہ نسلوں نے اپنے بنیادی عقائد کو خفیہ رکھتے ہوئے اور بظاہر ہندو، مسلم یا عیسائی مذہب کے پیروکار رہتے ہوئے خود کو دنیا سے ہم اہنگ کرنے کے لئے جدید تعلیم اور اصول و آداپ برائے حال و مستقبل سے اگاہی بھی حاصل کی اور خود کو زمانے سے ہم آہنگ کرنے میں کامیاب بھی رہے۔
٭-  کیا اب اس دور جدید میں پاک وطن میں بھی  ٹھگ موجودہیں یا نہیں؟
٭- اور اگر موجود بھی  ہیں  تو کیا سرگرم عمل ہے یا نہیں؟
٭- اُن کا انسانوں کو ٹھگنے کا طریق کار کیا ہے ؟


 اس بارے میں کوئی یقینی شہادت تو ابھی تک نہیں سامنے آئی البتہ کچھ طبقات و افرادجو تحقیق سے علاقہ رکھنے کے دعوے دار ہیں اور اسی طرح کی تحقیقات میں اپنا وقت گویا ضائع ہی کرتے رہتے ہیں وہ اپنے پیش کردہ قرائن و شواہد کی بنیاد پر لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ یہ گروہ، یہ قبیلہ، یہ برادری نہ صرف موجود ہے بلکہ ترقی یافتہ شکل میں پوری طرح سے سرگرم عمل بھی ہے، بس اس قبیلے نے اپنا نام اور طریقہ واردات ذرا تبدیل کردیا ہے۔ یہ اب کسی مرکزی نظام کے تابع نہیں ہیں، بلکہ اپنی اپنی انفرادی سطح پر کام کررہے ہیں۔ ہمارے محققین ان کے بارے میں چند نشانیاں، جو ان کی شناخت میں کسی حد تک معاون و مددگار ثابت ہو سکتی ہیں ، کچھ یہ بیان کرتے ہیں کہ، ٹھگ ہمیشہ خوش پوش اور خوش باش حلئے میں ہوتا ہے، یہ خوش گفتار اور باتیں مٹھارنے کا ماہر ہوتا ہے، یہ پیسے کے حصول کے لئے کوئی بھی حد عبور کرنے کے لئے نہ صرف تیار بلکہ اگر بے چین کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، رہتا ہے۔ یہ اپنے زیر دست لوگوں کے سامنے شیر اور بالا دست افراد کے آگے ڈھیر ہوتا ہے، یعنی زبر دست کے سامنے گڑگڑاتا اور زیر دست کے سامنے غراتا ہے، یہ عام طور پر اپنی گفتگو میں بلند و بالا باتیں کرنے، اعلی اخلاقی اصولوں کا پر چار کرنے اوراپنے اپنے مذہب کے مذہبی حوالے دینے میں بڑا ماہر ہوتا ہے۔ نرمی، انکساری، لجاجت سے پیش آنا اور بڑی سی بڑی توہین آمیز بات پر بھی غصے نہ ہونا اور ٹھنڈا رہنا اور ٹھنڈا کر کے کھانا ان کا خاص وصف ہے، گر اسے وصف کہا جاسکے تو! 
خوشامد میں اگر ڈگری دی جا سکتی ہوتی تو ہر ہر ٹھگ خوشامد میں پی ایج ڈی کے معیار کا حامل ہوتا ہے، یعنی بلا کا خوشامدی اور بانس پر چڑھانے کا ماہر ہوتا ہے۔ ایہ اپنے مقصد کے حصول اور شکار کو ٹھگنے کے لئے بڑے صبر سے انتظار کرنے میں ماہر ہوتے ہیں، یہ عام طور سے پانچ برس یا اس سے بھی زیادہ انتظار کر سکتے ہیں۔ ویسے معیاری دورانیہ پانچ برس ہی عموما ہوتا ہے۔
 یہ برادری اب عام لوگوں میں اسی طرح گھل مل کر رہتی ہے جس طرح  عقلمند اور ہوشیار فنون لطیفہ سے منسلک اس بازار کی مستند خواتین نے کافی پہلے ہی ہوا کا رخ بھانپ کراور اپنی نئی نسل کی خواتین کی جدید خطوط پرتعلیم و تربیت دےکر اور انہیں ماڈرن طور طریقے سکھا کر عام آبادیوں میں رہائش اختیار کرلی ہے اور اس جدید ماڈرن اور فیشن ایبل ماحول، اور فنون لطیفہ و انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں ان کی شناخت کرنا اب بہت مشکل سا ہوگیا ہے ،کہ کون اس بازار سے تشریف لائی ہیں اور کون نہیں ؟
 ٹھگ جھوٹ بولنے کے بڑے ماہر ہوتے ہیں اور اس صفائی سے بڑا حساب کتاب کر کے اور اعداد و شمار کا استعمال کرکے جھوٹ بولتے ہیں کہ ان کا جھوٹ پکڑنا مشکل ہی نہیں بلکہ قریب بہ محال ہوتا ہے۔
 آخر میں ٹھگوں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ یہ اپنی ٹھگی کو باوزن بنانے کے لئے بات بات پر قسم کھانے اور حلف اٹھانے کو فورا ہی تیار ہوجاتے ہیں۔ امید ہے کہ ٹھگوں کی ان مبہم سی نشانیوں سے عوام الناس کوانہیں پہچاننے میں کچھ نہ کچھ مدد تو ضرورملے گی کہ
 عقلمند را اشارہ کافی است۔
(بشکریہ : خرم علی عمران) 



  ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔