یہ ہے اس اصل مواد کا ایک ادنہ سا نمونہ جو سر کاٹنے اور
اسلامی ممالک میں گشت کرانے کے سلسلہ میں راویوں نے اپنی کتابوں میں بیان
کیا ہے اور طبری نے قالا ابو محنف(وفات 157ھ) کی تکرار کے ساتھ بلا جانچے اور سوچے
سمجھے اپنی کتاب میں شامل کر لیا !
پھر کیا تھا جس نے بھی تاریخ لکھنے کا سوچا تاریخ کیا لکھنی تھی۔بس طبری کی نقل مارتا گیا۔(اور یوں طبری کا قد کذابوں کے گروہ میں بلند ہوتا چلا گیا )
پڑھیں : واقعاتِ کربلا تاریخ دانوں کی نظر میں
ایک قابل غور بات یہ ہے جو بات آج کل بُری سمجھی جاتی ہے وہ آج سے دس ہزار سال پہلے بھی لوگوں کو بُری لگتی تھی جھوٹ اور دھوکہ بازی سےآج بھی لوگ نفرت کرتے ہیں دو ہزار سال پہلے بھی کرتے تھے ۔
آج بھی ہر ملک کا سیاست دان اور بر سر اقتدار یہی کوشش کرتا ہے کہ عوام میں حکومت کے خلاف نفرت نہ پھیلے حکومت اگر کوئی آپریشن کرے جس میں انسسانی جانوں کا خطرہ موجود ہو تو اس آپریشن کو انتہائی خفیہ رکھا جاتا ہے۔
کل بھی یہی رواج تھا اور پچھلے پانچ ہزار سال کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے ،
آپ ہی کے ملک میں میں نے سنا ہے کہ اگر کوئی خود کش دھماکہ ہو جائے تو مرنے والوں کی تعداد کم سے کم بتائی جاتی ہے تا کہ لا اینڈ آرڈر کہ مسئلے میں حکومت پر الزام نہ آئے.مگر پوری دنیا کی تاریخ میں قتل حسین کے بعد مقتولین کے سروں کی اسلامی ممالک میں تشہیر ایک ایسا انوکھا واقعہ معلوم ہوتا ہے جس میں کہ تمام دنیا کی روایات کے بر عکس عمل کیا گیا ، یعنی امیر یزید کی حکومت ایسی بے وقوف اور جاہل و نا عاقبت اندیش تھی کہ جس کو یہ احساس ہی نہ تھا کہ اس کے اس عمل سے لوگ ڈر کر گھروں میں بیٹھ جائیں گے یا اس ظلم کے خلاف احتجاج ہو گا۔
پچھلی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ہمیشہ حکمرانوں نے عوامی احتجاج کو اہمیت دی اور کسی نے بھی اپنے اس امر کی تشہیر نہ چاہی کہ جس میں عوامی جذبات کو دھچکا لگتا ہو .
اب آخر میں ابو محنف کی زبانی وہ روایت بھی سن لیں ،جو اس جھوٹے نے حضرت حسین جیسے بلند حوصلہ مرد کے قتل ہونے اور سر کاٹے جانے کی گھڑ ڈالی۔
ابو محنف کا بیان ہے کہ جب حضرت حسین زخموں سے نڈھال ہوگئے اور زمین پر گر گئے تو شبث بن ربی قتل کرنے اور سر کاٹنے آیا جیسے ہی آپ نے آنکھ کھول کر اس کی طرف دیکھا تو وہ الٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہوا اور جا کر کہنے لگا ،
" ان کے چہرے سے مجھے رسول الله کے شباہت نظر آتی ہے اس لئے شرم سے بھاگ آیا " .(مقتل ابی محنف، صفحہ 91 )
پھر دوسرا شخص سنان بن انس آیا مگر یہ بھی چہرہ دیکھ کر بھاگ گیا اور اپنے ساتھیوں سے بولا " جب حسین نے میری طرف دیکھا تو اپنے والد علی جیسا لگا مجھے علی کی بہادری اور شجاعت یاد آ گئی اس لئے قتل نہ کر سکا " ۔ (صفحہ 91 .مقتل ابی محنف.)
شمر کے ظلم کی داستان اس کے بعد شروع ہوتی ہے .اس نے اپنےساتھیوں سے کہا تم سب بز دل ہو مجھے تلوار دو محمّد سے شکل ملتی ہو یا علی سے میں تو ان کو ضرور قتل کروں گا ۔(صفحہ 91 . ایضاً)
وہ گیا اور جا کر کہنے لگا،
میں ان میں سے نہیں جو آپ کو قتل کرنے سے باز رہے
یہ بول کر سینے پر چڑھنے لگا تو آپ نے کہا ،
ارے تو کون ہے جو اس بلند مقام پر چڑھتا ہے جو بوسہ گاہ نبی ہے .(صفحہ 91)
اس نے نام بتایا ،
آپ نے پوچھا مجھے جانتا ہے؟
بولا،
ہاں آپ حسین ہیں آپ کے والد علی آپ کی والدہ فاطمہ الزہرہ آپ کے نانا محمّد آپ کی نانی خدیجہ .
نوٹ کریں بالکل پاکستانی پنجابی فلم والے ڈائیلاگ ہیں.اور شمر رشتے میں حضرت حسین کا بھی ماموں لگتا تھا۔
اب سنیں کے ابو محنف نے قتل کی وجہ کیا بیان کی.
پس حضرت حسین نے فرمایا ،
افسوس ہے! تجھ پر مجھے پہچانتا ہے تو قتل کیوں کرتا ہے؟
تو شمر نے کہا ۔
کہ آپ کو قتل کر کے یزید سے انعام پاؤں گا!
حسین نے کہا ،
ان دونوں باتوں میں سے تجھے کون سی بات پسند ہے میرے نانا کی شفاعت یا یزید کا انعام،
تو شمر نے جواب دیا ،
یزید کے انعام کی ایک دمڑی مجھے محبوب ہے بہ نسبت تمھارے نانا اور والد کی شفاعت کے .(صفحہ 92 .مقتل ابی محنف).
جب حضرت حسین کو یقین ہو گیا کہ یہ قتل کرنے سے باز نہیں آے گا تو فرمایا کہ،
اگر قتل ہی کرنا ہے تو پہلے مجھے تھوڑا پانی ہی پلا دے ۔
مگر اس نے کہا کہ ،
اے ابو تراب کے بیٹے تم تو کہتے ہو کہ تیرے والد علی حوض کوثر سے جس کو چاہیں پانی پلائیں گے تو ذرا صبر کر کہ اب تمھارے والد تم کو پانی سے سیراب کرنے ہی والے ہیں۔
تو حسین نے کہا کہ،
ذرا اپنا نقاب تو الٹ دے میں ترا چہرہ دیکھ لوں
اس نے جیسے ہی نقاب الٹا تو آپ نے دیکھا وہ مبروص ، کوڑھ کا مارا ہوا ، ایک آنکھ سے کانا ، منہ ان کا کتے کی تھوتھنی جیسا اور بال سور کے .تو آپ نے فرمایا ،
میرے نانا نے میرے والد سے سچ کہا تھا کہ تیرے اس بیٹے کو قتل کرے گا ایک کوڑھیا کانا جس کی کتے کی سی تھوتھنی ہو گی اور بال سور کے بالوں کے طرح .(صفحہ 92 .ایضا).
اس پر جو ابو محنف نے شمر کی زبان سے رسول کے خلاف جو کلمات کہلوائے ہیں وہ گستاخانہ کلمات میری قلم اجازت نہیں دیتی کہ یہاں لکھے جائیں اور یہ ابو محنف واحد راوی ہے جس نے اس حادثہ کربلا پر ایسی روایتیں لکھی ہیں.اپ مزید سنیے.
جیسے جیسے وہ بدن کے حصے کاٹے جاتا حسین چلانے لگتے .
ہائے محمّد ، وائے علی ، ہائے حسن ، وائے جعفر ، ہائے عقیل ، وائے حمزہ ، ہائے عباس ، ہائے غریب الوطنی ، ہائے مدد گاروں کی قلت .
بس اس نے سر کاٹا اور لمبے نیزے پر چڑھا لیا تو لشکرنے تین تکبیریں کہیں .زمین میں زلزلہ آ گیا ، مشرق مغرب میں اندھرا چھا گیا گرج اور زلزلہ کے جھٹکے لگنے لگے آسمان سے تازہ خون برسنے لگا اور آسمان سے آواز آئی کہ،
واللہ امام کے بیٹے امام قتل ہو گئے .امام کے بھائی اور اماموں کے باب حسین .اور اس دن کے علاوہ آسمان سے پھر خون نہیں برسا.(صفحہ 93 مقتل ابی محنف .)
یہ ہے وہ اصل راوی اور اس کی من گھڑت روایت کہ جس کو طبری اور دوسرے مورخین نے نقل کر دیا اور امت کی گمراہی کا سامان مہیا کیا .ابھی میں نے پوری روایت نہیں لکھی کہ میری قلم اجازت نہیں دیتی بہت گستاخیاں کی گئی ہیں ان میں .
طبری نے شمر کی بجاۓ سنان بن انس کا نام لیا ہے کہ اس نے قتل کیا اور سر جدا کیا( جلد 6 صفحہ 260 طبری) .
اور اس طبری سے علامہ ابن کثیر (701-774 ھ) نے نقل کیا جلد 8 صفہ 188 البدایہ و النہایہ
پھر کیا تھا جس نے بھی تاریخ لکھنے کا سوچا تاریخ کیا لکھنی تھی۔بس طبری کی نقل مارتا گیا۔(اور یوں طبری کا قد کذابوں کے گروہ میں بلند ہوتا چلا گیا )
پڑھیں : واقعاتِ کربلا تاریخ دانوں کی نظر میں
عام لوگ تو جذباتی ہوتے ہی ہیں مگر کبھی تو چاہیئے کہ عقل جذبات پر قابو پا کر ہی سوچ لے !
ایک قابل غور بات یہ ہے جو بات آج کل بُری سمجھی جاتی ہے وہ آج سے دس ہزار سال پہلے بھی لوگوں کو بُری لگتی تھی جھوٹ اور دھوکہ بازی سےآج بھی لوگ نفرت کرتے ہیں دو ہزار سال پہلے بھی کرتے تھے ۔
آج بھی ہر ملک کا سیاست دان اور بر سر اقتدار یہی کوشش کرتا ہے کہ عوام میں حکومت کے خلاف نفرت نہ پھیلے حکومت اگر کوئی آپریشن کرے جس میں انسسانی جانوں کا خطرہ موجود ہو تو اس آپریشن کو انتہائی خفیہ رکھا جاتا ہے۔
کل بھی یہی رواج تھا اور پچھلے پانچ ہزار سال کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے ،
آپ ہی کے ملک میں میں نے سنا ہے کہ اگر کوئی خود کش دھماکہ ہو جائے تو مرنے والوں کی تعداد کم سے کم بتائی جاتی ہے تا کہ لا اینڈ آرڈر کہ مسئلے میں حکومت پر الزام نہ آئے.مگر پوری دنیا کی تاریخ میں قتل حسین کے بعد مقتولین کے سروں کی اسلامی ممالک میں تشہیر ایک ایسا انوکھا واقعہ معلوم ہوتا ہے جس میں کہ تمام دنیا کی روایات کے بر عکس عمل کیا گیا ، یعنی امیر یزید کی حکومت ایسی بے وقوف اور جاہل و نا عاقبت اندیش تھی کہ جس کو یہ احساس ہی نہ تھا کہ اس کے اس عمل سے لوگ ڈر کر گھروں میں بیٹھ جائیں گے یا اس ظلم کے خلاف احتجاج ہو گا۔
پچھلی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ہمیشہ حکمرانوں نے عوامی احتجاج کو اہمیت دی اور کسی نے بھی اپنے اس امر کی تشہیر نہ چاہی کہ جس میں عوامی جذبات کو دھچکا لگتا ہو .
اب آخر میں ابو محنف کی زبانی وہ روایت بھی سن لیں ،جو اس جھوٹے نے حضرت حسین جیسے بلند حوصلہ مرد کے قتل ہونے اور سر کاٹے جانے کی گھڑ ڈالی۔
ابو محنف کا بیان ہے کہ جب حضرت حسین زخموں سے نڈھال ہوگئے اور زمین پر گر گئے تو شبث بن ربی قتل کرنے اور سر کاٹنے آیا جیسے ہی آپ نے آنکھ کھول کر اس کی طرف دیکھا تو وہ الٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہوا اور جا کر کہنے لگا ،
" ان کے چہرے سے مجھے رسول الله کے شباہت نظر آتی ہے اس لئے شرم سے بھاگ آیا " .(مقتل ابی محنف، صفحہ 91 )
پھر دوسرا شخص سنان بن انس آیا مگر یہ بھی چہرہ دیکھ کر بھاگ گیا اور اپنے ساتھیوں سے بولا " جب حسین نے میری طرف دیکھا تو اپنے والد علی جیسا لگا مجھے علی کی بہادری اور شجاعت یاد آ گئی اس لئے قتل نہ کر سکا " ۔ (صفحہ 91 .مقتل ابی محنف.)
شمر کے ظلم کی داستان اس کے بعد شروع ہوتی ہے .اس نے اپنےساتھیوں سے کہا تم سب بز دل ہو مجھے تلوار دو محمّد سے شکل ملتی ہو یا علی سے میں تو ان کو ضرور قتل کروں گا ۔(صفحہ 91 . ایضاً)
وہ گیا اور جا کر کہنے لگا،
میں ان میں سے نہیں جو آپ کو قتل کرنے سے باز رہے
یہ بول کر سینے پر چڑھنے لگا تو آپ نے کہا ،
ارے تو کون ہے جو اس بلند مقام پر چڑھتا ہے جو بوسہ گاہ نبی ہے .(صفحہ 91)
اس نے نام بتایا ،
آپ نے پوچھا مجھے جانتا ہے؟
بولا،
ہاں آپ حسین ہیں آپ کے والد علی آپ کی والدہ فاطمہ الزہرہ آپ کے نانا محمّد آپ کی نانی خدیجہ .
نوٹ کریں بالکل پاکستانی پنجابی فلم والے ڈائیلاگ ہیں.اور شمر رشتے میں حضرت حسین کا بھی ماموں لگتا تھا۔
اب سنیں کے ابو محنف نے قتل کی وجہ کیا بیان کی.
پس حضرت حسین نے فرمایا ،
افسوس ہے! تجھ پر مجھے پہچانتا ہے تو قتل کیوں کرتا ہے؟
تو شمر نے کہا ۔
کہ آپ کو قتل کر کے یزید سے انعام پاؤں گا!
حسین نے کہا ،
ان دونوں باتوں میں سے تجھے کون سی بات پسند ہے میرے نانا کی شفاعت یا یزید کا انعام،
تو شمر نے جواب دیا ،
یزید کے انعام کی ایک دمڑی مجھے محبوب ہے بہ نسبت تمھارے نانا اور والد کی شفاعت کے .(صفحہ 92 .مقتل ابی محنف).
جب حضرت حسین کو یقین ہو گیا کہ یہ قتل کرنے سے باز نہیں آے گا تو فرمایا کہ،
اگر قتل ہی کرنا ہے تو پہلے مجھے تھوڑا پانی ہی پلا دے ۔
مگر اس نے کہا کہ ،
اے ابو تراب کے بیٹے تم تو کہتے ہو کہ تیرے والد علی حوض کوثر سے جس کو چاہیں پانی پلائیں گے تو ذرا صبر کر کہ اب تمھارے والد تم کو پانی سے سیراب کرنے ہی والے ہیں۔
تو حسین نے کہا کہ،
ذرا اپنا نقاب تو الٹ دے میں ترا چہرہ دیکھ لوں
اس نے جیسے ہی نقاب الٹا تو آپ نے دیکھا وہ مبروص ، کوڑھ کا مارا ہوا ، ایک آنکھ سے کانا ، منہ ان کا کتے کی تھوتھنی جیسا اور بال سور کے .تو آپ نے فرمایا ،
میرے نانا نے میرے والد سے سچ کہا تھا کہ تیرے اس بیٹے کو قتل کرے گا ایک کوڑھیا کانا جس کی کتے کی سی تھوتھنی ہو گی اور بال سور کے بالوں کے طرح .(صفحہ 92 .ایضا).
اس پر جو ابو محنف نے شمر کی زبان سے رسول کے خلاف جو کلمات کہلوائے ہیں وہ گستاخانہ کلمات میری قلم اجازت نہیں دیتی کہ یہاں لکھے جائیں اور یہ ابو محنف واحد راوی ہے جس نے اس حادثہ کربلا پر ایسی روایتیں لکھی ہیں.اپ مزید سنیے.
جیسے جیسے وہ بدن کے حصے کاٹے جاتا حسین چلانے لگتے .
ہائے محمّد ، وائے علی ، ہائے حسن ، وائے جعفر ، ہائے عقیل ، وائے حمزہ ، ہائے عباس ، ہائے غریب الوطنی ، ہائے مدد گاروں کی قلت .
بس اس نے سر کاٹا اور لمبے نیزے پر چڑھا لیا تو لشکرنے تین تکبیریں کہیں .زمین میں زلزلہ آ گیا ، مشرق مغرب میں اندھرا چھا گیا گرج اور زلزلہ کے جھٹکے لگنے لگے آسمان سے تازہ خون برسنے لگا اور آسمان سے آواز آئی کہ،
واللہ امام کے بیٹے امام قتل ہو گئے .امام کے بھائی اور اماموں کے باب حسین .اور اس دن کے علاوہ آسمان سے پھر خون نہیں برسا.(صفحہ 93 مقتل ابی محنف .)
یہ ہے وہ اصل راوی اور اس کی من گھڑت روایت کہ جس کو طبری اور دوسرے مورخین نے نقل کر دیا اور امت کی گمراہی کا سامان مہیا کیا .ابھی میں نے پوری روایت نہیں لکھی کہ میری قلم اجازت نہیں دیتی بہت گستاخیاں کی گئی ہیں ان میں .
طبری نے شمر کی بجاۓ سنان بن انس کا نام لیا ہے کہ اس نے قتل کیا اور سر جدا کیا( جلد 6 صفحہ 260 طبری) .
اور اس طبری سے علامہ ابن کثیر (701-774 ھ) نے نقل کیا جلد 8 صفہ 188 البدایہ و النہایہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں