بدھ کو پروگرام بنا کہ پڑوسیوں سے ملا جائے ۔ چنانچہ مغرب کے بعد اُن کے ہاں گئے ۔
وہاں معلوم ہوا کہ اُنہوں نے 600 روپے کے دو پودے ، اسلام آباد نرسری سے لا کر اُگائے ہیں ۔ اِس کا مطلب ہوا ، کہ یہاں کی آب و ہوا تو سوہانجنا کے لئے قابلِ قبول ہے ۔
گویا اسلام آباد و راولپنڈی کے گردو نواح میں سوہانجنا کی کاشت کی جا سکتی ہے !
گھریلو ملازمہ نے بڑھیا کو معلومات دی ، کہ ڈی ایچ اے میں کہاں کہاں سوہانجنا کے پودے لگے ہوئے ہیں ۔
بڑھیا نے کہا چلیں سٹریٹ 15 میں سوہانجنا کادرخت ہے دیکھتے ہیں ۔ سٹریٹ 15 تو کیا باقیوں میں بھی نظر نہیں آیا۔ تھک ہار کر سٹریٹ 13 کے آخر میں جاکر واپس ہوئے تو گلی کے شروع میں عین سامنے ایک گھر کے سامنے بلند وبالا سوہانجنا کا درخت نظر آیا ، جس کی چوٹی پر پھلیاں لٹک رہی تھیں اور کچھ پھولوں کے گچھے بھی تھے ۔
بوڑھے نے توڑنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو بڑھیا نے ڈانٹا ،
" یہ کیا کر رہے ہیں ؟"
" بھئی پتے توڑ رہا ہوں اور کیا کر رہا ہوں " بوڑھے نے جواب دیا ۔
"یہ چوری ہے !" بڑھیا نے فتویٰ جڑا ،
" ارے بھئی یہ گھر کے باہر دوسرے پلاٹ میں لگا ہے " بوڑھا بولا ، " چوری کیسے ہوئی ؟"
خیر گھنٹی بجا کر صاحب خانہ سے ملاقات کی ۔ معلوم ہوا سابقہ ای ایم ای ، ویٹرن ہیں، اُنہوں نے نے بوڑھے اور بڑھیا کی دلچسپی دیکھتے ہوئے ایک پودا ، تحفتاً دیا ۔
لیکن اُس سے پہلے بوڑھے اور بڑھیا کو، کرنل امین نے یہ پریزنٹیشن سنائی ، آپ بھی پڑھئیے :
بوڑھے نے اجازت سے کافی ساری پھلیاں لے لیں ۔ اور گھر آکر اُن سے بیج نکالے ۔ جو غلاف میں تھے ۔
بیجوں سے جڑیں پھوٹنے کے عمل کے لئے ، اُنہیں ایک پلاسٹک کے ڈبے میں ، ٹشو پیپر کے اوپر رکھ کر پانی کا چھڑکاؤ کیا ، پھر ایک اور ٹشو پیپر رکھ کر اُس پر دوبارہ پانی کا چھڑکاؤکیا ۔اور ڈبے کو ڈھک دیا ۔
غلاف میں ڈھکے بیجوں کو ایسے ہی ایک پلاسٹک کر ڈبے میں ڈال کر پانی کا اچھا چھڑکاؤ کر کے اُسے بھی ڈھکن سے ڈھک دیا ۔
تیسرے طریقے میں ، غلافی بیجوں کو گملے میں لگایا۔
پہلے غلافی بیجوں کو ، کوکو پیٹ کے اوپر رکھا ، اُن پر پانی کا چھڑکاؤ کیا ، اُسے کے بعد کوکو پیٹ کی تہہ جمائی ، پھر اُس پر بھی پانی کا چھڑکاؤ کیا ۔ اور مٹی کی پلیٹ اوپر اوندھی کرکے ڈال دی ،
تاکہ حبس پیدا ہو اور بیج جلدی اپنی جڑ نکالیں ۔
اب انتظار ہے کہ بیجوں کی جڑیں کب نکلتی ہیں ۔
کرنل صاحب کو گملہ واپس کرنا تھا چنانچہ سوہانجنا کے پودے کو اپنے گملے میں شفٹ کرنے لگے ۔ تو پودے کی مولی نما جڑ نظر آئی ۔
جڑوں کو بھی غذا کے طور پہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ عموماً اچار بنا کے استعمال کیا جاتا ہے۔
باقی خواص کے لئے پڑھیں،
وہاں معلوم ہوا کہ اُنہوں نے 600 روپے کے دو پودے ، اسلام آباد نرسری سے لا کر اُگائے ہیں ۔ اِس کا مطلب ہوا ، کہ یہاں کی آب و ہوا تو سوہانجنا کے لئے قابلِ قبول ہے ۔
گویا اسلام آباد و راولپنڈی کے گردو نواح میں سوہانجنا کی کاشت کی جا سکتی ہے !
گھریلو ملازمہ نے بڑھیا کو معلومات دی ، کہ ڈی ایچ اے میں کہاں کہاں سوہانجنا کے پودے لگے ہوئے ہیں ۔
بڑھیا نے کہا چلیں سٹریٹ 15 میں سوہانجنا کادرخت ہے دیکھتے ہیں ۔ سٹریٹ 15 تو کیا باقیوں میں بھی نظر نہیں آیا۔ تھک ہار کر سٹریٹ 13 کے آخر میں جاکر واپس ہوئے تو گلی کے شروع میں عین سامنے ایک گھر کے سامنے بلند وبالا سوہانجنا کا درخت نظر آیا ، جس کی چوٹی پر پھلیاں لٹک رہی تھیں اور کچھ پھولوں کے گچھے بھی تھے ۔
بوڑھے نے توڑنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو بڑھیا نے ڈانٹا ،
" یہ کیا کر رہے ہیں ؟"
" بھئی پتے توڑ رہا ہوں اور کیا کر رہا ہوں " بوڑھے نے جواب دیا ۔
"یہ چوری ہے !" بڑھیا نے فتویٰ جڑا ،
" ارے بھئی یہ گھر کے باہر دوسرے پلاٹ میں لگا ہے " بوڑھا بولا ، " چوری کیسے ہوئی ؟"
خیر گھنٹی بجا کر صاحب خانہ سے ملاقات کی ۔ معلوم ہوا سابقہ ای ایم ای ، ویٹرن ہیں، اُنہوں نے نے بوڑھے اور بڑھیا کی دلچسپی دیکھتے ہوئے ایک پودا ، تحفتاً دیا ۔
لیکن اُس سے پہلے بوڑھے اور بڑھیا کو، کرنل امین نے یہ پریزنٹیشن سنائی ، آپ بھی پڑھئیے :
Moringa - Trees for Life
کرنل صاحب نے ایک بڑی بوری میں بہت ساری سوکھی پھلیاں جمع کر رکھی تھیں تاکہ اُن میں سے نکلنے والے بیجوں کا تیل نکالا جاسکے !بوڑھے نے اجازت سے کافی ساری پھلیاں لے لیں ۔ اور گھر آکر اُن سے بیج نکالے ۔ جو غلاف میں تھے ۔
بیجوں سے جڑیں پھوٹنے کے عمل کے لئے ، اُنہیں ایک پلاسٹک کے ڈبے میں ، ٹشو پیپر کے اوپر رکھ کر پانی کا چھڑکاؤ کیا ، پھر ایک اور ٹشو پیپر رکھ کر اُس پر دوبارہ پانی کا چھڑکاؤکیا ۔اور ڈبے کو ڈھک دیا ۔
غلاف میں ڈھکے بیجوں کو ایسے ہی ایک پلاسٹک کر ڈبے میں ڈال کر پانی کا اچھا چھڑکاؤ کر کے اُسے بھی ڈھکن سے ڈھک دیا ۔
تیسرے طریقے میں ، غلافی بیجوں کو گملے میں لگایا۔
پہلے غلافی بیجوں کو ، کوکو پیٹ کے اوپر رکھا ، اُن پر پانی کا چھڑکاؤ کیا ، اُسے کے بعد کوکو پیٹ کی تہہ جمائی ، پھر اُس پر بھی پانی کا چھڑکاؤ کیا ۔ اور مٹی کی پلیٹ اوپر اوندھی کرکے ڈال دی ،
تاکہ حبس پیدا ہو اور بیج جلدی اپنی جڑ نکالیں ۔
اب انتظار ہے کہ بیجوں کی جڑیں کب نکلتی ہیں ۔
کرنل صاحب کو گملہ واپس کرنا تھا چنانچہ سوہانجنا کے پودے کو اپنے گملے میں شفٹ کرنے لگے ۔ تو پودے کی مولی نما جڑ نظر آئی ۔
جڑوں کو بھی غذا کے طور پہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ عموماً اچار بنا کے استعمال کیا جاتا ہے۔
باقی خواص کے لئے پڑھیں،
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں