پچھلی قسط کے پہلے حصے میں شمر کا ذکر آیا
تھا تو بہتر لگا کہ اس کا تھوڑا سا تعارف ہو جائے کیوں کہ اس پر بڑے ہی
سنگین الزامات ہیں!
شمر بن ذی الجوشن اور حضرت علی کی زوجہ ام النبین والدہ عباس ، عثمان ،جعفر اور عبدللہ ایک ہی قبیلہ بنو کلب سے تھے۔ شمر کے جد امجد معاویہ اور جن کا لقب الضباب تھا اور ام البنین کے جد امجد عامر بن کلاب دونوں سگے بھائی تھے .(جمہرہ الانساب ابن حزم صفحہ 265 )
ناسخ التواریخ کے مصنف نے ان کی رشتہ داری کی وجہ سے شاید یہ روایت گھڑی ہے کہ لڑائی سے قبل شمر نے یہ کہہ کر کہ کہاں ہیں میرے بھانجے ؟
عبدللہ ،جعفر ،عثمان اور عباس کو امان دی تھی .(صفحہ 241 ناسخ التواریخ)
اور ان کے بھائی حسین کا گلہ کاٹنے کا الزام بھی لگایا ہے۔
شمر اپنے قبیلے کا ایک ممتاز شخص تھا اور عراق کی سیاسی پارٹی کا ہر دل عزیز لیڈر تھا اس پر جو وحشیانہ مظالم کے الزامات خاص کر حضرت حسین کا قتل اور سر جدا کرنے کا الزام بالکل من گھڑت ہیں اور کسی طرح پایہ تحقیق کو نہیں پہنچتے .جنگ صفین میں شمر حضرت علی کے کیمپ کی طرف سے لڑا تھا .ان کے والد ایک جلیل القدر صحابی تھے .(صفحہ 188 جلد 8 البدایہ و النہایہ. ابن کثیر )
السحیل بن حاتم بن شمر بن ذی الجوشن الضبابی الکلابی اندلس کے عالی مرتبت تھے اور صاحب نسل تھے .شمر کے ہی دد یال میں سے مولہ بن کینف رسول الله کے صحابی اور حضرت ابی ھریرہ کے ہم جلیس تھے۔ اسی قبیلہ سے غازی عبد العزیز زرارہ تھے جنہوں نے روم میں عیسائیوں سے جہاد کرتے ہوے شہادت پائی تھی اور ان کے والد کو سید العرب کا خطاب ملا تھا .
ان تفصیلات کی روشنی میں جو سروں کو مختلف علاقوں میں گشت کرانے کے بارے میں ان سبائی راویوں نے بیان کی ہیں ان کے من گھڑت ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہتا . کہتے ہیں کہ سر اس تفصیل سے بھیجے گئے:-
1- قیس بن اشعث سردار بنی کندہ کے ہاتھ 16 سر .
2- شمر بن ذی الجوشن سرہنگ ہوازن کے ہاتھ 12 سر -
3- جماعت بنی تمیم کے ہاتھ 17 سر ۔
4- گروہ بنی اسد 18 سر ۔
5- مردم مذحج 7 سر ۔
6- دیگر قبائل 16 سر -
کل میزان 86 سر ۔
سروں کی یہ تفصیل ناسخ التواریخ سے لی گئی ہے ورنہ مشہور تعداد 72 سر کی ہے،
ناسخ التواریخ نے قیس ابن اشعث کو قبیلہ کندہ کا قائد لکھا ہے۔ لیکن بنو کندہ کے مشہور قائد حضرت اشعث بن قیس کندی صحابی رسول تھے اور وہ حضرت ابو بکر صدیق کے بہنوئی تھے جنگ صفین میں حضرت علی کے کیمپ میں اپنے قبیلہ کے سردار کی حیثیت سے موجود تھے ثالثی کی تجویز کے زبردست حامی تھے۔ جب مالک الاشتر جنگ جاری رکھنے پر تلا ہوا تھا تو انہوں نے دھمکی دی تھی اور حضرت علی سے زبردستی جنگ ملتوی کرائی تھی .(اس کا حال آپ ابتدائی قسطوں میں پڑھ چکے ہیں )
اور ان ہی کی بیٹی جعدہ بنت اشعث حضرت حسن بن علی کی زوجہ تھیں جن پر یہ الزام تراشی کی گئی کہ انہوں نے اپنے شوہر کو زہر دے کر مار دیا تھا .
ان ہی کے بھائی محمّد بن اشعث جو حضرت ابو بکر الصدیق کے حقیقی بھانجے تھے (کتاب نسب قریش صفحہ 44 ) اپنے والد ماجد حضرت اشعث کے ہجری 40 میں فوت ہو جانے کے بعد اپنے قبیلے کے سردار بنے یہ وہی محمّد بن اشعث ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مسلم بن عقیل کو امان کا وعدہ دے کر گرفتار کرا دیا تھا ۔
اور یہ بھی کہتے ہیں کہ کربلا میں حضرت حسین کے مقابل موجود تھے مگر حضرت حسین کی بد دعا سے مر گئے .ان کے کوئی بھائی قیس نام کے نہ تھے اور نہ ہی قائد بنو کندہ ان کے سوا کوئی اور تھا ،قبیلہ کندہ عراق کا زبردست قبیلہ تھا اور اس کے سردار کو زمانہ قدیم سے حاکمانہ اقتدار حاصل تھا اور ان ہی محمّد بن اشعث کے فرزند عبد الرحمن بن محمّد بن اشعث بن قیس تھے جنہوں نے اموی خلیفہ عبد الملک اور ان کے مشہور گورنر حجاج بن یوسف کو حصول خلافت کی گمسان لڑائیوں میں زبردست شکستیں دیں تھیں بالاخر ایک خونیں معرکے میں شکست کھا کر کابل پہنچ کر خاتمہ ہوا .(دے خوے نے اپنے مقالہ میں اس خاندان کو کندہ کا قدیم شاہی خاندان کہا ہے)
ایسے عالی مرتبت خاندان کے سردار کا نام مقتولین کے سر کوفہ اور دمشق لے جانے کے سلسلہ میں لینا، جس ذہنیت کا ثبوت ہے ان من گھرٹ روایتوں کے مضمون سے ہر سمجھدار شخص اس بات کا بخوبی اندازہ کر سکتا ہے.کہ ہر وہ شخص جس کا ذرا سا بھی تعلق حضرت ابو بکر ، حضرت عمر یا حضرت عثمان کے خاندان سے ہے اس پر الزامات کی بارش کر دی گئی ہے ۔ یہاں تک کہ شمر جو حضرت علی کے بچوں کے رشتے میں بھانجے لگتے تھے حضرت حسین کا سر کاٹنے والا مشہور کر دیا.
کیونکہ دوسرے صحابہ اکرام اور تابعین کی طرح ان دونوں نے بھی حضرت حسین کے اقدام خروج کو جائز نہیں جانا تھا.
شمر بن ذی الجوشن اور حضرت علی کی زوجہ ام النبین والدہ عباس ، عثمان ،جعفر اور عبدللہ ایک ہی قبیلہ بنو کلب سے تھے۔ شمر کے جد امجد معاویہ اور جن کا لقب الضباب تھا اور ام البنین کے جد امجد عامر بن کلاب دونوں سگے بھائی تھے .(جمہرہ الانساب ابن حزم صفحہ 265 )
ناسخ التواریخ کے مصنف نے ان کی رشتہ داری کی وجہ سے شاید یہ روایت گھڑی ہے کہ لڑائی سے قبل شمر نے یہ کہہ کر کہ کہاں ہیں میرے بھانجے ؟
عبدللہ ،جعفر ،عثمان اور عباس کو امان دی تھی .(صفحہ 241 ناسخ التواریخ)
اور ان کے بھائی حسین کا گلہ کاٹنے کا الزام بھی لگایا ہے۔
شمر اپنے قبیلے کا ایک ممتاز شخص تھا اور عراق کی سیاسی پارٹی کا ہر دل عزیز لیڈر تھا اس پر جو وحشیانہ مظالم کے الزامات خاص کر حضرت حسین کا قتل اور سر جدا کرنے کا الزام بالکل من گھڑت ہیں اور کسی طرح پایہ تحقیق کو نہیں پہنچتے .جنگ صفین میں شمر حضرت علی کے کیمپ کی طرف سے لڑا تھا .ان کے والد ایک جلیل القدر صحابی تھے .(صفحہ 188 جلد 8 البدایہ و النہایہ. ابن کثیر )
السحیل بن حاتم بن شمر بن ذی الجوشن الضبابی الکلابی اندلس کے عالی مرتبت تھے اور صاحب نسل تھے .شمر کے ہی دد یال میں سے مولہ بن کینف رسول الله کے صحابی اور حضرت ابی ھریرہ کے ہم جلیس تھے۔ اسی قبیلہ سے غازی عبد العزیز زرارہ تھے جنہوں نے روم میں عیسائیوں سے جہاد کرتے ہوے شہادت پائی تھی اور ان کے والد کو سید العرب کا خطاب ملا تھا .
ان تفصیلات کی روشنی میں جو سروں کو مختلف علاقوں میں گشت کرانے کے بارے میں ان سبائی راویوں نے بیان کی ہیں ان کے من گھڑت ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہتا . کہتے ہیں کہ سر اس تفصیل سے بھیجے گئے:-
1- قیس بن اشعث سردار بنی کندہ کے ہاتھ 16 سر .
2- شمر بن ذی الجوشن سرہنگ ہوازن کے ہاتھ 12 سر -
3- جماعت بنی تمیم کے ہاتھ 17 سر ۔
4- گروہ بنی اسد 18 سر ۔
5- مردم مذحج 7 سر ۔
6- دیگر قبائل 16 سر -
کل میزان 86 سر ۔
سروں کی یہ تفصیل ناسخ التواریخ سے لی گئی ہے ورنہ مشہور تعداد 72 سر کی ہے،
ناسخ التواریخ نے قیس ابن اشعث کو قبیلہ کندہ کا قائد لکھا ہے۔ لیکن بنو کندہ کے مشہور قائد حضرت اشعث بن قیس کندی صحابی رسول تھے اور وہ حضرت ابو بکر صدیق کے بہنوئی تھے جنگ صفین میں حضرت علی کے کیمپ میں اپنے قبیلہ کے سردار کی حیثیت سے موجود تھے ثالثی کی تجویز کے زبردست حامی تھے۔ جب مالک الاشتر جنگ جاری رکھنے پر تلا ہوا تھا تو انہوں نے دھمکی دی تھی اور حضرت علی سے زبردستی جنگ ملتوی کرائی تھی .(اس کا حال آپ ابتدائی قسطوں میں پڑھ چکے ہیں )
اور ان ہی کی بیٹی جعدہ بنت اشعث حضرت حسن بن علی کی زوجہ تھیں جن پر یہ الزام تراشی کی گئی کہ انہوں نے اپنے شوہر کو زہر دے کر مار دیا تھا .
ان ہی کے بھائی محمّد بن اشعث جو حضرت ابو بکر الصدیق کے حقیقی بھانجے تھے (کتاب نسب قریش صفحہ 44 ) اپنے والد ماجد حضرت اشعث کے ہجری 40 میں فوت ہو جانے کے بعد اپنے قبیلے کے سردار بنے یہ وہی محمّد بن اشعث ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مسلم بن عقیل کو امان کا وعدہ دے کر گرفتار کرا دیا تھا ۔
اور یہ بھی کہتے ہیں کہ کربلا میں حضرت حسین کے مقابل موجود تھے مگر حضرت حسین کی بد دعا سے مر گئے .ان کے کوئی بھائی قیس نام کے نہ تھے اور نہ ہی قائد بنو کندہ ان کے سوا کوئی اور تھا ،قبیلہ کندہ عراق کا زبردست قبیلہ تھا اور اس کے سردار کو زمانہ قدیم سے حاکمانہ اقتدار حاصل تھا اور ان ہی محمّد بن اشعث کے فرزند عبد الرحمن بن محمّد بن اشعث بن قیس تھے جنہوں نے اموی خلیفہ عبد الملک اور ان کے مشہور گورنر حجاج بن یوسف کو حصول خلافت کی گمسان لڑائیوں میں زبردست شکستیں دیں تھیں بالاخر ایک خونیں معرکے میں شکست کھا کر کابل پہنچ کر خاتمہ ہوا .(دے خوے نے اپنے مقالہ میں اس خاندان کو کندہ کا قدیم شاہی خاندان کہا ہے)
ایسے عالی مرتبت خاندان کے سردار کا نام مقتولین کے سر کوفہ اور دمشق لے جانے کے سلسلہ میں لینا، جس ذہنیت کا ثبوت ہے ان من گھرٹ روایتوں کے مضمون سے ہر سمجھدار شخص اس بات کا بخوبی اندازہ کر سکتا ہے.کہ ہر وہ شخص جس کا ذرا سا بھی تعلق حضرت ابو بکر ، حضرت عمر یا حضرت عثمان کے خاندان سے ہے اس پر الزامات کی بارش کر دی گئی ہے ۔ یہاں تک کہ شمر جو حضرت علی کے بچوں کے رشتے میں بھانجے لگتے تھے حضرت حسین کا سر کاٹنے والا مشہور کر دیا.
کیونکہ دوسرے صحابہ اکرام اور تابعین کی طرح ان دونوں نے بھی حضرت حسین کے اقدام خروج کو جائز نہیں جانا تھا.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭واپس ۔شیطان نامہ ۔ فہرست ٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں