پانچویں جماعت تک ھم سلیٹ پر جو بھی لکھتے تھے اسے زبان سے چاٹ کر صاف کرتے ، یوں کیلشیم کی کمی کبھی ہوئی ہی نہیں ۔
پاس یا فیل ۔ صرف یہی معلوم تھا، کیونکہ فیصد سے ہم لا تعلق تھے۔
ٹیوشن شرمناک بات تھی اور نالائق بچے استاد کی کارکردگی پر سوالیہ نشان سمجھے جاتے۔
کتابوں میں مور کا پنکھ، چینی کے ساتھ رکھنے پرہماری ذہانت اور ہوشیاری میں اضافہ ہوتا ،، یہ ہمارا اعتقاد بھروسہ تھا۔
بیگ میں کتابیں سلیقہ سے رکھنا سگھڑ پن اور با صلاحیت ہونے کا ثبوت تھا۔
ہر سال نئی جماعت کی کتابوں اور کاپیوں پر کورز چڑھانا ایک سالانہ تقریب ہوا کرتی تھی۔
والدین ہمارے تعلیم سے زیادہ فکرمند نہ ہوا کرتے تھے اور نہ ہی ہماری تعلیم ان پر کوئی بوجھ تھی، خدا جھوٹ نہ بلوائے والدصرف کچی جماعت میں ہمیں سکول داخل کروانے گئے اور گوشت و چمڑی کا ہدیہ ہیڈ ماسٹ صاحب کے نام ہبہ کرکے آگئے اُس کے بعد سالہا سال ۔ہمارے اسکول کی طرف رخ بھی نہیں کیا ، کیونکہ ہم میں کھال بچانے کی ذہانت تھی۔
کھیل میں مار کھانا، ہمارے روزمرہ زندگی میں عام سی بات تھی ، مارنے والا اور مار کھانے والا دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی شکایت نہ ہوا کرتی تھی۔
ہم اپنے والدین سے کبھی نہ کہے سکے کہ ہمیں ان سے کتنی محبت ہے ۔ نہ باپ ہمیں کہتا تھا ۔ کیونکہ I LOVE YOU کہنا ہمیں معیوب لگتا تھا ۔
کیونکہ تب محبتیں زبان سے ادا نہیں کی جاتی تھیں بلکہ محسوس ہوا کرتی تھیں۔
رشتوں میں چاپلوسی نہ تھی، بلکہ وہ خلوص اور محبت سے سرشار ہوا کرتے تھے۔
سچائی یہی ھے کہ ہمارے زمانے میں سبھی افراد اپنی قسمت پر ہمیشہ راضی ہی رہے، ہمارا زمانہ خوش بختی کی علامت تھا ، اس کا موازنہ آج کی زندگی سے کر ہی نہیں سکتے۔
٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں