Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 1 اکتوبر، 2023

ہمارا زمانہ ۔ یادش بخیر

پانچویں جماعت تک ھم  سلیٹ پر جو بھی لکھتے تھے اسے زبان سے چاٹ کر صاف کرتے ، یوں کیلشیم کی کمی کبھی ہوئی ہی نہیں ۔ 
پاس یا فیل ۔ صرف یہی معلوم تھا، کیونکہ فیصد سے ہم لا تعلق تھے۔
ٹیوشن  شرمناک بات تھی اور نالائق بچے استاد کی کارکردگی پر سوالیہ نشان سمجھے جاتے۔
کتابوں میں مور کا پنکھ، چینی کے ساتھ رکھنے پرہماری ذہانت  اور ہوشیاری میں اضافہ ہوتا ،، یہ ہمارا اعتقاد بھروسہ تھا۔
بیگ میں کتابیں سلیقہ سے رکھنا سگھڑ پن اور با صلاحیت ہونے کا ثبوت تھا۔
ہر سال نئی جماعت کی کتابوں اور کاپیوں پر کورز چڑھانا ایک سالانہ تقریب ہوا کرتی تھی۔
والدین ہمارے تعلیم  سے زیادہ فکرمند نہ ہوا کرتے تھے اور نہ ہی ہماری تعلیم ان پر کوئی بوجھ تھی، خدا جھوٹ نہ بلوائے  والدصرف کچی جماعت میں ہمیں سکول داخل کروانے گئے اور گوشت و چمڑی کا ہدیہ ہیڈ ماسٹ صاحب کے نام ہبہ کرکے آگئے  اُس کے بعد سالہا سال ۔ہمارے اسکول کی طرف رخ بھی نہیں کیا ، کیونکہ ہم میں کھال بچانے کی  ذہانت  تھی۔

اسکول میں مار کھاتے ہوئے  یا مرغا بنتے  ہوئے کبھی ہماری  اَنا  (ego)  مجروح نہیں ہوئی ، لہذا خودی بیچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

کھیل میں  مار کھانا، ہمارے روزمرہ زندگی میں  عام سی بات تھی ، مارنے والا اور مار کھانے والا دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی شکایت نہ ہوا کرتی تھی۔
ہم اپنے والدین سے کبھی نہ کہے سکے کہ ہمیں ان سے کتنی محبت ہے ۔ نہ باپ ہمیں کہتا تھا ۔  کیونکہ     I LOVE YOU کہنا  ہمیں معیوب    لگتا تھا ۔
 کیونکہ تب محبتیں زبان سے ادا نہیں کی جاتی تھیں بلکہ  محسوس ہوا کرتی تھیں۔
رشتوں میں چاپلوسی نہ تھی، بلکہ وہ خلوص اور محبت سے سرشار ہوا کرتے تھے۔
سچائی یہی ھے کہ ہمارے زمانے میں  سبھی افراد اپنی قسمت پر ہمیشہ راضی ہی رہے، ہمارا زمانہ خوش بختی کی علامت تھا ، اس کا موازنہ آج کی زندگی سے کر ہی نہیں سکتے۔

٭٭٭٭٭

٭۔ بوڑھے کا بچپن اور پرچونی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔