Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 3 اپریل، 2014

زندگی کا فن- ہستی ہر جاہ موجود -3


ہستی ہر جاہ موجود  (Omani-presence)اور  ”ہستی“ہر تخلیق کی حتمی حقیقت ہے اورتخلیق کی تمام پرتوں میں موجودہے۔یہ الفاظ، شامعہ (Smell) ، ذائقہ(Taste) ، لمسہ (Touch) ، تجربہ، حسِ اندازہ،  عمل اعضاء ، تمام مظاہر ِعامل اور افعال نیز تمام سمت میں خو ش قسمتی سے موجود ہوتی ہے۔  یہ انسان کے سامنے، پشت پر، اس کے دائیں و بائیں، اوپر اور نیچے، یہاں تک کہ اس کے اندر موجود ہوتی ہے۔ ہر جگہ اور ہرحالت میں ”ہستی“ تخلیق کا اہم جزو ہے اور اس میں داخل ہے،  خدا کی ہر جاہ موجودگی ان کے لئے ہے جو اسے سمجھتے ہیں، محسو س کرتے ہیں اور اسے اپنی زندگیوں میں زندہ رکھتے ہیں۔

    تمام تخلیقات، میدان شعور کی مختلف اقسام اور مظاہر ہیں۔ شعور، خالص ہستی  کے مرکزسے نکلنے والی،حرارتی لہریں ہیں۔ مثلاً، بجلی کی کرنٹ بلب میں پہنچ کر،حرارتی لہر بننے کے بعد روشنی کی شعاع میں تبدیل ہوتی ہے، یہ شعاع جب اپنی منبع سے نکلتی ہے تو اس کی قوت کمزورپڑتی جاتی ہے یہاں تک کہ یہ بالکل معدوم ہو جاتی ہے۔  اسی طرح”ہستی“کی ناقابل ضیاع بیٹری سے نکلنے والی، شعوریتِ عطا ء   (
Bliss-Consciousness)  لہریں پھیلاتی ہے جو اپنے منبع سے دور جا کر معدوم ہو جاتی ہیں۔ اس طرح شعوریتِ عطا ء  تمام ناقابلِ فہم اور زندگی کی عمومی اقسام میں ظاہر ہوتی ہے۔

    وہ جن کے دل و دماغ، پختگی تک نہیں پہنچتے، ان کی بصار ت عمومی ہوتی ہے وہ صرف سطحی اقدار سے شناسا ہوتے ہیں۔وہ صرف مادے اورتوانائی کی خوبیاں ڈھونڈتی ہیں۔ وہ ہرجاہ موجود ہستی کی معصومیت نہیں ڈھونڈ پاتے، ہستی کی نرماہٹ جو کسی بھی نسبتی نرماہٹ سے بالا تر ہے۔ وہ توانائے کل ہستی کی  معصومیت اور غیر متبدل میعار سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے،جومادے اور توانائی، ذہن اور انفرادیت کی عام اقسام اور مظاہر سے بالا تر ہے۔

    خالص ہستی، اپنے میعار اورکائینات میں ضروری معاون ہونے کی وجہ سے، ماورائی فطرت کی مانند ہے۔ یہ کائینات کی لطیف تخلیق سے زیادہ لطیف ہے،  اس کی فطرت نہیں کہ یہ حواس پر ظاہر ہو، حواس موجود حقیقت، کے تجربے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ اور یہ دماغ کی سمجھ پر بھی آشکارا نہیں ہوتی کیوں کہ دماغ کے اکثر حصے حواس سے منسلک ہوتے ہیں۔ دماغ کی بناوٹ ایسی ہے کہ جو اسے بیرونی دنیا میں موجود مظاہر اورحواس سے رابطہ کرنے والی معلومات سے سے متعارف کرواتی ہے، جس کو یہ اس کے لئے مخصوص کرتا ہے۔

    تجربے سے ظاہر ہے کہ ہستی، دماغ کی بنیادی ضروری فطرت ہے۔ لیکن کیوں کہ دماغ توبیرونی دنیا  موجودحقیقت سے حواس کے ذریعے متعارف ہوتا ہے، لہذا یہ اپنی بنیادی فطرت کو سرہانے کے لئے یا تو ناکام ہوتا ہے یا ضائع کر دیتا ہے، جیسے آنکھ تو سب کو دیکھتی ہے لیکن خود اپنا ادراک کرنے سے عاری ہے۔ اسی طرح تما م اشیاء  کا دماغ کی ضروری فطرت سے تعلق ہے جو ہرجاہ ہستی ہے، حتیٰ کہ دماغ میدانِ ظاہرمیں موجود، مختلف النوع اشیاء  میں مصروف ہوتا ہے، لیکن دماغ ہستی کو نہیں سراہتا حالانکہ یہ بنیادی اوراہم معاون ہے۔ ہستی ہر شئے کی جڑ ہے لیکن یہ خود کو منوائے اور ظاہر کئے بغیرحیات اور تخلیق کی مدد کرتی ہے۔ وقاراور تحیّر اس کی معصومیت ہیں،  توانائے کل (
Almighty) ، ہر جا موجود فطرت،انسان میں خودی، ذہانت، ذہن، حسیات، جسم اور ماحول، اساس کی صورت میں موجود ہے۔ لیکن یہ لازمی نہیں حالانکہ یہ ہر تخلیق ہے نیچے پنہاں ہے۔

ٰ    اس کی مثال ایک طاقتور بزنس مین کی دی جا سکتی ہے، جو نظر نہیں آتا لیکن ہر بزنس کو بہترین طریقے سے قابو اور منظم رکھتا ہے۔ اس کو دیکھنے کے لئے اسے بزنس کے معاملات سے الگ تنہائی میں ملنا ہوگا، اسی طرح کائینات کا نظام سنبھالنے والا، ہر شئے پر اثر انداز، ہر کائیناتی معمولات کی اساس میں اور مظاہر میں موجود رہتا ہے، ہرایک اور ہر شئے کے کے دل کے خاموش خانے میں بستا ہے۔یہ ہر جاموجود، ہستی جو اپنی فطرت کو تنہائی میں دنیا کے ہجوم سے پوشیدہ رکھنے کی ذمہ دار ہے، یہ ہر جاموجود، ہستی، حجاب کے پیچھے پوشیدہ رہ کر، علام الغیوب، قادر مطلق، اعلیٰ شہنشاہ ِ کائینات ہے۔

    شہنشاہ ِ کائینات، ہر دل میں بستا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ کوئی مشکلات میں تو نہیں ہے تاکہ محبت کی سیل رواں، خوشیاں اور ارتقاء برقرار رہے، حاظر وناظر شہنشاہ ِ کائینات اتنا رحم دل ہے، کہ وہ فطرت پر عمل پیرا رہتا ہے۔ اْسے کوئی اس کو اْس سے جدا نہیں کر سکتا، یہ حاظر و ناظرہستی جس کی حیات جادوانی ہے اور جاودانی حیات کا جوہر ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔