Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 2 جولائی، 2014

میں ڈاکٹر بنوں گا !




نوجوان کون سی کلاس میں پڑھتے ہو ؟
"جی آٹھویں کلاس میں "اُس چودہ سالہ بچے نے میرے سوال کا جواب ججھکتے ہوئے دیا
"کیا بنو گے بڑھے ہوکر ؟" میں نے پوچھا
"ڈاکٹر" اُس نے یک دم جواب دیا
میں نے اُس کی طرف غور سے دیکھا ،
"آٹھویں میں کتنے نمبر آئے ہیں ؟"
" دوسو پینتیس " اُس نے جواب دیا
" کیوں ، 480 کیوں نہیں ؟" میں نے پوچھا 

" جی محنت نہیں کی تھی " اُس نے جواب دیا ۔
"والد کیا کرتے ہیں ؟" میں نے پوچھا
" جی قاصد ہیں " اُس نے بتایا ۔
" یہاں کس لئے آئے ہو ؟" میں نے پوچھا
" جی میری بہن یہاں کمپیوٹر کا کورس کرنے آئی ہے " اُس نے جواب دیا
میں سکستھ روڈ راولپنڈی پرپچھلےجمعہ کو ایک کالج میں گیا تھا ، وہ بچہ ، استقبالیہ میں کرسی پر بیٹھا تھا  اور اپنی سوچوں میں مگن تھا ، پندرہ منٹ بعد اپنے کام سے فارغ ہو کر اُسے دیکھا تو وہ اُسی طرح بیٹھا تھا ، لہذا میں نے حسبِ عادت اُس کے ذہن کو جانچنے اور اور اُس کے   مستقبل لائحہ عمل جانچنے کے لئے میں نے اُس سے باتیں شروع کیں ۔تو اُس نے مجھے جو باتیں بتائیں اُس سے مجھے اندازہ ہو گیا ، کہ یہ اُن خوش فہم بچوں میں سے ہے ، جس کی آنکھوں میں ڈراموں ، فلموں اور قصے کہانیوں نے خوش کُن خوابوں کے جزیرے بسا دئیے ہیں ۔اور مجھے اندازہ تھا کہ یہ بچہ نجانے کتنے بچوں کی طرح بلند اُڑان کے خواب دیکھتے ہوئے ، شاید اُڑنا ہی بھول جائے ۔ اور شاید میٹرک کر لے یا 55 فیصد بچوں کی طرح ہمت ہار بیٹھے اور ڈراپ آوٹ  ، فہرست میں شامل ہو کر والدین پر بیٹیوں سمیت بوجھ بن جائے ۔
غالباً دس سال ہو گئے ہیں ، کہ میں اپنے فالتو وقت میں کسی سکول یا کالج میں اُن کے تین گھنٹے لیتا ہوں اور بچوں کو سمجھاتا ہوں ، کہ وہ اتنا ہی وزن اُٹھا سکیں گے ، جتنا کہ اُن کی ہمت ہے ۔ اِس میں بچہ خود ، سکول ، والدین اور سوسائیٹی اُس کی ہمت کو سہارا دے سکتے ہیں ۔ کچھ ذہانت کے ٹیسٹ بھی میں نے بنائے ہیں جن سے بچے کی تعلیمی قابلیت کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے ۔ جب میں اُن کی کونسلنگ کرتا ہوں تو  مجھے اندازہ ہو جاتا ہے ۔ کہ وہ:ـ
 ریس کا گھوڑا بنیں گے یا پولو کا اور یا پھر وہ تانگے میں جُت جائیں گے
یہ بچہ بھی میرے نزدیک ایک تانگے کا گھوڑا تھا ، جس نے ساری عمر  اپنے باپ کی طرح سواریاں کھینچنی تھیں، اُس کو خوابوں کی دنیا سے نکالنے کا ایک ہی طریقہ تھا ۔ چنانچہ میں نے وہ آزمایا اور اُسے بتایا ، کہ تین بہنوں کا یہ اکلوتا بھائی  ، یقیناً ڈاکٹر بن سکتا ہے اگر :-
1- یہ میٹرک میں 85 فیصد سے اوپر نمبر لے ابھی وہ 47 فیصد پر ہے ۔  یہ 38 فیصد کا فرق مٹانے کے لئے   76 فیصد محنت کرنا پڑے گی ۔ورنہ اُسے میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں ملے گا
2- لیکن اگر وہ 15 سے 20 لاکھ کا انتظام کر سکتا ہے تو پھر شائد اُسے 65 فیصد نمبر پر میڈیکل کالج میں داخلہ مل جائے ۔
اگر تم واقعی  ڈاکٹر بننا چاھتے ہو تو ہم ، دوسری آپشن کو ختم کرتے ہیں کیوں کہ تمھارے والد نے بہنوں کی شادیاںکرنا ہیں اور اُس کے بعد رقم کا انتظام  4 سالوں میں ممکن نہیں ۔
تو پہلے آپشن پر عمل کرنے کے لئے ، تم کل جب بہن کے ساتھ آؤ تو اپنی ، کتابیں ساتھ لیتے آؤ ۔ یہ میڈم تمھیں چیک کریں گی ، کہ جو کام میں تمھیں دوں ، وہ تم کرتے ہو یا نہیں ۔
اگلے دن ، جب میں دوبارہ کالج میں گیا ، تو ریسیپشنسٹ سے معلوم ہوا ، کہ وہ بچہ نہیں آیا ۔ میں نے اُس کی بہن کو بلایا اور اُس کے بھائی کے متعلق پوچھا ، تو اُس  نے بتایا  کہ معلوم نہیں کیوں وہ اب اسے گیٹ سے باہر چھوڑ کر چلا جاتا ہے ، اندر نہیں آتا ، شاید یہاں اُسے کسی نے کچھ کہا ہے ۔ جس پر میں نے اُسے ساری بات بتائی  تو اُس بچی کے چہرے پر دکھ کی ایک لہر گذر گئی ۔

دکھ کی یہ لہریں میں نے بے شمار ماؤں اور بہنوں کے چہروں پر دیکھی ہیں کیوں کہ وہ سب  ، سپنوں میں اپنے لاڈلے بھائیوں  اور بیٹوں کو ، ایسی کرسیوں پر بیٹھا دیکھتی ہیں ، کہ جس پر بیٹھنے کے لئے ، ماؤں اور بہنوں کی دعاؤں کی نہیں ، بلکہ ایسی دواؤں کی ضرورت ہوتے ہے ، جن  سے بننے والے کے کشتے کا نام محنت ہے ۔
 کیا اِس کا علاج ہے ؟


 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

میں مکینک بننا چاھتا تھا

 

 

 

 

2 تبصرے:

  1. ایسے بچوں کو نفسیاتی معالجین کی ضرورت ھوتی ہے کیونکہ غربت کی تلخیوں کی وجہ سے ان کی شخصٰت عجب قسم کے مفروضروں ، خواہشات اور اوہام کا ایک تخیلاتی مجموعہ بن کر رہ جاتی ہے ۔
    سر یہ تبصرے کے خانے میں تبصرہ پوسٹ کرتے ہوئے جو ورڈ ویریفیکیشن آتا ھے اسے تو ہٹا دیں

    جواب دیںحذف کریں
  2. فرسودہ اور طبقاتی نظامِ تعلیم ، گھر والوں کی بے جا امیدیں اور معاشرتی رویّے ان بچوں کو نہ گھر کا چھوڑتے ہیں نہ گھاٹ کا

    جواب دیںحذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔