Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 1 جولائی، 2014

کلمہ پڑھا ہوا ہے !

یہ  1970 کا ذکر ہے ، جب  پاکستانی ابنِ بطوطہ  کندھے پر بیگ رکھتا ۔ کوئٹہ سے ایران  او ر تہران  میں پاسپورٹ گم ہونے کا ڈرامہ رچا کر ، کچھ ہاتھ میں تھما کر  پرمٹ  و پاسپورٹ بنواتا اور جہاں اُس کا معاشی سورج ڈوبتا وہاں ڈیرہ ڈال دیتا ، کیوں کہ اُس کی جیب میں ، ایک  مارک یا پونڈ یا ڈالر بچتا تھا ۔
وائپر اُٹھا کر وہ محنت میں جُت جاتا ، کیوں کہ سب سے زیادہ معاوضہ اِسی کام میں ملتا  تھا ۔
 پھر کسی بار میں ، کسی  گوری چمڑی والی ،مقامی  خاتون سے دوستی ہوجاتی ، جو اپنے گاؤں سے آئی ہوتی  اور کسی اپنے ہم وطن کی مسٹریس ہوتی ۔ دونوں کی پیپر میرج ہوتی اور پردیسی کو دیسی ہونے کا اجازت نامہ  مل جاتا ۔ 
پاکستان سے ہر جانے والا ، عورت   کی جنسی آزادی کا دلداہ ہوتا تھا ،  عورت چاہے دوسرے کی بیوی ہو یا مطلقہ  ، خود چاہے داڑھی والا ہو یا کلین شیو  ۔   
شادی کے بعد ،  بیوی کو پاکستان لانا   ایسا ہی تھا جیسا افغانیوں کا سومناتھ کا دروازہ  اٹھا کر کابل لے جانا  !
یہ کہانی بھی اِسی تناظر میں کسی  " کلمہ گو " نے لکھی ہے پڑھیں اور لطف اندوز ہوں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہمارے ایک دوست تھے ، ذہن اسلامی ، چہرہ غیر اسلامی ، موصوف روزگار کے لئے انگلینڈ تشریف لے گئے ،پانچ سال  ماں باپ کو پیسے بھجوائے ، باپ نے گھر کھلا اور اونچا بنا لیا ۔  واپس آئے تو بغل میں میم تھی ۔
یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح   ملک میں بسنے والے رشتہ داروں ، جاننے والوں اور محلہ داروں میں پھیل گئی !
" ارے سنا ہے ،  شیدا  میم لے کر آیا ہے " 
میم کو دیکھنے کے لئے  ، دور دراز سے رشتہ دار  خواتین آنے لگیں ،  رشید احمد  کا تعلق   مذہبی گھرانے سے تھا ، اماں اور بہنیں  باہر نکلتے وت چادریں لیتیں  ۔ 
محلّے  کی روعتیں اور لڑکیاں بالیاں ، سروں پر چادریں  لیے ،  کن انکھیوں سے  پاکستانیوں سے زیادہ  گوری اور نیلی آنکھوں والی   میم کو دیکھتیں ۔ہاتھ لگانے سے ڈرتیں کہیں میلی نہ ہو جائے !

ببّن  میاں کی بہنیں فخریہ سہیلیوں کو بتاتیں ،
" بھیا انگلینڈ سے نیلی آنکھوں والی میم لائے ہیں ۔ " 
شیدے   نے  ابّا کو کہہ کر  پہلی منزل پر اپنا کمرہ بنوایا تھا ، جس کے چاروں طرف شیشے والی کھڑکیاں تھیں ،پورے  محلّے میں کل چار   گھر تھے جنہوں نے  پہلی منزل بنوائی تھی ،کئی چھتیں  کھلی تھیں اور کئی گروں نے چھپ ڈالے ہوئے تھے تاکہ بارش  کے دنوں میں چارپائیاں نیچے کر لی جائیں ۔  بچے تو اُس کمرے سے نکلتے ہی نہیں تھے  اور محلّے کے چھورے  اپنی چھتوں پر ٹکے گئے  ۔ 
اماں چٹّی ان پڑھ ، انگلش کیا جانیں ؟ لیکن خاندانی رسم و رواج کی لاج رکھتے ہوئے ،ڈرتے ڈرتے  بہو کو  روایتاً  ، برقع ، دوپٹہ اور سوٹ دیا ۔کہ پتا نہیں میم کو کیسا لگے ،  بلائیں لیں  !
ابّا جی نے فقط ایک سوال کیا ،
" مسلمان کیا ہے ؟"
" جی ابا جی ، اہلِ کتاب ہے اور کلمہ پڑھا   ہوا ہے "
اِس پر ابا جی مطمئن ہو گئے اور اپنی ٹوپی اٹھا کر مسجد  نماز پڑھنے چلے گئے ۔
یوں انگلینڈ کی میری  پاکستان میں مریم بن گئی ۔ 
مشترکہ خاندانی نظام تھا ۔ پہلے تو بہو  اپنے کمرے میں رہتی اور سیڑھیوں سے شیدے  کو گڈ بائے کہتی ۔ 
دو ہفتے بعد اِک نیا کام شروع ہوا ، میم  بیرونی دروازے تک آتی  ،ببّن  میاں کی باہوں میں جھول جاتی ، اور ہونٹوں  پر پیار کی  ایک مُہر ثبت کرتی، گھر میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں ۔
رشید میاں نے ابّا کے  استفسار پر بتایا ،
" سمجھ جائے گی کلمہ پڑھا ہوا ہے "
گرمیاں شروع ہوئیں اور اوپر رہنا محال ہو گیا  تومریم نے  پینٹ اتاری اور نیکرپہننا شروع کردی ۔ قمیض کی جگہ آدھے بازو والی شرٹ  نے لے لی ، پاکستانیت کی لاج رکھنے کے لئے اماں کا دیا ہوا دوپٹہ گردن میں لٹکا لیتی  ۔ 
ابّا جی نے کمرے سے نکلنا چھوڑ دیا   ، بھائی رات کو دیر سے گھر آتے  اور امّاں دیواروں کو تکتیں کہ کہیں چھوٹی تو نہیں رہ گئیں ۔
بیٹے سے شکّوہ کیا  تو بیٹا بولا،" کلمہ پڑھا ہوا ہے " ۔
 رشتہ داروں  کی ایک شادی میں، ناچنے والیوں کا بے ڈھنگا  ڈانس رہ کر مریم سے نہ رہا گیا اور میری بن کر نوجوانوں کے ساتھ   ڈانس کا ایسےا علیٰ نمونہ پیش کیا  کہ بڑے بڑے دل تھام کر رہ گئے ۔ 
 ایک بزرگ کے پوچھنے پر بتایا ، " کلمہ پڑھا ہوا ہے " ۔ 
 عید آئی تو بڑے  تزک و احتشام سے منائی  کرسمس آیا تو گھر میں چار چاند لگا دئیے ،  پوچھنے پر رشیدمیاں نے بتایا  ۔ 
" جس طرح ہم عید میلا النبی مناتے ہیں ، اِسی طرح اہل کتاب  عید ِ عیسیٰ علیہ السلام مناتے ہیں ۔ ویسے ، " کلمہ پڑھا ہوا ہے " ۔
وقت گذرتا گیا ، گھر والوں کی برداشت کی یواریں بھی بلند ہو چکی تھیں ۔ بچہ پیدا ہوا ،  نام بڑی آسانی سے داؤد  و سلیمان نبی کے نام پر رکھا گیا ، جس پر اعتراض ممکن ہی نہیں تھا ، یہ اور بات کہ مریم ، کبھی ڈیوڈ اور کبھی سولومن پکارتی ، جو گھر والوں کے لئے بھی پیار کے نام  دودی یا سلّو  بن گئے ۔ 
بچے کی چڑیا اُڑانے کا پروگرام بنا ، مریم نے صاف انکار کردیا ،
" یہ ظلم ہے !" 
رشید میاں ، کھسیانی ہنسی کے ساتھ بولے ،
" سمجھ جائے گی ، " کلمہ پڑھا ہوا ہے " ۔
 ڈانس ، میوزک م فلمیں ، کاک ٹیل پارٹیز گھر کے کلچر کا حصہ بنتے گئے ، مریم بھابی نے ، دیوروں کو بھی فری کر لیا ۔  ہاتھوں پر ہاتھ مار کر باتیں کرنا ۔
رہی بہنیں تو وہ مریم کے کمرے میں جاکر ، اُس کی پینٹ  اور شرٹ پہنتیں اور شیشے میں خود کو مختلف پوز بنا کر دیکھتیں اور ہنستیں ۔ کیوں کہ " کلمہ  تو اُنہوں نے بھی پڑھا ہوا ہے " ۔
 بھابی سے دل کھول کر "ہر بات کی جاتی" ، بھابی بھی مشورے دیتی ۔
مریم ، باقی نمازیں نہ پڑھے ، جمعہ باقاعدگی سے پڑھتی ، ابّا بھی مطمئن ہوگئے تھے ، کہ
" بہو نماز بھی پڑھتی ہے اور کلمہ پڑھا ہوا ہے " ۔
 بازار جاتی تو جین  اور شرٹ کے ساتھ  سر پر  گہرے رنگ کی چادر لے لیتی ، دیکھنے والے دیکھ کر اندازہ کر لیتے کہ

" کلمہ پڑھا ہوا ہے " ۔مغرب سے آئی ہوئی ، جمہوریت     جب پاکستان میں آئی تو اُس کے ساتھ " اسلامی " کا اضافہ  کیا  ، کیوں کہ اُس نے  بھی  " کلمہ پڑھا ہوا ہے " ۔
اتنی گوری اتنی چٹّی کہ ہاتھ لگانے سے ڈر لگتا کہیں ہاتھ نہ جل جائے ۔ 
" اسلامی  " کی چارداوڑھ کر " جمہوریت " نے وہ کھیل کھیلے   کہ  "اسلامی " بھی انگشت بدنداں رہ گئے ۔رواج توڑے ، دستور توڑے ، قدروں کو پامال کیا اور  اصولوں کو  اہلِ  کتابی صلیب پر لٹکایا ۔ اور تو اور  ابّا جی کو بھی ساتھ ملا لیا ۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ابّا جی نے  " کلمہ پڑھا ہوا ہے " ۔کا ورد کرتے ہوئے ، ٹھپّوں پر ٹھپّے لگانا شروع کر دئیے ۔ 
اماں جی مرتی کیا نہ کرتیں، " کلمہ پڑھا ہوا ہے " ۔کا ورد کرتی رہتیں۔
 بے چاری اب کیا کسی اہل کتاب کو کافر تو نہیں کہہ سکتی  ، کیوں کہ گھر کی ساری رونق تو بدیسی  اہل کتاب دلہن، کی مرہونِ منت  ہیں  ۔ 
محلّے دار تو پہلے ہی مرعوب تھے ، کہ کرم دین کے پوتے اور پوتیاں  نیلی آنکھیں لئے  گورے چٹے انگریز تھے ، مغربی جمہوریت نے، کلمہ پڑھ کر ،  تو کرم دین کے خاندان کو ہی تبدیل کر دیا  ۔وہ کیسے اعتراض کرتے ؟ کہ  جمہوریت کا پھل اچھا نہیں نکلا ۔
رہے کرم دین کے  مذہبی رشتہ دار، وہ پہلے کون سے خوش تھے  ؟ 
جو اب   اُس کے گُن گاتے، پہلے بھی اپنی ایک اینٹ کی اپوزیشن بنائی ہوئی تھی اب بھی !
لیکن دل میں اُمید تو رکھتے تھے کہ، مریم کی   انگریز بہن  نہ سہی کرم دین کی بیٹیوں کا رشتہ ہی اُن کے بیٹوں کو مل  جائے  اور وہ بھی " اسلامی جمہوریت " کی  بہنے والے ندّی سے مستفید ہوں ۔ 
رہی اسلامی قدریں ، وہ اپنے  اپنے کلموں کا پاندان لئے ،اپنی اپنی  مسجدوں  میں جاکر بیٹھ گئے ہیں ۔
اور ایک ہم ہیں ، کہ ہم نے بھی  
" کلمہ پڑھا ہوا ہے " ۔
  اور تمام "کلمہ گو" احباب سے اس تحریر کو شئیر کرنے کی درخواست اک "کلمہ گو"  کی جانب سے، اہلِ کتاب کے عیسائی ویہودی چینل پر  کرتے رہتے ہیں ۔
   ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔