کیمرے کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ اندھیرے کمرے میں پن ہول سے روشنی کی باریک سی کرن کا کمال دیکھتے دیکھتے ، الٹا عکس بننے پر اُسے قید کرنے کی کوشش کرنے والوں نے فوٹوگرافک پلیٹ ایجاد کی ۔
چین میں ہان خاندان کے محقق موزی نے 391 قبل مسیح میں پن ہول کیمرے کا تصوّر پیش کیا ۔ ابنِ ھیثم نے 965 عیسوی میں اِس تصّور پر تجربے کئے اور بالاخرجان ہنریچ شلز ، جرمن سائینٹسٹ نے 1717 میں دریافت کیا کہ سلور نائٹریٹ کے محلول کو اگر سورج کی روشنی میں رکھا جائے تو وہ سیاہ پڑ جاتا ہے ۔ 1816 میں فرانسیسی سائینس دان جوزف نائیس پو رنیپوس نے سلور کلورائیڈ کو کاغذ پر لگا کر تصویر بنانے کی کوشش لیکن وہ روشنی میں محفوظ نہ رہ سکی ، فوٹو گرافک پلیٹ کو محفوظ کرنے کے لئے پیوٹر (قلعی اور سکے ) کی پلیٹ پر تارکول (بچومین) کی پتلی تہہ لگا کر آٹھ گھنٹوں میں اپنے گھر کی کھڑکی سے باہر کے نظارے کو اتارا ، جسے " لی گراس " ہولیوگراف کا نام دیا ۔ اِس پلیٹ پر بچومین پر جیاں روشنی پڑی وہ جگہ سخت ہو گئی اور جہاں روشنی کم پڑی وہ نرم رہی ۔ آئل آف لیونڈر اور پیٹرولیم جیلی کے مکسچر سے وہ اتار دی گئی ۔ گویا فوٹو پلیٹ اور پلیٹ کو ایکسپوز کرنے کے بعد صاف دھونے کا کیمیکل ایجاد ہوا ۔
1826 میں جوزف نائس نے اپنی تحقیق لندن میں فرانسس بور کو دکھائی جس نے رائل سوسائیٹی میں پیش کی ، چونکہ جوزف نائس نے تمام ریسرچ بتانے سے انکار کیا ، لہذا رائل سوسائیٹی نے ممنوعہ پیشکش کا نام دے کر اُس کے کام کو مسترد کر دیا ۔ جوزف نائس اپنا کام اور تمام کاغذات جوزف بور کو دے کر واپس فرانس جانے کا ارادہ کیا لیکن 5 جولائی 1833 میں اُس کا سٹروک کی وجہ سے اچانک انتقال ہوا۔ اور وہ اپنے آبائی گھر کے پاس دفن ہوا ۔
اُس کے بیٹے اسیڈور نے (1805-68) کے درمیان لوئس ڈیگاری کے ساتھ مل کر کمپنی بنائی اور حکومت کو اپنے باپ کے ہیلیوگراف کی ساری ٹیکنیکل تفصیل مہیا کرکے 1839 میں فرنچ گورنمنٹ سے ڈیگاری نے 6000 فرانک سالانہ رقم لینا شروع کی اور اسیڈور کو 4000 فرانک سالانہ پنشن کے نام پر دینا شروع کیا ۔ دھوکا دہی کی پہلی ریکارڈڈ کوشش 1839 میں فرنچ گورنمنٹ کے زیر سایہ ڈیگاری کے فراڈ سے شروع ہوئی ۔
جوزف نائیس پو رنیپوس کی ہیلیو گرافی (شمسی تصویر کشی ) نے لیتھو گرافی اور انگریونگ ڈیزائن کی راہیں آسان کر دیں ۔
لوئس ڈیگاری بھی ایک سائنس دان تھا اُس نے جوزف نائیس کے کام کو آگے بڑھایا اور اپنے نام سے کام شروع کیا اور ڈیگاری ٹائپ کیمرہ ایجاد کرنے کی کوشش شروع کی جس کو چارلس شیولیئر نے مکمل کیا۔
اُفق کے پار بسنے والے دوستو اپ سوچ رہے ہوگے کہ ٹاپک ہے کہ کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے اور بوڑھے نے ہمیں کیمرے کی ایجاد کی داستان سنانی شروع کر دی ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔!
وہ اِس لئے کہ اگر کیمرہ نہ ایجاد ہوتا تو بوڑھا اپنی تصویر کیسے آپ کو دکھاتا۔ بوڑھے کی زندگی ، سائینس کی کتاب سے پن ہول کیمرہ بنا کر مشہوری پھر 1969 میں کوڈک بکس کیمرے سے تصویریں بنانے ، اُنہیں ڈیولپ کرنے اور 2 بی سائز کے پرنٹ نکالنے ، ایک نیگیٹو سے ڈبل امیج نکالنے کی داستان کیسے پڑھاتا ؟
تو بات ہو رہی تھی کیمرے کی آنکھ کی جو اب ہر جگہ آ پ کو دیکھتی ہے ۔ لیکن وہ ڈیجیٹل سکیورٹی کیمرہ ہے۔
12 جولائی 1854 کو پیدا ہونے والا اور عکسی کیمرے کو فروغ دینے والا جارج ایسٹ مین 24 سالہ روچسٹر نیویارک کا بنک کلرک تھا جس نے ملازمت کرتے ہوئے اپنے فارغ اوقات میں 1887 میں ہینڈی کیمرہ ایجاد کرنے کی ٹھانی اور صابن دانی کے سائز کا کوڈیک ایجاد کیا
اور کیمرے کی تیاری کمرشل بنیادوں پر ممکن بنائی۔
یہ پہلا پورٹیبل اور فولڈنگ کیمرہ تھا جسے بآسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا تھا۔ 1934 تک اس ماڈل کیمرے کے تین لاکھ کیمرے فروخت ہوئے، لیکن اس وقت تک تصویروں کی پرنٹنگ تک عام آدمی کی رسائی نہیں تھی، کیمرے کی فلم مکمل ہونے پر کیمرہ کوڈیک فیکٹری واپس بھیجا جاتا جہاں تصویریں دھوئی اور پرنٹ کی جاتی تھیں۔ پھر ان تصاویر کو کیمرے اور نئی فلم کے ساتھ صارف کو بھیجا جاتا۔
جارج ایسٹ مین نے سنہ 1900 میں سستا ترین براؤنی کیمرہ بنایا جس کی قیمت صرف ایک ڈالر تھی۔ اس سستے کیمرے کی بدولت عام عوام کی رسائی بھی کیمرے تک ممکن ہوئی.امریکہ میں صرف کوڈک کمپنی کی اجارہ داری تھی جو کئی سال تک رہی ۔ پھر 1975 میں کوڈیک کے انجینئر سٹیون نے پہلا ڈیجیٹل کیمرا بنایا. اس وقت تک بہت سی دیگر کمپنیاں بھی کیمرا بنانے کی اس دوڑ میں شامل ہو چکی تھیں اور کیمرہ روز بروز بہتر سے بہترین کی طرف سفر کر رہا تھا۔
اس ایک ایجاد نے انسانی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا، لوگوں نے کیمرا اٹھایا اور دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئے.۔جنگلی جانوروں کی تصاویر اور وڈیوز سامنے آئیں شہر کے باسی پہلی مرتبہ جانوروں کی زندگی دیکھ رہے تھے، شیر اور ہاتھی سے لے کر چیونٹی تک ہر جانور کی زندگی پر ڈاکومنٹری فلم بن گئی۔ واٹر پروف کیمرے ایجاد ہوئے تو سائنسدان کیمرے لے کر سمندروں کی گہرائیوں میں اتر گئے، انسان پہلی بار سمندری مخلوق سے متعارف ہو رہا تھا۔ جانوروں کی، مچھلیوں کی، حشرات کی اور پودوں کی ہزاروں لاکھوں نئی اقسام دریافت کی گئیں۔ فلم انڈسٹری وجود میں آئی اور آج ہالی وڈ فلمیں پاکستان کے بجٹ سے بھی زیادہ منافع کما رہی ہیں۔ کیمرا چاند پر پہنچا، مریخ پر پہنچا اور ہمیں نئی دنیاؤں کی سیر کرا دی، لاکھوں کروڑوں نوری سال کے فاصلے پر واقع کہکشاؤں اور ستاروں سے متعارف کرایا. سی سی ٹی وی کیمرے نے ہر جگہ سیکیورٹی یقینی بنائی، مجرموں کو پکڑنے میں سب سے زیادہ اہم کردار ادا کیا. اب سی سی ٹی وی کیمرے بھی انٹرنیٹ سے جڑے ہوئے ہیں آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر اپنے گھر یا آفس کی لائیو ویڈیو دیکھ سکتے ہیں. سائنسدانوں نے کیمرے کو مزید چھوٹا کیا اور انسانی جسم میں داخل کر دیا، میڈیکل کی دنیا میں ایک نیا انقلاب آیا۔
سنہ 2000 کا نومبر تھا جب سامسنگ جاپان نے پہلا کیمرے والا موبائل فون لانچ کیا، اس وقت بھی لوگوں نے سوچا کہ موبائل فون میں کیمرہ لگانے کا کیا فائدہ؟ پھر یوں ہوا کہ ہر موبائل فون میں کیمرہ آ گیا۔ اب یہ حال ہے کہ ہم چاروں طرف سے کیمروں میں گھرے ہوئے ہیں۔
کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے ۔ لہذا بچ کے چلنا بابو ، ذرا بچ ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں