کہ
بابے کو کیا ہوا ،
رمضان
کا مہینہ ،
پہلا
عشرہ اور
گانوں
پہ گانے پوسٹ کر رہا ہے
'
آہ
بابا بھی کبھی نوجوان تھا ،
ایک
بابے نے پہلا گانا پوسٹ کیا۔
وہ
سننا تھا ،
کہ
دھڑ دھڑ کرکے سالوں سے بند کھڑکیاں کھلتی گئیں ۔
بابا
، گانے پہ گانا سنتا رہا ۔
'
بیوی
آئی ۔
اس
نے چھوٹی سکرین پہ شبنم کو دیکھا
اچھا
اب سمجھ آئی کہ راتوں کو جاگ کر کیا کرتے ہیں ۔
ارے
میں بھی تو کہوں ، کان پر یہ ٹونٹی لگا کر ،
کیسے
انہماک سے اللہ اور رسول کا کام ہو رہا ہے ۔
یہ
تو آج معلوم ہوا۔
'
آہ
یہ بڑھاپا بھی کیا چیز ہے ۔
ذرا
سی جوانی کو آواز دی ،
تو
آواز کی راہ میں پہلی رکاوٹ ،
تسبیح
گھماتی بیوی ہی آئی ۔
'
اب
بابا کیا کرے ، کسی ،مسجد کی چوکھٹ کے باہر بیٹھ جائے َ
'
اور
تان لگائے ،
،
ہمارے
سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے ۔
'
لیکن
نہ جانے ، محلے کی کتنی حناؤں کے پوتے پوتیوں کے کان کھڑے ہوجائیں گے ۔
'
اِن
کمبختوں کو کیا معلوم ، حنا کسے کہتے ہیں ۔
جسے
بڑی بوڑھیائیں ایسے سل بٹے پر رگڑتی تھیں ۔
جیسے
وہ اپنی بہوؤں کو رگڑتیں ۔
'
'
اب حنا تو نہیں، البتہ مہندی کون میں ملتی ہے ۔
بهائي ابكا خيال صحيح هي كه جوان تو جوان هم جيسيعمر والي بهي بريشان هوكًئي كه كًرمي كا روزه هي الله خير كري مكًر بهابي كي تسبيح سلامت رهي جو حناء كي زنجير بن كًئي ( جوان تو يه تبه كًا كر تسلي كر ليتي ( اكًى ته مندي ياري لاءندي هن ته بدرههى وي هل بئي نى)
جواب دیںحذف کریں