Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 2 مئی، 2017

ڈرامائی تشکیل : ڈھابہ اور بابا

سین نمبر 1 :

جی ٹی روڈ پر شہر کی پھیلی ہوئی حدود کے اندر ایک ڈھابہ ہے ، جسے ڈھابہ کم ماڈرن ہوٹل کہیں تو زیادہ اچھا ہوگا ۔ جس میں چار ، چھ اور دس افراد کی میزوں کے ساتھ سندھ سے منگوائی گئی مونجھ کی بنی ہوئی کرسی نما چوکیاں ، خوبصورت نقش و نگار کی چارپائیاں لگی ہوئی ہیں ، ایک طرف اونچا چبوترہ بھی بنایا ہوا ہے ، جس پر قالین ڈال کر گاؤ تکیئے بھی رکھے ہوئے ہیں ۔ ڈھابے کے پیچھے ایک بڑا برگد کا درخت ہے جو آدھا ڈھابے پر آیا ہوا ہے ، بلکہ یوں کہیں کہ ڈھابہ برگد کے درخت کے نیچے بنایا ہوا ہے ، ڈھابے کی چھت ٹین کی شیٹس سے بنائی ہوئی تھی درخت پر بیٹھی ہوئی چڑیاں اور کوّئے ڈھابے کے پیچھے پھینکے ہوئے بچے کُچے روٹی کے ٹکڑے اور چچوڑی ہوئی ہڈیوں سے فیضیاب ہوتے ہیں ، گھریلو بلیّاں بھی چارپائیوں اور میزوں کے نیچے گھومتی پِھرتی ہیں ، جس کسی نے بھی اُنہیں بوٹی کا ٹکڑا یا سالن میں ڈوبی ہوئی روٹی ڈالی وہ کھانے کے بعد لاڈ کی آواز میں غُر غُر کرتیں اُن کے پاؤں سے اپنا جسم رگڑتیں، میزوں کی حدود کے باہر اکا دُکّا کٗتّے بھی اپنی زبانیں لٹکائے بیٹھے تھے ۔ اُنہیں بھی ہڈی کا ٹکڑا کو ئی گاہک اُچھال دیتا ۔
ڈھابے کے کاونڑ کے پیچھے ، کٹاکٹ ، چمچے دیگوں پر مارنے کی آوازیں ایک تسلسل سے آرہیں تھیں جو کسی بھی ڈھابے کی رونق میں اضافے کا باعث ہوتی ہیں ، لیکن حیرت کی بات سوائے گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کے ویٹرز کی آوازیں معدوم تھیں ۔ اور نہ ہی گاہکوں کی آوازیں ، " ویٹر ، چھوٹے ، دیکھو اور جلدی کرو " ناپید تھیں ، بس گاہکوں کی آپس میں باتیں اور مسلسل قہقہوں نے ، یہ احساس دلایا ہوا تھا کہ اچھا خاصا رش ہے۔ رش تو عموماً روزانہ ہوتا ہے کیوں کہ کھانا بہت لذیذ ہوتا ہے ، امیر غریب ، چھوٹا یا بڑا سے ویک اینڈ پر وہاں آتے ہیں ، عموماً وہاں ہفتے کے دن بہت رش ہوتا ہے ، لیکن یکم مئی کی وجہ سے اتوار شام بھی بہت رش تھا ، لوگ لمبی چھٹی منانے ڈھابے پر آئے ہوئے تھے ۔

سین نمبر 2 :
سڑک پر دوڑتی ہوئی گاڑیوں کی لائن سے ایک ویگن نکل کر سڑک کے کنارے رُکتی ہے دروازہ کھلتا ہے ، ایک سفید ریش تقریباً 70 سال کے لگ بھگ ،بابا ویگن سے اترتا ہے ، سفید بے داغ کپڑے سر پر گول نمازیوں والی ٹوپی ، آنکھوں پر نظر کی عینک ،  کندھے پر رومال اور ایک ہاتھ میں لاٹھی اور دوسرے میں ایک شاپر، وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا نوجوانوں کے ایک گروپ کے پاس خالہ کرسی پر آکر بیٹھ جاتا ہے ۔ اپنی لاٹھی میز کے کنارے سے ٹکاتا ہے ، اور شاپر کو میز پر رکھ دیتا ہے ۔ ساتھ میز پر بیٹھا ہوا ادھیڑ عمر شخص اُسے غور سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔
ایک ویٹر بابا جی کے پاس آتا ہے ،
"سر آرڈر کیا ہے ؟" ویٹر پوچھتا ہے ۔
" بیٹا دو گرم گرم نان لے آؤ"۔ بوڑھا اپنی پاٹ دار آواز میں کہتا ہے ۔
ویٹر نان لانے چلا جاتا ہے ، بوڑھا ، کرسی کی پُشت پر سرٹکا کر آنکھیں موند لیتا ہے ۔
ساتھ میز پربیٹھا ہوا ادھیڑ عمر شخص اپنے موبائل پر آئے ہوئے پیغامات دیکھنے لگتا ہے ۔

سین نمبر 3 :
تھوڑی دیر بعد ویٹر دو لاکر بابا جی کے پاس رکھتا ہے، بابا جی اپنے کرتے کی جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ مُڑے تُرے نوٹ نکالتا ہے ، اپنی عینک سے ایک ایک نوٹ کی مالیت دیکھتا ہے اورنے پچاس کا ایک نوٹ نکال ویٹر کو دیتا ہے ، ویٹر چینج دینے کے لئے اپنی جیب سے کچھ نوٹ نکالتا ہے
" باقی پیسے تم رکھ لو " بابے کی آواز ادھیڑ عمر کی سماعت سے ٹکراتی ہے تو وہ موبائل سے نظریں اٹھا کر بابے کی طرف دیکھتا ہے ، اُسے ویٹر کے ایک ہاتھ میں 50 روپے کے نوٹ اور دوسرے ہاتھ میں چینج دیکھتا ہے ،
" شکریہ سر !" ویٹرکہتا ہے اور دوسری میز کی طرف بڑھ جاتا ہے ، ادھیڑ عمر آدمی اندازہ لگاتا ہے کہ بابے نے 30 روپے ٹپ ویٹر کو دی ہے۔ وہ متاثر نظر آنے لگتا ہے ۔

سین نمبر 3 :
بابا ، میز پر پڑی ہوئی ، سیون اپ کی ہرے رنگ کی بوتل سے پانی اپنے گلاس میں انڈیلتا ہے اور پانی پیتا ہے ۔ پانی پی کر وہ بانچھوں پر لگا ہوا پانی اپنے کندھے پر پڑے ہوئے رومال سے صاف کرتا ہے ، میز پر پڑے ہوئے شاپر کو کھولتا ہے ، اُس میں سے ایک پیاز اور سبز مرچ نکال کر نان پر رکھتا ہے ، نان کا ایک نوالا توڑ کر جب وہ پیاز کا ٹکڑا اُس می رکھ کر منہ میں ڈالتا ہے اور مرچ کا کونا دانت سے کٗتر کر نوالہ چباتا ہے ، تو ادھیڑ عمر آدمی حیرانی سے اُسے دیکھتا ہے ، پہلے تو اُس کا چہرہ سُرخ ہوجاتا ہے اور پھر شرمندگی اُس کے چہرے پر پھیل جاتی ہے ، وہ اپنا موبائل نکالتا ہے اور سکرین دیکھتا ہے ، جس پر یہ تصویر ہے۔
سین نمبر 4 :
ادھیڑ عمر آدمی کی آنکھوں میں آنسو ہیں وہ اُلٹے ھاتھ سے اُنکھوں کو پونچھتا ہے اور ویٹر کو ہاتھ کے اشارے سے بلاتا ہے ۔
" جی سر ! آپ کا آرڈر بس تیار ہونے والا ہے " ویٹر بتاتا ہے ۔
" ایسا کرو میں نے کڑاہی کا آرڈر دیا ہے وہ اِن بابا جی کو دے دو اور میرے لئے دال لے آنا " وہ بمشکل اپنی روہانسی آوازکو بہتر کر کے بولا ۔
" جی سر بہتر " یہ کہہ کر ویٹر باورچی خانے کی طرف بڑھ گیا ،

سین نمبر 5 :
ویٹر نے آکر ادھیڑ عمر آدمی کی میز پر کھانا رکھا اور گرم گرم کڑھائی لے جاکر بابے کی میز پر رکھ دی ۔
بابا جی : " یہ میرا آڈر نہیں ہے "
ویٹر " جی اُن صاحب نے بجھوائی ہے "
بابا جی : " پتّر میں نے نہیں کھانا واپس جاکر دے دو "
ویٹر واپس ادھیڑعمر آدمی کی میز پر آیا ، اور بتایا کہ اُنہوں نے لینے سے انکار کر دیا ہے ۔
ادھیڑ عمر آدمی سمجھ گیا کہ ، آدمی خودار ہے ، کبھی نہیں لے گا !
سین نمبر 6 :
ادھیڑ عمر آدمی خود اٹھ کر بابا جی کے پاس جاتا ہے ۔ اور التجا آمیز لہجے میں بولتا ہے
" بزرگو دیکھیں اللہ ہر ایک کو کسی نہ کسی کی قسمت کا رزق ہی دیتا ہے ، مجھے اللہ نے آپ کی قسمت کی یہ مٹن کڑھائی دی ہے اِس لئے انکار نہ کریں اور کھا لیں "

یہ سننا تھا کہ بابا جی کی آنکھیں سُرخ ہو گئیں وہ غصے سے کپکپانے لگے اور کانوں سے دھواں نکلنے لگا ، چہرہ لال ہو گیا ۔ ڈاھبے میں موجود ہر شخص اِک ماریا دھاڑ کے منظر کا انتظار کرنے لگا ، لیکن بابا جی کو یاد آیا کہ اُن لی جوانی گذر چکی ہے ، ادھیڑ عمر کسرتی جسم کا مالک ہے ، کہیں اُلٹے لینے کے دینے نہ پڑ جائیں ، چنانچہ بابا جی سرف کے جھاگ کی طرح نارمل ہو گئے۔ اور دھیمی مگر سخت آواز میں بولے،
" میرے گھر کے فریج میں اِس وقت بھی قربانی کا پندرہ کلو گوشت پڑا ہے ۔ لیکن میں پیاز سے روٹی کھاتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
کیوں کہ میں آرائیں ہوں ۔  ۔!

اتنا کہہ کر بابا جی نے ویٹر کو کہا، " سب کو میری طرف سے گوشت کی ایک ایک پلیٹ مفت دے دو" !
ادھیڑ عمر آدمی آدمی کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا ، وہ تھوڑی دیر سُن کھڑا رہا اور پھر بولا ۔
"وہ اس سارے گوشت کا بل دے گا ،  تاکہ اُس نے جو بابا جی کی شان میں گستاخی کی ہے یہ اُس کا جرمانہ ہے۔"
" نوجوان " بابا جی بولے " ایک شرط ہے ، کہ میں آرائیں ہوں صرف سبزی یا دال کھاؤں گا لیکن اپنا بِل میں خود ادا کروں گا "
سین نمبر 7 :
بابا جی ڈھابے سے باہر آرہے ہیں ، بیک گراونڈ میں " بابا جی ، زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں ادھیڑ عمر آدمی بابا جی کے گھٹنے چھو کر اُنہیں خدا حافظ کہتا ہے ۔اور اُن کے ساتھ اُنہیں سہارا دے کرچلتا ہے 
  بابا جی سڑک کے کنارے پہنچنے والے ہیں ، ایک بھاری بھرکم آدمی تقریباً دوڑتا ہوا اُن کی طرف بڑھتا ہے، جو ڈھابے کا مالک ہے قریب آنے پر ،
" شاہ جی یہ آپ کے بل کے پیسے" کہتے ہوئے ہاتھ بابا جی کی طرف بڑھاتا ہے
" نہیں پُتر  میں نے رزق کھایا ہے " بابا جی بولے " میں پیسے واپس نہیں لوں گا ، جو دے دیا وہ دے دیا "
ادھیڑ عمر آدمی ، بہت زیادہ متاثر نظر آتا ہے ۔
" شاہ جی آپ بڑے بابرکت اور اللہ والے ہیں " ڈھابے کا مینیجر کہتا ہے،
پھر وہ ادھیڑ عمر آدمی سے مخاطب ہوتا ہے " سرجی میں اِن کا مرید ہوں ، آپ جاکر کھانا کھائیں میں اِنہیں گاڑی میں بٹھاتا ہوں "
ادھیڑ عمر آدمی واپس ڈھابے کی طرف جاتا ہے ۔ 

سین نمبر 8 :
" شاہ جی !آپ کا شکریہ آپ نے سارا گوشت بِکوا دیا "  ڈھابے کا مینیجر کہتا ہے ۔ " آئیندہ بھی ہمارا خیال رکھیں "
" ٹھیک ہے ٹھیک ہے ، لیکن تم نے مجھے گوشت کی پلیٹ کیوں بھجوائی " بوڑھا ہلکے سے غصے میں بولا
" شاہ جی ، وہ خالص بکرے کا گوشت تھا جو میں نے آپ کے لئے بنوایا تھا "ڈھابے کا مینیجربولا ،" پھر بھی آپ نے پیاز اور سبزی سے روٹی کیوں کھائی ؟؟
" وہ گوشت میں نہیں کھاتا جس کی جنس مشکوک ہو...." بابا جی بولے ،" لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ چین ایکسپورٹ ہونے والی ہماری تمام کھالیں پولیس نے پکڑ لی ہیں ، کافی نقصان ہوگیا ہے "
"شاہ جی ! فکر نہ کریں ، میں اپنی قوم کے دوسرے ڈھابوں اور ہوٹلوں پر آپ کے بیٹے سے خریدا ہوا گوشت بکوادوں گا "

(ماخوذ)

 بکروں کی اقسام !

بکرا بمقابلہ گدھا

 گدھے وزیر یا وزیر گدھے ؟

جلسہ و تقریر

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔