”میجر صاحب میں قومی وقار کا سودا کیسے کر سکتا تھا، میں صرف اور صرف پاکستانی ہوں اور پاکستانی رہوں گا“
ظہیر الدین خواجہ کے اِن الفاظ نے مجھے چونکا دیا۔
مجھ سے عمر میں بڑا یہ شخص سعودی عرب میں نوکری کرتا رہا وہاں سے امریکہ چلا گیا۔بچوں نے وہاںسے گریجوئشن کی ۔
امریکی نظام تعلیم میں پڑھنے والے بیٹے نے امریکہ کی بہترین ملازمت ناسا کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان نیوی میں شمولیت اختیار کر لی۔
خواجہ صاحب بھی پاکستان آگئے۔ میرے داماد نے اُن سے میرا تعارف کرایا۔ جب بات چیت میں اجنبیت دور ہوئی تو میں نے سوال کیا
ِ”خواجہ صاحب آپ نے گرین کارڈ نہیں بنوایا“۔
”بھائی میں نے درخواست ہی نہیں دی“۔خواجہ صاحب نے جواب دیا۔
”کیوں لوگ تو مرتے ہیں ہر جائزو ناجائز ذریعے سے گرین کارڈ بنوانے کی کوشش کرتے ہیں؟“ میں نے پوچھا
تو خواجہ صاحب نے اسے قومی وقار کا سودا قرار دیا ۔ خواجہ صاحب نے پوچھا کیا
”آپ نے امریکی قوم سے حلف وفاداری پڑھا ہے “۔
”نہیں“ میں نے جواب دیا۔
خواجہ صاحب نے کہا
”آپ انٹر نیٹ پر پڑھ لیں، آپ کو معلوم ہو جائے گا“۔
گھر واپس آکر میں نے نیٹ پر ا مریکی قوم سے حلف وفاداری پڑھا۔ جو مجھے سمجھ آیا آپ بھی پڑھئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پاکستانی قومیت تبدیل کرنے کا حلف !
بہت عمدہ جناب۔
جواب دیںحذف کریںاگر ایسی باتیں ہم سوچنے لگیں تو دوبارہ سے ایک مکمل قوم بن جائیں۔
ہمیں تمام دوہری شخصیت رکھنے والوں سے کہنا پڑے گا کہ وہ پاکستانی شخصیت قبول کریں یا غیر ملکی ۔
جواب دیںحذف کریںگرین کارڈ کے بارے میں یہ بلکل غلط معلومات ہیں. گرین کارڈ کے لئے کوئی حلف نہیں لینا پڑتا. اس کے باوجود گرین کارڈ ہولڈر کو امریکی شہری کے برابر حقوق ہیں. صرف ایک فرق ہے کے گرین کارڈ ہولڈر کسی الیکشن میں ووٹ نہیں دے سکتا او فیڈرل ملازمت نہیں کر سکتا، مسوایے امریکی فوج کے، جس میں وہ گرین کارڈ پر بھی نوکری کر سکتا ہے. . امریکا میں لاکھوں لوگ گرین کارڈ پر با-عزت زندگی گزر رہے ہیں . مجھے چند سال سعودی عرب میں رہنا کا اتفاق بھی ہوا ہے. اور میں اس کے بارے میں کچھ کہنا پسند نہیں کروں گا.
جواب دیںحذف کریں