Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 12 اگست، 2013

عربی و عجمی -1

  الکتاب ،جسے عام فہم میں  القرآن  کہا جاتا ہے۔ عربی میں لکھی ہوئی ہے۔
 مادری زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان کو سیکھنا، ناممکن نہیں تو کم از کم مشکل ضرور ہے۔ کچھ زبانیں ایسی ہوتی ہیں جو آسان ہوتی ہیں جو آسان ہوتی ہیں اس کی وجہ متماثل الفاظ ہوتے ہیں جو دوسری زبان میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن اگر ایک زبان دوسری زبان سے یکسر مختلف ہو تو مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ مثلاََ، ایک چینی زبان  بولنے والے کو عربی‘ اردو یا انگلش سیکھنے میں کافی وقت لگانا پڑے گا۔ مگر اردو بولنے والے کو عربی اور فارسی زبانیں سیکھنے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اردو زبان میں عربی اور فارسی کے الفاظ کی بہتات ہے جو فرق ہے وہ تلفّظ کا ہے۔
         ہر  عجمی  زبان میں الفاظ کا ذخیرہ ہوتا ہے،  جو ایک مفہوم کو مختلف طریقے سے ادا کرنے کے لئے  استعمال ہوتا ہےاورہر زبان کے کچھ قواعد و ضوابط ہو تے ہیں ۔
 جملے کے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے  ترجمے کے لئے مخصوص مترادف کو  جملے میں استعمال کیا جائے تو جملے کا مطلب سمجھنے والے کو غلط معنی کی طرف لے جا تا ہے۔

مثلاََ اردو زبان میں ”مسلسل“ کے لئے مختلف ہم معنی الفاظ   ،لگاتار،  متواتر،پے درپے،یکے بعد دیگرے،غیر منقطع،سلسلہ وار،متصل اور زاروقطار۔ یہ تمام الفاظ کسی ایک جملے میں ہم نہیں استعمال کر سکتے۔ جملے کے اعتبار سے ہر لفظ اپنے اسی جملے میں زیادہ بہتر معنی ادا کرے گا۔
ٌ٭-  وہ زارو قطار رو رہا تھا۔
٭-   اس نے لگا تار خطوط لکھے۔
٭-  وہ یکے بعد دیگرے پیغامات بھجواتا رہا۔
٭-   صبح سے متواتر بارش ہو رہی ہے۔
٭-   اس نے پے درپے گھونسے لگائے۔

    لیکن ”مسلسل“ ایک ایسا لفظ ہے جو کسی بھی جملے میں استعمال کیا جائے تو اس جملے کے بنیادی معنی میں فرق نہیں پڑے گا۔ جبکہ کچھ مترادف دوسرے جملوں میں استعمال نہیں ہو سکتے۔ مثلاََ۔ اگر ہم یہ کہیں کہ:-
بارش صبح سے زاروقطار ہو رہی ہے  یا   وہ یکے بعد دیگرے رو رہا ہے۔
        تو ہمارا جملہ یکسر غلط ہو گا۔ اس کی وجہ مترادفات کا غلط استعمال ہے۔ اس طرح جب ہمیں کہا جاتا ہے کہ عربی نہایت فصیح زبان ہے اور اس میں ایک ایک لفظ کے کئی مترادفات ہیں تو اس کی بھی  یہی حالت ہے کہ الفاظ کا غلط استعمال جملے کو یکسر  تبدیل کر دیتا ہے اور موضوع بدل دیتا ہے۔
ہم اللہ کی کائینات کا مرکز ہیں، یوں سمجھیں کہ تمام کائینات ہمارے حواسِ خمسہ کے سامنے  ایک تصویر کی طرح  پھیلی ہوئی ہے ۔جس میں ہماری سیلفی  بھی شامل ہے  ۔اور ہم اِس کا حصہ ہیں ۔ ہمارے ایمانِ بالغیب کے مطابق  ہم سمیت یہ تمام اشیاء  ،اللہ کے کلمہ ، کی  کُن سے تخلیق پاچکی ۔ جن میں سے کچھ ہمارے حواسِ خمسہ کے سامنے ہیں اور کچھ  غیب میں ہیں ۔ اگر میں کمرے میں بیٹھا ہوں تو یہ   اشیاء  مجھ سے اوجھل (غیب میں) ہیں ۔ میں جب دروازہ کھول کر باہر نکلتا ہوں تو یہ  میری آنکھوں کے سامنے آنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ 
گویا کتاب اللہ کا ایک کلمہ جو ہمارے سامنے    ایک مکمل آیت کی شکل  میں آتاہے:۔
1۔   بذریعہ   آنکھ :ہم  اُس کی شبیہ  دیکھتے ہیں ۔
2۔ بذریعہ  کان : اُس کی   آواز   سنتے ہیں  ۔

3- بذریعہ  ناک اُس  کی والی بو سونگھتے ہیں ۔

 4- بذریعہ  ہاتھ اُسے محسوس کرتے ہیں ۔
 5- بذریعہ زبان  چکھتے ہیں ۔
 اِس پانچوں  حواس سے ملنے والی معلومات ،    ہمارے دماغ میں  محفوظ ہوجاتی  ہیں ،  جو پہلے سے دماغ میں موجود صفات کی تصدیق کرتی ہیں یا تردید  ، اگر وہ شئے پہلے سے موجود نہ ہو تو ہم اپنے  ذہن میں  تسلیم کرنے کے بعد اُسے ایک صفت (اِسم)  دیتے ہیں ۔ اور اُسے  اپنی  زبان میں،  کے ساتھ ،  اللہ کی اُس آیت سے منسلک کر دیتے ہیں ۔
ہماری دی گئی صفت   ،آیت اللہ  کی  بنیادی صفت کو تبدیل نہیں  کرسکتی  ۔یاد رکھیں کہ الکتاب  (القرآن)  ، ہمارے  ارد گرد پھیلی ہوئی  اللہ کی تخلیق
کتاب اللہ (کائینا ت   اور الارض) کی فہرست ہے ۔ جس میںموجود اللہ کی آیات کو ، ہم  نے اپنی عقل و دانش ، فہم و فکر ، شعور و  تدبّر  سے اپنے نفس (ذات) کے لئے فائدہ مند بنانا ہے ۔

جیسے اِس تصویر میں پرندے کا گھونسلہ اللہ کی آیت ہے ۔ اور انسانی گھر ،گھونسلے (امن و سکون سے رہنے کی جگہ)  کی مشابہ انسانی آیت ہے ۔ آپ اِسے گھونسے کی انسانی تفسیر بھی کہہ سکتے ہیں ورنہ قدرتی غار  انسانوں کے رہنے کے لئے اللہ کی آیت ہے ۔ اللہ کی آیت صدیوں سے وہی ہے لیکن اُس کی انسانی  تفسیر تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔

لہذا اگر ہم  یہ کہیں کہ ہم نے اپنی بنیادی معلومات درست کرنے کے لئے ،ہم نے القرآن سے  کتاب اللہ میں تدبّر کرنا ہے ۔اور اپنا فہم بنانا ہے ، تو اِس کرہ ارض پر پائے جانے والے انسانوں کی سوچ   تقریباً  ایک ہوجائے گی ۔
لیکن جو فرق ہوگا وہ  انسانوں میں    والدین اور معاشرے میں رہتے ہوئے ، اُن کی عمر  ، سماجی ، معاشی  اور اخلاقی معلومات  اور   اُن کی روزمرہ مصروفیات   پر منحصرہیں ۔
 جیسے ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ،    درخت   ایک صفت  ہے ، پودا ،  بیل   اور  جھاڑی  دیگر صفات ہیں  ، اِسی طرح پرندہ    یا پتنگے   الگ صفات ہیں  ہے۔اور اُن جیسے  بیسیوں  آیات ہمارے سامنے ہیں ، جیسے، تو ت ، شہتوت، سفید شہتوت ، کالا شہتوت  ، بے دانہ سفید توت ۔ یہ سب صفات ہم نے  اپنے حواسِ خمسہ سے دی ہیں ، القرآن (الکتاب) میں اِن کا ذکر نہیں ۔ تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ الکتاب (القرآن) ، انسانی ہدایت کے لئے ،ایک نامکمل    پیغام ہے ۔
غرض کہ  کتاب اللہ (کائنات )  میں ، اللہ کی ہر آیت کی بنیادی صفات ہیں،   جو اللہ نے الکتاب( القرآن)   میں ا نسانوں  کی بنیادی ہدایت کے لئے ، بنیادی الفاظ  میں بتائیں ہیں ۔تاکہ ایک اُمی  انسان  اُسے بآسانی عمل کے لیے سمجھ لے !
وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلاَئِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَـؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ [2:31]
 

جس طرح ہر انسان کے والدین الگ ہوتے ہیں ۔ لیکن سب  والدین کی بنیادی صفت ایک ہوتی ہے ۔جن کا اظہار بچے کے رویے پر ہوتا ہے ۔
اِسی طرح، ہر انسان کا اپنا ”الہہ“ ہے۔ لیکن”ال الہہ“ صرف ایک ہوتا ہے جسے عربی میں ”اللہ“  اور انگریزی میں The God کہتے ہیں۔ اور اِس ہستی کی خصوصیات بہت ہیں۔ الکتاب میں انسانوں نے  99  خصوصیات  تلاش کی ہیں۔ ہم ترجمے  میں ”القہار“ کی خصوصیت کو ”الرحمٰن“ کی جگہ تبدیل نہیں کر سکتے  اور نہ ہی دو ہستیاں قرار دے سکتے ہیں، جیسا کہ ”ہندو مت“ میں ہیں۔ 
    کسی بھی خطے میں بولی جانے والی زبان میں الفاظ کی یہ پیچیدگیاں علماء ادب کی پیدا کردہ  ہیں ورنہ روز مرہ بولی جانے والی زبان نہایت سادہ ہوتی ہے یوں سمجھئے کہ ”امّی“  یا دوسری زبان بولنے والے افراد اپنا مطلب بہتر طریقے سے واضع کر سکتے ہیں۔
یہاں ایک غلط فہمی کہ اُمّی  کا ترجمہ اُن پڑھ یا کم علم کیا جاتا ہے ، جس انسان میں اللہ کی عطاکردہ پانچوں حواس میں سے  ایک بھی حس ہوگی ، اُس کے تحت الشعور میں اُس حس  کے ذریعے جمع ہونے والی معلومات  ضرور ہوں گی ۔
لہٰذا کسی ہمہ گیر اور جامع زبان کی یہ بنیادی خوبی ہوتی ہے کہ وہ آسان ہو۔
روح القّدس نے اللہ کا پیغام محمدﷺ  کو بتایا  ::


وَلَوْ جَعَلْنَاہُ قُرْآناً أَعْجَمِیّاً لَّقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آیَاتُہُ أَأَعْجَمِیٌّ وَعَرَبِیٌّ قُلْ ہُوَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا ہُدًی وَشِفَاء  وَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُونَ فِیْ آذَانِہِمْ وَقْرٌ وَہُوَ عَلَیْہِمْ عَمًی أُولَـٰئِكَ یُنَادَوْنَ مِن مَّکَانٍ بَعِیْدٍ (41/44)   
اگر ہم اُس  (الکتاب )  کو عجمی ( عربی کے علاوہ  کوئی  اور زبان) میں قُرْآناً   قرار دیتے  تو وہ (ضرور) کہتے کہ اس کی آیات مفصّل کیوں نہیں؟
کیا عجمی اور عربی؟ کہہ!  وہ ان  لوگوں کے لئے جو ایمان لائے ھدایت اور شفا ہے   .  اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے اور اِن کے اوپر اندھا پن ہے، وہ  دور کے مکان سے پکارے جا تے رہتے ہیں ۔

 
         اب صورتحال یہ ہے کہ ہم ”الکتاب “ سمجھنا چاہتے ہیں لیکن علماء ادب کہتے ہیں کہ ”عربی“ بہت مشکل زبان ہے۔
اتنی مشکل کہ عام آدمی اس کو نہیں سمجھ سکتا اور پھر کتاب اللہ کو سمجھنے کے لئے ”سولہ علوم“ پڑھنے پڑھتے ہیں پھر کہیں جا کر کچھ شدھ بدھ پیدا ہوتی ہے۔ اب وہ لوگ جو دل میں یہ  جذبہ رکھتے ہیں کہ ”الکتاب “  کو سمجھیں وہ اِسے بھاری پتھر سمجھ کر چھو ڑ دیتے ہیں یا رسمی عربی میں پڑھتے رہتے ہیں اور انہیں،یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اس میں کیا لکھا ہے۔
         اگر کوئی با ہمت کمر باندھ لے تو وہ بھی مختلف تراجم کے گرداب میں پھنس جا تا ہے۔ ہر ترجمہ دوسرے سے مختلف، عربی گرامر کو اپنی سوچ کی گرامر کے مطابق مترجم نے تبدیل کیا ہو تا ہے نیز بامحاورہ ہوتا ہے اور ہر مترجم نے محاورے اپنی سوچ کے مطابق استعمال کئے ہوتے ہیں۔ جب کسی عالم سے وضاحت لی جاتی ہے تو ایک عالم کا مشورہ ہوتا ہے کہ فلاں عالم کی تفسیر پڑھو۔ دوسرا کہتا ہے کہ نہیں فلاں عالم بہت ماہر ہے۔ علم و ادب اس کے سامنے ہاتھ باند ھے کھڑے ہیں اور فصاحت و بلاغت اس نے کوزے میں بند کر کے اپنے زانو تلے دبایا ہوا ہے۔ بہرحال اگر وہ بے چارہ کمر کس کے علماء ادب کے تالاب میں غوطہ زن ہوتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ آگے محیط، تاج، راغب، لین اور نجانے کون کون بیٹھے ہیں۔
اور سب سے بڑے دکھ کی بات تو یہ ہے کہ جس کلام کو اللہ نے شدت سے شاعری سے الگ اسلوب کہا ہے۔  ہم اسی کلام اللہ کو جہلائے عرب کی شاعری سے سمجھنے کہ کوشش کرتے ہیں۔ استغفراللہ:
            اُفق کے پار بسنے والے ، نیک دل دوستو :  معلوم ہوتا ہے کہ میں نے بھی آپ کو پریشان کر دیا ہے اور آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بھئی اب تو ہمارے ہاتھ پاؤں بالکل بندھ گئے ہیں۔ اب کریں تو کیا کریں؟ 
دراصل لوگ آپ کو سورج،روز روشن میں ٹارچ کی مدد سے دکھا رہے ہیں۔ جب کہ سورج تو دیدہ بینا کو بغیر اشارے کے نظر آتا ہے۔ ہاں دیدہ کور کو وضاحت سے بتانا پڑتا ہے کہ سورج کیا ہے۔ کیسا ہے؟ اور اس کے کیا کیا فائدے ہیں؟ اب ہم آتے ہیں ”کتاب اللہ“ کی طرف۔ اللہ تعالیٰ کے مطابق:۔
وَلَوْ جَعَلْنَاہُ قُرْآناً أَعْجَمِیّاً لَّقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آیَاتُہُ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔۔ ۔ (41/44)
اگر ہم اُس  (الکتاب )  کو عجمی ( عربی کے علاوہ  کوئی  اور زبان) میں قُرْآناً   قرار دیتے  تو وہ (ضرور) کہتے کہ اس کی آیات مفصّل کیوں نہیں؟  
       اب یہ آیت اتنی جامع اور واضع ہے اور ہمیں اس تردد سے نکالتی ہے کہ


”بھئی قرآن کی عربی بہت یہ مشکل زبان ہے“

اس بات کا خیا ل رہے کہ اللہ تعالیٰ عربوں سے مخاطب نہیں بلکہ الناس سے مخاطب سے اور خود کہہ رہا ہے، ”اگر ہم قران کو (عربی کے بجائے) عجمی (یعنی دنیا کی کسی اور زبان میں) میں نازل کرتے تو وہ (لوگ جو اس کو مشکل سمجھتے ہیں ضرور) کہتے کہ اس کی (بسم اللہ سے لے کر والناس تک جتنی بھی) آیات ہے مفصل نہیں ہیں؟“۔
 یہ اللہ کے الفاظ ہیں جو ”الکتاب “ میں درج ہیں مگر اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ ”الکتاب “ کی تمام آیات تفصیل یا تفسیر کے بغیر سمجھ نہیں آتیں۔(نعوذ بااللہ) القرآن مجمل ہے۔
کِتَابٌ فُصَّلَتْ آیَاتُہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً لَّقَوْمٍ یَعْلَمُونَ  ﴿41/3فصلت

کِتَابٌ، جس کی آیات مفصّل  ہیں قَوْمٍ یَعْلَمُونَ کے لئے قُرْآناً عَرَبِیّاً  ہے۔
       اللہ کے مطابق ”الکتاب “ کی آ یات ”مفصل“ ہیں۔ یعنی ہر آیت عربی پڑھائی میں تفصیل لئے ہوئے ہے مگر اس کے لئے شرط یہ ہے کہ یہ علم والوں کے لئے مفصل ہے۔ بے علم اسے " مجمل "  ہی سمجھیں گے۔
       علم والا بننے کی سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ اِس مضمون میں جتنی آیات لکھی ہیں اُن کے حوالے بھی ہیں آپ ”الکتاب “ میں لکھی ہوئی آیات سے اِن کو ملائیں۔ اپنے حافظے سے کام مت لیں آپ کی آنکھو ں ،  دماغ اور ذہن سے ، اس آیت کی تصدیق کرتے ہیں۔ تو آپ کے پاس جو علم آیا (کہ یہ آیت ”الکتاب “ کی ہی ہے) کس نے دیا؟
یعنی عالم کون ہے جو آپ کو علم دے رہا ہے؟
آئیے دیکھتے ہیں:-
٭-       اگر ہماری لکھی ہوئی آیت ”الکتاب“ کی عربی آیت سے نہیں ملتی تو یہ ”الکتاب“ کی آیت نہیں۔ تو عالم ہم ہوئے۔ (آیت سے مراد مکمل آیت ہے نہ کہ اس کے اپنے مرضی سے منتخب حصے۔ جو ”الکتاب“ میں لکھی ہوئی آیت  کی وضع (مفہوم   )  ہی تبدیل کر دیتے ہیں ۔
٭-       اگر ہماری لکھی   یعنی پیسٹ  کی  ہوئی  آیت ”القرآن “ کی آیت سے ملتی تو یہ   الفاظ ،

رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَکے دھانِ مبار ک سے ادا ہوئے ،اللہ  کی آیت ہے۔ لہٰذا عالم اللہ ہوا۔

٭-       اگر ہماری لکھی ہوئی آیت ”الکتاب“ کی آیت سے نہیں ملتی اور آپ ہماری آیت کو ”الکتاب“ کی آیت میں ترمیم مان کر چھوڑ دیتے ہیں اور ”الکتاب“ کی آیت کو صحیح مانتے ہیں تو عالم اللہ ہوا ہم نہیں۔ کیوں کہ آپ نے ہماری آیت کو قبول نہیں کیا ۔
بالا آیت  (29/45)   کا ترجمہ آپ نے آیت کے ساتھ پڑھا ، جس میں  روح القدّس نے الصلاۃ کی وضاحت کی ہے ، یہ حکم میرے یا آپ کے لئے نہیں محمدﷺ کے لئے ہے ، جس میں  اللہ نے اہمیت ،    الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ کی طرف جانے سے  منع   کرنے کے لئےالکتاب سے بذریعہ   ،     ذِكْرُ اللَّـهِ أَكْبَرُ    دی ہے  جو  أَقِمِ الصَّلَاةَ سے ہی ممکن ہے۔
 جلد باز ، بھلکّڑ ، ناشکرا، عہد کا  پاس نہ کرنے والا   ،اللہ کی آیات  سے کذب اور انکار  کرنے والا ، جیسی  پانچ  بنیادی  (اِن بلٹ ) خصوصیت   رکھنے والا ،  انسان کوئی  طریقہ صنعت کر لے،    لیکن وہ       الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِسے نہیں بچ سکتا!

٭٭٭٭٭عربی و عجمی -2 ٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔