Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 11 اگست، 2013

Arabi-o-Ajami-2

 

   اب آپ نے الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِسے  رُکنے کے لئے  کس عالم کو پکڑنا ہے؟
یہ فیصلہ آپ کا ہے۔ ہمارا نہیں لیکن ہم آپ کو شدت سے کہتے ہیں کہ آپ نے  الکتاب کی آیات تلاوت  کرتے ہوئے ، رحمت للعالمین   کے طفیل ، اپنا عالم ، اللہ  بنانا ہے کسی انسان کو نہیں۔  انسان تو عالم بن ہی نہیں سکتا !
ہم نے اللہ کو عالم مانا ہے آپ بھی اللہ کو عالم بنائیں۔

الرَّحْمَنُ  O عَلَّمَ الْقُرْآنَ  (2-1/ 55 )
الرحمٰن۔ القران کا علم دیا۔

     آپ کو معلوم ہو گیا کہ عالم کون ہے۔ الرحمٰن: اس نے القران کا علم دیا۔ کیوں دیا؟ کیوں کہ اس نے انسان کو خلق لہٰذا اس نے انسان کو اسے بیان کرنے کا علم بھی دیا۔
خَلَقَ الْإِنسَانَ  O عَلَّمَہُ الْبَیَانَ  (4-3/ 55 )
 انسان کو خلق کیا۔ اسے بیان کرنے کا علم دیا۔

وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنزِلَ إِلَیْکُم مِّن رَّبِّکُم مِّن قَبْلِ أَن یَأْتِیَکُمُ العَذَابُ بَغْتَۃً وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ  (39/55)  
اور اس بہتر چیز کی اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے ”تمہاری طرف نازل کی گئی ہے“۔  اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تم کو اس کا شعور نہ ہو۔

    اِن آیات کو غور سے پڑھیں۔ اللہ کہہ رہا ہے کہ اگر میرے عذاب سے بچنا چاہتے ہو شیطان کی اتباع کر کے تم نے اپنے نفسوں پر جو اسراف کر لیا ہے۔ اس کوختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ میری طرف رجوع کر لو اور اسلام لے آؤ اور اس بہتر چیز کا اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے
”تم پر نازل ہوئی ہے“۔ تو اس صورت میں اللہ سارے گناہ معاف کرے گا ورنہ حسرت آہ بن کر نکلے گی۔ کاش اگر اللہ مجھے ہدایت دیتا تو آج کے دن میں بھی متقین کی صف میں کھڑا ہوتا۔
٭۔ اللہ علم سکھاتا ہے اور اللہ ہی ہدایت دیتا ہے۔ کیا آپ کو یہ بات پہلے معلوم تھی؟
 اگر ہاں تو کیا آپ نے اللہ سے علم سیکھا اور اللہ ہی سے ہدایت لی یا من دون اللہ سے علم سیکھا اور انہیں سے ہدایت لی!!
اگر آپ نے اللہ ہی سے علم سیکھا اور اللہ ہی سے ہدایت لی تو پھر آپ سورۃ الزمر کی آیت
(39/55) میں اللہ، جو حکم دے رہا ہے۔
”اور اس بہتر چیز کی اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کی گئی ہے“۔
 اس آیت پرتو آپ ضرورچونکے ہوں گے۔ کہ یہ بہتر چیز (الکتاب) تو ہم سے بہت پہلےماضی بعید  میں  نازل ہوئی ہے۔ 
ہم پر کہاں نازل ہوئی ہے ؟      کیا اِس آیت میں نقص ہے  ؟
”الکتاب“ ہم پر اس وقت نازل ہو گی جب ہم اللہ کا حکم ہو بہو ما نیں گے۔
قُرآناً عَرَبِیّاً غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ لَّعَلَّہُمْ یَتَّقُونَ   (39/28)
عربی میں قُرآناً کسی عیب (یا نقص) کے بغیر ہے تا کہ وہ متقی بن جائیں۔
نقص القرآن کو عربی میں پڑھنے پر نہیں بلکہ عجمی میں پڑھنے پر ہے کیونکہ عربی میں ہونے کی وجہ سے اس کی آیات مفصل ہیں۔ جب ہم اسے عجمی میں پڑھتے ہیں تو اس کی تفاسیرمیں  تاریخ سے ہمیں دوسروں کا ذکر ملتا ہے۔ با ئیبل کے قصے کہانیاں ملتی ہیں۔ جبکہ عربی میں پڑھنے سے ہمیں اِس میں ہمارا اپنا ذکر ملتا ہے اور با ئیبل کے نہیں بلکہ خود اللہ کے بتائے ہوئے ”احسن القصص“ ملتے ہیں۔
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ ہَذَا الْقُرْآنَ وَإِن کُنتَ مِن قَبْلِہِ لَمِنَ الْغَافِلِیْنَ    (12/3)
ہم تجھے ان قصوں میں سے  أَحْسَنَ الْقَصَصِ بتاتے ہیں جو ہم نے وحی کئے تجھ پر اس الْقُرْآنَ  میں۔ اور اس سے پہلے تو اس سے بے خبر تھا۔
گو یا القرآن میں اللہ تعالیٰ نے خود بہترین قصے بتائے ہیں۔ بہترین اس لئے کہ:-
    اول۔ یہ اللہ نے  روح القدّس  کے ذریعے خود بتائے ہیں۔
    دوئم۔ ان تمام قصوں پر ختم النبوت ﷺہے۔

      ان کے علاوہ وہ قصے جو قرانی مماثلت کے مطابق پائے جاتے ہیں۔ خواہ کتنے ہی مفصل کیوں نہ ہوں، یا ان کی تصدیق کے لئے کتنے ہی مصدقہ حوالے کیوں نہ دئے گئے ہوں، بائیبل میں ہوں یا انسانی بیان کردہ یا تحریری تاریخی قصے ہوں۔ جن کی اللہ نے کوئی سند نہیں دی۔ کسی بھی صورت میں ”احسن القصص“ نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ ان کی سچائی کے بارے میں القرآن کا قاری بے خبرہے۔ صرف القرآن میں اسے ”احسن القصص“ ملتے ہیں۔ جن کے اوپر ”ختم النبوت“ ہے۔
لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَیْکُمْ کِتَاباً فِیْہِ ذِکْرُکُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (21/10)  
حقیقت میں ہم نے تمہاری طرف جو کتاب نازل کی ہے اس میں تمہارا ذکر ہے، کیا تم عقل نہیں رکھتے!
    اس کتاب میں ہمارا ذکر ہے جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے۔ کسی اور کا نہیں! صرف ہم نے خود کو پہچاننا ہے کہ ہم ”الکتاب“ کے مطابق کن لوگو ں کی صف میں کھڑے ہیں۔ ہم اپنے تنیں خود کو جو مرضی کہیں۔ یہ فیصلہ تو اللہ نے پہلے سے کر دیا ہے اور ہمارے کردار کے بارے میں ”الکتاب“ میں لکھ دیا ہے۔ وہ ”الکتاب“ جو متقین کے لئے ہدایت ہے کیونکہ اس میں ان کے لئے بلند پایہ پڑھائی ہے اور یہ بلند پایہ پڑھائی کتاب اللہ کی لکھائی میں مکان کی گئی ہیں۔ اگر یہ لکھائی ہم پر آشکار ہو جائے تو ہم تب ہم طاہر ہیں ورنہ نہیں۔
 إِنَّہُ لَقُرْآنٌ کَرِیْمٌ (77) 
 یقینا وہ قُرْآنٌ کَرِیْمٌ کے لئے ہے۔
 فِیْ کِتَابٍ مَّکْنُونٍ (78)
(جو)  کتاب میں مَّکْنُ(مکان)  کیا گیا ہے۔
لَّا یَمَسُّہُ إِلَّا الْمُطَہَّرُونَ (79)
اس کو سوائے مُطَہَّرُونَ کے کوئی نہیں مَسُّکر سکتا
تَنزِیْلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ (80)
 
رَّبِّ الْعَالَمِیْنَکی طرف سےتَنزِیْلٌ ہے۔
أَفَبِہَذَا الْحَدِیْثِ أَنتُم مُّدْہِنُونَ (81) 
 کیا تم اس الْحَدِیْثِ کو       دْہِنُ   ( سرسری )  سمجھتے ہو۔
وَتَجْعَلُونَ رِزْقَکُمْ أَنَّکُمْ تُکَذِّبُونَ (82) الواقعة
 اور اس کے کَذِّبُکو تم اپنا    رِزْقَ  بناتے ہو۔
    کتاب اللہ کو سمجھنے کے لئے آپ نے خود کو طاہر بنانا ہے۔ وہ اس طرح کہ تمام من دون اللہ خیالات کو اپنے ذہن کی سلیٹ سے بالکل صاف کر دیں۔ کتاب اللہ میں جو کلام اللہ لکھا ہوا ہے اس کی ایک ایک آیت پر خود غور کریں اس کا لفظی ترجمہ کریں تو آپ کو الکتاب کا علم آئے گا۔ کہ جو آیت آپ نے پڑھی وہ کتاب اللہ کی ہے۔ آپ نے ان کی کتاب اللہ سے تصدیق کر لی کہ واقعی یہ کتاب اللہ کی ہی آیات ہیں۔
    کتاب اللہ میں جو کلام اللہ لکھا ہوا ہے اس کی ایک ایک آیت پر خود غورکریں اس کا لفظی ترجمہ کریں تو آپ کو اپنے نفس سے اللہ کا پیغام  رسول اللہ کی تلاوت کی صورت میں مبعوث ہوتامحسوس ہوگا۔آپ کو
”الکتاب“ کا علم آئے گا۔آپ میں ”الحکمت“ پیدا ہوگی۔(کہ اللہ کی کس”آیت“ کا کس موقع پر استعمال کیا جائے)  اور (اس طرح) آپ کا ”تزکیہ“ ہوگا۔اور ہمارے تزکیہ کے لئے ابراہیم ، خلیل اللہ ، اما م الناس  اللہ سے دعا مانگ رہے ہیں کہ  رسول ہمارا تزکیہ اللہ کی آیات تلاوت کرتے ہوئے ،     الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ سے کرے ۔
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ إِنَّکَ أَنتَ العَزِیْزُ الحَکِیْمُ (2/129)
ہمارے رب! تو بعث کر اِن میں رسول، اُن میں سے۔ وہ اُن پر تیری آیات تلاوت کرتا رہے اور اُن کو الْکِتَابَ  اور الْحِکْمَت  کا علم دیتا رہے اور اُن کا تزکیہ کرتا رہے۔بے شک تو العزیز اور الحکیم ہے۔
     جس زبان کو آپ سمجھ سکتے ہیں۔ وہ آپ کے لئے عربی ہے اور جس زبان کو آپ مشکل سے مختلف الفاظ و معانی کا سہارا لے کر سمجھتے ہیں وہ آپ کے لئے عجمی  ہوتی ہے۔ مثلاََ دو پٹھان آپس میں عربی ہیں اور پنجابی ان کے لئے عجمی۔ جبکہ پنجابیوں کے لئے پشتو اوربلوچی عجمی زبان ہے۔ اسی طرح کتاب اللہ کی زبان عربی ہے اور خطہ ء عرب میں بولی جانے والی زبان کتاب اللہ کے لئے عجمی ہے۔ آپ یقیناََ حیران ہوں گے۔ لیکن یہ حقیقت ہے۔

    اگر آپ کو وہ بات سمجھ آ گئی ہے جس کی اوپر  وضاحت ہوئی ہے تو
”الکتاب“ اٹھائیے اور اللہ سے علم سیکھئے۔ ”الکتاب“  کی عربی مشکل زبان نہیں نہایت سادہ اور آسان ہے آج کل آپ کو بازار سے ایسے نسخے مل جائیں گے جن میں ہر الفاظ کا الگ الگ اردو میں ترجمہ کیا ہوا ہے۔ یہ الگ الگ ترجمہ عربی متن کے نہایت قریب ہے سوائے چند الفاظ کے۔ جہاں آپ کو شک لگے کے ”الکتاب“ سے پہلے صحوف میں اس لفظ کا ترجمہ اور تھا اور اب اور ہے تو آپ اپنے لئے اردو ترجمے میں ”عربی“ لفظ کو ہی شامل  رکھیئے۔ آپ کو تھوڑی مشکل ضرور ہو گی لیکن آپ کلام اللہ کو غلط سمجھنے کے مرتکب نہیں ہو گے۔ ایک اور اہم بات، کہ اہمیت اس بات کی نہیں، کہ آپ کو ایک یا کچھ مشکل الفاظ کا ترجمہ سمجھ میں نہیں آیا بلکہ اہمیت اس بات کی ہے جو آیات آپ کی سمجھ میں آئی ہیں ان پر آپ نے کتنا عمل کیا؟۔
      آپ نے خطہء عرب میں بولی جانے والی زبان اور
”الکتاب“ کی زبان میں ضرور  کچھ فرق ضرور محسوس کیا ہوگا۔ خطہء عرب میں بولی جانے والی زبان ”الکتاب“ کی زبان  کے لئے "عجمی "ہے۔کیوں کہ اُس کے الفاظ اور معنی تبدیل ہوتے جا رہے ہیں ۔ 
 تو آئیے من دون اللہ کی زبان، قواعد اور گرامر بھول جا ئیں اور اللہ کی زبان    پڑھیں اور سمجھیں۔ جس میں آج بھی اللہ کے احکامات اور اس کے رسولوں کی بشارت اور تنذیر، ماضی۔ حال اور مستقبل کے بارے میں موجود ہیں اور آج سے دس ہزار سال بعد کے لوگوں کو بھی انہی صیغوں میں یہ احکامات اور تنذیرات ملیں گی۔
       اگر آج اللہ کہہ رہا ہے ”وہ کہتے ہیں“ تو اپنے اردگرد نظر ڈالیے آپ کو اکثر لوگ مل جائیں گے جو ”کہتے ہیں یاکہیں گے“۔
  مجھے امید ہے کہ اگر آپ نے سورۃ البقرہ بالفاظ ترجمہ پڑھ لی تو پھر آپ کے لئے باقی الکتاب نہایت آسان ہو جائے گی۔ ”الکتاب“ ہماری ٹیکسٹ بک ہے ہمارا امتحان اس میں سے ہو گا۔
    اللہ ہمیں قلب ِ محمدﷺ پر نازل کی جانے والی وحی، بذبانِ محمدﷺ بتا رہا ہے۔ کیا اس ”الحدیث“ کی تبدیلی ممکن ہے؟ کبھی آپ نے غور کیا؟
وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّہَا وَوُضِعَ الْکِتَابُ وَجِیْء َ بِالنَّبِیِّیْنَ وَالشُّہَدَاء  وَقُضِیَ بَیْنَہُم بِالْحَقِّ وَہُمْ لَا یُظْلَمُونَ (39/69)
اور الْأَرْضُ   اپنے رَبِّ کےنُورِ سے جگمگا اٹھے گی۔ اور الْکِتَابُ ، وُضِعَ کردی جائے گی۔ النَّبِیِّیْنَ اور الشُّہَدَاء  لائے جائیں گے اور ان لوگوں کے درمیانالْحَقِّ کے ساتھ قُضِیَ ہو گا اور ان پر ظُلَم  نہیں کیا جائیگا۔ 
 وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَہُوَ أَعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُونَ (39/70)
اور ہر نفس کو اس کا  پوراعمل  دیا جائے گا۔ اور  ہراُس (نفس) کو علم ہے جو فعل وہ کرتے  رہتے ہیں۔

أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِ اللَّہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقَّ وَلَا یَکُونُوا کَالَّذِیْنَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُہُمْ وَکَثِیْرٌ مَّنْہُمْ فَاسِقُونَ (57/16)
کیا ایمان والوں کے لئے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل عاجزی کے ساتھ اللہ کی یاد  اور اس کے نازل کردہ حق کی جانب جھک جائیں؟  اور وہ ان لوگوں کی مانند نہ ہو جائیں جنھیں اس سے قبل‘  الکتاب! دی گئی اور ایک عرصہ دراز گزرنے کے بعد ان کے دل سخت ہو گئے  اور ان کی اکثریت فاسق ہے۔
٭٭٭٭٭عربی و عجمی -3 ٭٭٭٭٭٭  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔