Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 3 اگست، 2013

تاریخ کے تالاب میں غوطہ زنی


             گو کہ ہم خود کو تو نہیں سمجھتے لیکن آج کل کی نوجوان نسل ہمیں پتھر کے زمانے کا انسان ہی سمجھتی ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ اتوار کو اچانک ہم صاحب فراش ہو گئے۔ اور یہ سب کچھ چشم زدن ہو گیا۔ ایک نہایت خورد بینی قسم کا ذرہ خون، ناقص ہونے کے بعد ٹہلتا ہوا دماغ کی طرف جا نکلا اور وہ بھی Logical Brainمیں جو دماغ کے بائیں حصے میں پایا جاتا ہے، چنانچہ جسم کا دایاں حصہ کچھ دیر سُن رہنے کے بعد اپنی اصلی حالت پر تھوڑے سے فرق کے ساتھ آگیا۔

       عیادت کونوجوان دوست بھی آئے۔ باتوں باتوں میں عربی زبان کا ذکر نکلا اورپھر جب سلسلہ چھڑے تو ماضی کا چکر ضرور لگتا ہے۔ چنانچہ بر سبیل تذکرہ انہیں بتایا کہ عربی کی جتنی بھی کتب لکھی گئیں وہ عجمیوں نے لکھی، صرف و نحو کے قواعد بھی انہوں نے بنائے  چنانچہ الفاظ تو عربی کے تھے مگر اُس میں سارے تصورات، استعارات اور حکایات، عجمی تھیں اس طرح عجمی لٹریچر نے عربی پیراہن اورڑھ لیا۔یوں عجمی لٹریچر نے عربی لٹریچر کو ایک نئے رنگ میں ڈھال دیا۔ مستند تحریری تحقیق کی بنیاد پر، عربی کی پہلی خالص اور عجمی تصورات سے بے نیاز کتاب صرف اور صرف ایک ہے اور وہ،”الکتاب“  ہے۔  جب تک یہ عربی میں رہتی ہے (الحمد سے لے کر والناس تک) تو یہ ناقابل ِ بیاں حد تک خالص ہے جو ں جوں اس کا ترجمہ اور تفسیر شروع ہوتی ہے اتنی ہی اس میں عجمیت بڑھتی جاتی ہے۔ نو جوان دوستوں نے ایک دوسرے کو مشکوک انداز میں دیکھا۔ اور اجازت لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے،”جناب اجازت دیں آپ کی طبعیت ٹھیک ہو گی تو پھر حاضر ہوں گے“۔

    اُن کے جانے کے بعد بوریت کوختم کرنے کے لئے  تاریخ کے تالاب میں غوطہ زنی کا دل چاہا۔ کہ دوبارہ دیکھتے ہیں کہ پہلی تفسیر کب لکھی گئی۔ کیوں کہ جہاں تک میری ناقص یاداشت ساتھ دیتی ہے۔ دس ھجری،نو ذی الحج کو عرفات کی پہاڑی پر آپ ﷺ نے،  ”الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً“  کے  الفاظ ادا کرنے کے بعد اُس سلسلہء  وحی کے خاتمے کا باضابطہ اعلان کیا جو:  ”اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ“  سے شروع ہوا تھا۔ جس کو انسانیت تک پہنچا کر، اُن کو سمجھا کر، اُن سے عمل کرواکر، اور اُن کی زندگیوں میں اِس کی بدولت تبدیلی لا کر،  آپﷺ نے اُن سے گواہی بھی لے لی۔ آپ کا ارشاد خطبہ ء حجۃ الوداع کہلایا گیا جو کم و بیش ایک لاکھ افراد نے سنا یا اِن کو قیام ِ منیٰ کے دنوں میں سنایا گیا۔اتنا اہم اعلان کہیں بھی لکھا نہ گیا چنانچہ تاریخ کی کتب میں یہ ٹکڑوں کی صورت میں مختلف جگہوں پر بکھرا ہوا ہے۔  زبانی، آیات اور آپ سے منسوب ارشادات واحکامات سنانے کا یہ عمل چلتا رہا۔ یہاں تک کہ تدوین”القرآن“  کاعمل شروع ہوااور  ”الکتاب“  وجود میں آئی: تاریخ اسے حضرت عثمانؓ (23سے 35ھجری)کا دور بتاتی ہے۔ کئی نسخے بنائے گئے اور مختلف صوبوں میں بھجوا دئے گئے۔ یہ  پہلی عربی کی کتاب تھی جو وجود میں آئی۔ باقی اگر کوئی کتاب  عربی زبان میں موجود ہوئی بھی تو اُس کی ضخامت چند صفحوں سے زیادہ نہ ہو گی۔ لیکن تاریخ اس بارے میں خاموش ہے۔

٭۔    پہلی کتاب،موطہ امام مالک، ایک یمنی مہاجر۔امام جعفر صادق ( 83تا 148ھجری)کے شاگرد امام مالک ( 93تا 179ھجری)نے  لکھی جس میں پانچ لاکھ     قول منسوب الی الرسول سے صرف 2,400  مستند سمجھ کر اپنی موطا میں جگہ دی۔   باقی سب انہوں نے مسترد کر دیں۔ جن کی تعداد  97,600بنتی ہے۔

٭۔    دوسری کتاب میں، بغدادی مسلک کے اما م ابو یوسف نے ( 113تا 187ھجری)،   نے اپنے استاد امام ابو حنیفہ ( 80تا 150ھجری) کے ارشادات قلمبند کئے

٭۔    تیسری کتاب،  مصری، اما م شافعی ( 135تا 188ھجری) نے مختلف فقہی ارشادات قلمبند کئے۔

٭۔    چوتھی کتاب،  بصری،بغدادی، اما م  احمد بن حنبل ( 164تا 241ھجری) نے مختلف فقہی ارشادات قلمبند کئے۔

٭۔    پانچویں کتاب،  ایرانی شہر بخارا کے رہنے والے،بغدادی، اما م  بخاری ( 194تا 256ھجری) نے لکھیجس میں پانچ لاکھ قول منسوب الی الرسول سے صرف         7,069  مستند سمجھ کر اپنی صحیح میں جگہ دی۔   باقی سب انہوں نے مسترد کر دیں۔ جن کی تعداد   92,931    بنتی ہے۔

٭۔    چٹھی کتاب،  ایرانی، سیستانی، اما م  ابو داؤد ( 202تا 275ھجری) نے لکھی جس میں پانچ لاکھ قول منسوب الی الرسول سے صرف 5,159 مستند سمجھ کر اپنی سنن     میں جگہ دی۔ باقی سب انہوں نے مسترد کر دیں۔ جن کی تعداد   94,841 بنتی ہے۔

٭۔    ساتویں کتاب،  ایرانی،نیشاپوری، اما م مسلم  ( 206تا 261ھجری) نے لکھی جس میں پانچ لاکھ قول منسوب الی الرسول سے صرف 7,587مستند سمجھ کر اپنی سنن میں جگہ دی۔ باقی سب انہوں نے مسترد کر دیں۔ جن کی تعداد   92,413 بنتی ہے۔

٭۔    آٹھویں کتاب،  ایرانی،قزوینی، اما م ابن ماجہ ( 209تا 273 ھجری) نے لکھی جس میں پانچ لاکھ قول منسوب الی الرسول سے صرف 4,342مستند سمجھ کر اپنی سنن میں جگہ دی۔ باقی سب انہوں نے مسترد کر دیں۔ جن کی تعداد   95,658 بنتی ہے۔

٭۔     نویں کتاب،  ایرانی،ترمذی، اما م ترمذی  ( 209تا 279 ھجری) نے لکھی جس میں پانچ لاکھ قول منسوب الی الرسول سے صرف 4,155 مستند سمجھ کر اپنی سنن میں جگہ دی۔ باقی سب انہوں نے مسترد کر دیں۔ جن کی تعداد   95,845 بنتی ہے۔

٭۔    دسویں کتاب،  ایرانی،خراسانی، نسائی ، اما م نسائی ( 214تا 302 ھجری) نے لکھی جس میں پانچ لاکھ قول منسوب الی الرسول سے صرف 5,764مستند سمجھ کر اپنی سنن میں جگہ دی۔ باقی سب انہوں نے مسترد کر دیں۔ جن کی تعداد   95,679 بنتی ہے۔

٭۔    گیارھویں کتاب،  ایرانی،طبرستانی، نسائی ، اما م محمد بن جریر طبری ( 224تا 310 ھجری) نے لکھی۔ کتاب التفسیر تھی جس نے دراصل، القرآن کی عربی کو ایک نیا رنگ اور نئے معنی پہنائے۔وہ تمام، کہانیاں اور اساطیر جو مختلف انبیاء، صالحین اور مومنین سے منسوب کر کے انسانی ہدایت کے لئے اپنی طرف سے، زخرف الاقوال اور زبانِ خلق کے درجے پر فائز کروانے کے بعد، اللہ کے نام سے مشہور کر دیں۔ اُن سب کو  اللہ تعالیٰ نے مسترد کردیا- ان کے ایک لفظ کو الکتاب
۔   ”الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً“  سے پہلے کوئی جگہ نہ دی طبری  نے  اِس میں اسرائیلیات، عیسائیات کے علاوہ  ایرانی لٹریچر و تخیلاتی تخلیقات کو شامل کرکے ایک ضخیم  تفسیر لکھی اور اِن سب کو مضبوطی میں باندھنے کے لئے سب کو مختلف شانِ نزول کی لڑی میں پرو دیا،  پھر اس کو مزید مستند بنانے کے لئے اسماء الرجال کا علم مشکوٰۃ کے مصنّف، امام محمد بن عبداللہ خطیب (متوفی 742ھجری)نے مختلف کتابوں کی مدد سے ایجاد کیا۔

    جسے آج کل عربی لٹریچر کہا جاتا ہے وہ عباسیوں (145ھجری کے بعد)نے مرتب کروایا کیونکہ امیوں کے اثرات کو زائل کرنا مقصود تھا۔اگر اُس دور کی حاکمیت کی تاریخ سے دھونڈا جائے، تو کوئی کانا، لنگڑا، گنجا، خواجہ سرا، ہم جنس پرست، منقے کے سروالا، موٹے پیٹ والا  حاکم مل جائے گا۔ جس کے اوپر مخالف علما نے اقوال گھڑ کر محمد الرسول اللہ سے منسوب کروا دیئے۔  جنگوں میں خوبصورت عورتوں کا قابو کرنا، ان کو نچوانا، ان کی ٹانگوں اور جسمانی اجزاء پر شاعری کرنا، رقم لٹانا، پٹھانوں کی طرح ہیروئن(شراب) بیچنا، لونڈے پالنا اور نمازیں پڑھنا۔ کثیر الطلاق کا ”گینز بک ایوارڈ لینا“۔ جنگ میں قابو کی ہوئی عورتوں سے باری باری اپنی ہوس کی پیاس بجھانا اور اِن پر ”مہر نبوت“ لگوانے سے ناکامی کے بعد ”باطل“ کو حق سے ملبوس کرنے کے لئے اُنہیں، محمد الرسول اللہ یا اُن کے اللہ تعالی کی طرف سے زندگی میں جنت کے لئے سرٹیفائیڈ اور کلاسیفائیڈ اصحاب سے منسوب کروانا اور پھر مزے اور چسکیاں لے لے کر، منبر الرسول پر کھڑے ہو کر بیان کرنا، اور سامنے بیٹھے ہوئے جاہلانِ مطلق سے واہ واہ اور سبحان اللہ کے نعرے لگوانا۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب  مدینہ اور مکہ سے باہر دارالخلافوں میں کتب احادیث  و  تاریخ و آثار مرتب ہوئیں۔ مصحف عثمانی کی تفاسیر لکھی گئیں۔

عربی ادب کی کتابیں تالیف ہوئیں اور عربی زبان کے صرف و نحو کے قواعد مدوّؤن ہوئے اور لغتِ عربی کی کتابیں وجود میں آئیں اور سب سے حیرانگی کی بات اِن سب کتابوں کے لکھاری عجمی تھے اور یہی کتابیں آج کل عربی زبان کا ”عظیم سرمایہ“ ہیں۔

إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَعِبْرَۃً لَّأُوْلِیْ الأَبْصَارِ     

مضمون پڑھنے کے بعد اگر پسند آئے تو نیچے خانے میں کمنٹ لازمی دیں ، اور باقی دوستوں کے ساتھ بھی شئیر کریں ۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔