Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 10 اگست، 2013

اللہ کی منطق بمقابلہ انسانی

    القرآن کے پہلے حافظﷺ نے ۔بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سے مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ  تک ،  عربی آیات کی تلاوت   میں صدیوں پہلے   یہ آیت بطورمنطق  بھی  چار بار تلاوت کی :۔

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ[54:17]۔[54:22]۔[54:32]۔[54:40] 

لیکن انسانی منطق کے مطابق  ،آپ القرآن حدیث کے بغیر نہیں سمجھ سکتے۔؟ اور  حدیث کو سمجھنے کیلئے مندرجہ ذیل علوم سیکھنے ہونگے ۔ورنہ قرآن  توبعد کی بات  ہے ،حدیث  بھی سمجھ نہیں آئیگی!۔

   ٭۔محدث کی صداقت کا علم۔
٭۔اسناد حدیث کا علم۔
٭۔ حدیث عالی کا علم۔
٭۔
حدیث نازل کا علم۔
٭۔روایات موقوفہ کا علم۔
 ان اسناد کا علم جس کی سند پیغمبر اسلام سے ذکر نہ ہو۔ گویا کہ القرآن پہلے حافظ کہ طرف سے مصدق سند نہیں !!۔اور یہ سند تلاش کرنے کے لئے ۔
٭۔صحابہ کے مراتب کا علم۔

٭۔ اولاد اصحاب کے مراتب کا علم۔
اِس  کے بعد احادیث مرسلہ اور ان کے سلسلے میں پیش کی جانے والی دلیلوں کے مراتب مزید برآں:۔
٭۔ تابعین سے نقل کی گئی احادیث کا علم۔
٭۔ اسناد مسلسل کا علم۔
٭۔ احادیث معنعنہ کا علم۔
٭۔ روایات معضل کا علم۔
٭۔ احادیث مدرج کی پہچان کا علم۔
٭۔ تابعین کی شناخت کا علم۔

٭۔تبع تابعین کی معرفت۔

  تابعین کی شناخت کے بعد  اُن کےسلسلہءِ  

 ٭۔ ان صحابہ تابعین اور ان کے پیرویان میں سے جو راوی ہیں عصر حاضر تک ان کے قبائل کی معرفت۔

٭۔ صحابہ، تابعین اور ان کے بھائیوں،بہنوں کی عصر حاضر تک معرفت۔
٭۔ ان صحابہ، تابعین،تباع تابعین کی معرفت جن میں سے بس ایک راوی نے روایت کی ہو۔

 ٭۔ صحابہ، تابعین، تباع تابعین اور عصر حاضر تک ان کے پیرئوں کی نیت کا جاننا۔

٭۔ صحابہ، تابعین، تباع تابعین کی اولاد اور ان کے غلاموں کی معرفت۔

اصحاب  رسول  میں محدثین کی اہمیت ۔  

٭۔ محدثین کے ناموں کا علم۔
٭۔ محدثین کی عمر کی اطلاع۔ولادت سے وفات تک۔
٭۔ محدثین کے القابات کی معرفت۔

٭۔ محدیثین کے مذہب کی اطلاع۔

محدثین سے راویانِ مرویات۔
٭۔ روایان حدیث کے وطن کی پہچان۔

٭۔ ان راویوں کی معرفت جو ایک دوسرے سے قریب ہیں۔ 

٭۔ راویوں کے قبائل، وطن، نام، کنیت اور ان کے پیشوں میں متشابہات کی پہچان۔ 

٭۔  اکابر و اصاغر کی معرفت۔

 علم جرح و تعدیل کی معرفت کے بعد صحیح و سقیم کی پہچان کے لئے  علوم :۔
٭۔  فقہ الحدیث کا علم۔
٭۔ ناسخ و منسوخ احادیث کا علم۔
٭۔ متن میں جو غریب (نامانوس) الفاظ استعمال ہوں ان کا علم۔
٭۔ احادیث مشہور کا علم۔
٭۔ غریب اور نامانوس احادیث کا علم۔
٭۔ احادیث مفرد کی پہچان کا علم۔
٭۔ ان لوگوں کی معرفت جو حدیث میں تدلیس کر دیتے ہیں۔
٭۔ حدیث کی علّتوں کا پہچاننا۔
٭۔ شاذ روایات کا علم۔
٭۔ پیغمبر کی ان حدیثوں کا جانچنا جو دوسری احادیث سے معارض نہ ہو۔
٭۔ ان حدیثوں کی معرفت جن کا کوئی رخ کسی رخ سے معارض نہ ہو۔
٭۔ احادیث میں الفاظ زائد کی معرفت۔
٭۔ متون کی تحری غلطیوں سے آگاہی۔
٭۔ مذاکرہ حدیث کا جانچنا اور مذاکرہ کرتے ہوئے راست گو کی معرفت۔
٭۔ اسناد میں محدثین کی تحریری غلطیوں کی اطلاع۔
٭۔ صحابہ سے عصر حاضر تک کے محدثین کے انساب کا علم۔
٭۔ غزوات پیغمبر ان کے ان خطوط وغیرہ کا علم جو انہوں نے بادشاہوں کو تحریر فرمائے
٭۔ اصحاب حدیث نے جن ابواب کو جمع کیا ہے ان کی معرفت اور اس بات کی جستجو کہ ان میں سے کون سا حصہ ضائع ہو گیا ہے
٭۔ اس کے علاوہ احادیث کی مندرجہ ذیل اقسام کا علم بھی ہونا چاہئیے۔
٭۔صحیح
٭۔ حسن
٭۔ ضعیف
٭۔ مسند
٭۔ متصل
٭۔ مرفوع
٭۔ موقوف
٭۔ مقطوع
٭۔ مرسل
٭۔ معضل
٭۔ تدلیس
٭۔ شاذ
٭۔ غریب
٭۔ معنعن
٭۔ معلق
٭۔ مفرد
٭۔ مدرج
٭۔ مشہور
٭۔ مصحف
٭۔ عالی
٭۔ نازل
٭۔ مسلسل
٭۔ معروف
٭۔ منکر
٭۔ مزید
٭۔ ناسخ
٭۔ منسوخ
٭۔ مقبول
٭۔ مشکل
٭۔ مشترک
٭۔ موتلف
٭۔ مختلف
٭۔ مطروح
٭۔ متروک
٭۔ مول
٭۔ مبین
٭۔ مجمل
٭۔ معلل
٭۔ مضطرب
٭۔ مہمل
٭۔مجہول
٭۔ موضوع
٭۔ مقلوب
٭۔ حدیث ماثور
٭۔ قدسی
٭۔ عزیز
٭۔ زائد الثقہ
٭۔ موثوق
٭۔ متواتر
   مندرجہ بالا علوم سیکھنے کے بعد میں حدیثیں سمجھ کر پھر احادیث کے ذریعے قرآن   کی سمجھ اب بھی ممکن نہیں  ۔ کیوں کہ  بھٹکنے کا  امکان  اب بھی ممکن ہے لہذا قرآن کو صرف ثواب کی نیت سے ناظرہ پڑھتے رہو دین کو سمجھنا ہے تو ہمارے اکابرین نے قرآن کی تفاسير لکھی ہوئی ہیں۔بس وہ پڑھ لو۔تفاسیر کے انبار میں سے اب آپ کی ہمت ہے کہ کِس تفسیر کا آپ انتخاب کرتے ہیں یا آپ سے کروایا جاتا ہے ۔
٭۔اُم ِ تفسیر ابنِ جریر   الطبری (224-310ھ)کی 30 جِلدیں ہیں۔
٭۔تفسیر امام غزالی  (450-505ھ)کی 20 جِلدیں ہیں۔
٭۔تفسیر امام جوزی 40 جلدیں ہیں۔
٭۔تفسیر ابن النقیب 50 جلدیں ہیں۔
٭۔تفسير الافودی 120 جلدیں ہیں۔
٭۔تفسیر حدائق ذات بہجتہ 500 جلدیں ہیں۔
٭۔تفسیر مدارک التنزيل کی 7 جلدیں ہیں۔
٭۔معالم التنزيل کی 8 جلدیں ہیں۔
٭۔تفسير کبیر کی 8 جلدیں ہیں۔
٭۔روح المعانی کی 9 جلدیں ہیں۔
٭۔تفسیر مریسی کی 24 جلدیں ہیں۔
٭۔کتاب الجامع فی التفسير کی 30 جلدیں ہیں۔

 ٭۔کتاب التحرير و التجیر کی 50 سے زائد جلدیں ہیں۔

گھبرا گئے نا !!!۔ابھی ٹہریں۔
يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ
کے  الذِّكْرِ کی وساطت سے  مُّدَّكِرٍ،نہیں بنا جاسکتا ۔کیوں کہ پانچ پانچ اور سات سات جلدوں پر   مشتمل ،   بغوی، بیضاوی، کشاف، سخاوی، بلقینی، بقاعی، فراحی
شوکانی، مہائمی،. ابنِ تمیمہ ، مادردی، ابنِ منذر، ابنِ حیان، ابنِ فورک اور ابنِ طالب مکی    کی تفسیریں مزید  ہیں۔
 اس کے علاؤہ تشیع تفاسیر ،و دیگر فرقہ و مذہب کی تفاسیر کے انبار لگے ہوئے ہیں ۔ متقدمین کی تفسیروں  کے  بعد متأخرين کی  تفسیریں موجود ہیں  جن میں  شاہ عبدالقادر، شاہ اشرف علی، شاہ عبدالعزیز، شاہ محمود الحسن، ابوالکلام آزاد،ڈپٹی نذیر احمد، مولوی فیروز الدین، مولوی احمد علی لاھوری ،مولوی ثناءاللہ امرتسری  وغیرہ وغیرہ۔
أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب الشهير بالإمام الطَّبَرِي
(224-310ھ)کی   تفسیر ابنِ جریر کو چونکہ ام التفسير مانا گیا ہےلہذا اِس کا چھاپہ ہیں مگر تضادات سے بھری پڑی ہیں۔اور تفسیر ابنِ جریر کا مآخذ  10 ھجری کے بعد سے 310 ھجری تک  کی  روایات ہیں۔

گویا اللہ کی منطق ، القرآن کے پہلے حافظﷺ کےذریعے تلاوت کردہ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سے مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ  تک ،  عربی آیات مھجور کر کے انسانی نطق کےپیچھےدھکیل دی گئی ہیں۔

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا[25:30]

 پریشان نہ ہو یہی تو الرسول کا اپنی قوم  کے  سیاسی اکابرین کے مْكُرُ کا  گلہ ہے ۔ جو قریہ قریہ پھیلے ہوئے ہیں۔


وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُواْ فِيهَا وَمَا يَمْكُرُونَ إِلاَّ بِأَنفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ
[6:123]

اِنہیں آپ مروّج زبان میں سلفِ صالحین بھی کہہ سکتے ہیں۔

  ٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔