Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 8 اگست، 2013

میاں بیوی اور زندگی کا جھولا ۔


مرد اور عورت میں جسمانی  تفاوت احسن الخالقین کے پروگرام کا حصہ ہے ۔ جب کہ ذہنی تفاوت خود  مرد و عورت کا نصیب ہے جو وہ اپنے والدین ، سوسائٹی اور اساتذہ کی مدد سے حاصل کرتے ہیں۔

بچوں کی تربیت میں سب سے بڑا حصہ ماں کا ہوتا ہے ۔ کیوں کہ وہ سب بچوں کو برابر سمجھتی ہے ۔ لیکن خاندان کے بزرگ سب سے پہلے لڑکے اور لڑکی کی تفریق ڈالتے ہیں اور پھر بڑے اور چھوٹے کی۔ بچوں میں یہ تفریق اُن کے ذہن میں اُن کے مستقبل کا نقشہ ترتیب دیتی ہے اور یوں اُن کے حقوق بھی تقسیم ہوتے جاتے ہیں ، لیکن اگر بچوں میں اُن کے حقوق کےتقسیم حصہ بقدر جثہ ہو اور اُن کے درمیان خود مساوات ِ تقسیم کا اصول پیدا ہونے دیا جائے تو وہ بڑے ہو کر اِس پر قائم رہتے ہیں لیکن استثنائی صورت اُس وقت پیدا ہوتی ہے ۔جب اُن کے درمیان تفریق پیدا کرنے والا کھڑا ہوجائے ۔ وہ دوست بھی ہوسکتا ہے یا کوئی رشہ دار بچہ بھی ۔ جو اُسے اُس کے حق  کا    دوسرے  کو ترجیح دینے کا منفی سبق پڑھاتا ہے ۔کسی ایک بچے سے لاڈ اور پیار بھی اُس میں یہ استثنائی صورت پیدا کرتا ہے کہ میں بڑے  یا  چھوٹے سے بہتر ہوں ۔لڑکوں یا بیٹیوں میں یہ استثنائی صورت حال اُن کےجسمانی فرق سے تو ٹھیک ہو سکتی ہے لیکن ذہنی تفریق اُن میں ضد اور ہٹ دھرمی پیدا کرتی ہے اور وہ اپنے سے دوسروں کو کمتر سمجھنےلگتا ہے ۔

بلوغت کے بعد مرد اور عورت کے درمیان یہ تو طے ہے کہ اُن کا جوڑا بنے گا جس کے ساتھ وہ عائلی زندگی گذاریں گے ۔ فریق مخالف کون ہو گا او ر کیسا ہوگا؟ یہ وہ سوال ہے جسکو حل کرنے کے لئے پسند و ناپسند کا مرحلہ شروع ہوتا ہے ۔جس کے لئے کئی طریق کار اپنانے جاتے ہیں ۔جن میں سچ اور جھوٹ کی ملاوٹ مارکیٹ میں موجود کہانیاں کرتی ہیں ، جو اخبار ،رسائل ، کتابوں، ناول ، فلموں  اور ڈراموں  میں موجود ہوتے  ہیں ۔جن سے سب واقفیت رکھتے ہیں ، اور یوں مر اور عورت نکاح (ایجاب و قبول) کرکے اُس جھولے پر بیٹھ جاتے ہیں یا بٹھا دیئے جاتے ہیں جسے ہم اونچ نیچ کا جھولا (سی سا) کہتے ہیں ۔

      

جس کے توازن کو برقرار رکھنا شوہر اور بیوی کے ساتھ والدین اور پھر بچوں کا بھی کردار شامل ہوتا ہے ۔

٭۔پسند کی شادی میں شوھر اور بیوی کے درمیان وہ اصول توازن رکھتے ہیں  جو اُنہوں نے طے کئے ہوئے ہوتے ہیں ۔

٭۔والدین کی مرضی میں شوھر اور بیوی کے درمیان، اصول توازن والدین برقرار  رکھتے ہیں ، جن کو بگاڑنے کے لئے کئی بیرونی عوامل  حملہ آور ہوتے ہیں  ۔

٭۔جبر کی شادی میں شوھر اور بیوی کے درمیان ، اصول توازن   بیوی  کے مقابلے میں شوہر اور اُس کے والدین رکھتے ہیں   ۔

٭۔کورٹ میرج ، میں  بیوی  اپنے  اور شوہر کے درمیان   اصول توازن  بناتی ہے ۔جس کو ساری عمر قائم رکھنے کا توازن شوہر کے ذمے ہوتا ہے ۔

انا پرست مرد اور ضدی عورت کے درمیان یہ تفاوت اُن کی خاندانی زندگی پر اثر ڈالتا ہے ۔جن میں سب سے زیادہ نقصان میں خواتین رہتی ہیں۔ پسند کی شادی ہو یا جبر کی شادی ہو دونوں میں واضح فرق ہوتا ہے ۔ جبر کی شادی میں عورت کی شادی کو کامیاب سمجھا جاتا ہے کیوں کہ وہ ہمیشہ اپنے شوہر کے پیچھے چلنا پسند کرتی ہے ۔ لیکن پسند کی شادی میں ، عورت ہر میدان میں آگے رہنے پر کمر بستہ رہتی ہے ۔

   ٭۔ضدی عورتیں اپنی شادیوں میں بلکہ شوہر کے ساتھ اپنے تعلقات میں بھی ناکام ہو جاتی ہیں۔ ایسی خواتین جو شوہر کے جذبات کا خیال نہیں رکھتیں، اور معاملات میں لچک نہیں رکھتیں ، ان کی شادیاں مکمل ناکام ہوجا تی ہیں ۔ بلکہ ان کی زندگیاں بھی ناکام ہو جاتی ہیں ۔ کیوں؟

 ٭۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنی انا کی جنگ لڑتی رہتیں ہیں ، شوہر پر قابو پانے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ اس جنگ میں ہمیشہ وہ ہار جاتی ہیں،وہ کبھی یہ جنگ نہیں جیت سکتیں ۔ کیونکہ مرد ضد کرنے والی بیوی کے سامنے اور زیادہ ضدی ہو جاتے ہیں ، اور وہ ایک نرم اور فرمانبردار عورت کے سامنے بہت زیادہ نرم ہو جاتے ہیں۔
٭۔ایک ضدی عورت سوچتی ہے کہ وہ اپنی رائے پر اصرار کر کے جیت جائیگی ، اور وہ کسی بھی مخالفت کا سامنا کر لیگی ۔ جبکہ وہ یہ بھول جاتی ہے کہ یہ جنگ وہ اپنی ضد اور زبان سے جیت بھی جائے تو وہ اس دل سے محروم ہو جائیگی جو اسے پیار کرتا تھا اور اس کی فکر میں لگا رہتا تھا۔
٭۔تمام ثقافتوں اور حکمتوں میں ایک آسان ، نرم ، ہمدرد ، صابرہ اور در گذر کرنے والی عورت کی تعریف کی گئی ہے ۔ یہاں تک کہ بڑے بزرگوں نے ایسی عورت کی تعریف کی ہے جو اپنے شوہر کا احترام کرتی ہے اور نرمی اور حکمت کے ساتھ بولتی ہے ، اور اس کے نتیجے میں وہ اس سے ہمیشہ محبت کرے گا اور اسے کبھی دور نہیں جائیگا۔

٭۔وہ عورت جو اپنے شوہر کی بات مان لیتی ہے اور طوفان کے گذرنے تک صبر کرلیتی ہے وہ عقلمند عورت ہے ، اپنے کنبہ کو بکھرنے سے بچا لیتی ہے اور وہ عورت جو خشک چھڑی کی طرح بے لچک کھڑی ہوتی ہے وہ ٹوٹ جاتی ہے ، جسکا دوبارہ جڑنا ممکن نہیں ۔
٭۔سمجھوتہ نہ کرنے والی عورت اپنی رائے سے چمٹی رہتی ہے وہ مسلسل اپنی فتح کا وہم برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے: اس زعم میں رہتی ہے کہ میں جیت گئی اور آپ ہار گئے ، میں ٹھیک ہوں اور آپ غلط ہیں ایسی عورت دوسروں کو تباہ کرنے سے پہلے خود کو تباہ کر دیتی ہے اور وہ دنیا اور آخرت میں غمزدہ اور مایوسی کی زندگی بسر کرتی ہے چونکہ اسے پیار اور محبت چاہئے جو ہارا ہوا مرد نہیں دے سکتا اسکی زبانی جیت حقیقت میں اسکی زندگی کی ہار تھی- ازدواجی مشاورت کے لمبے تجربات میں، میں نے دیکھا کہ ضدی خواتین کی زندگی ہمیشہ مشکلات سے دو چار ہوتی ہے اور ان کی خاندانی اور معاشرتی زندگی ہمیشہ تلخیوں سے بھری رہتی ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭

٭۔ کزن میرج 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔