مرزا برجیس قدر کو میں ایک عرصے سے جانتا ہوں۔ ہر چند ہماری طبیعتوں اور ہماری سماجی حیثیتوں میں بڑا فرق تھا۔ پھر بھی ہم دونوں دوست تھے۔ مرزا کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جو کسی زمانے میں بہت معزز اور متمول سمجھا جاتا تھا مگر اب اس کی حالت اس پرانے تناور درخت کی سی ہو گئی تھی جو اندر ہی اندر کھوکھلا ہوتا چلا جاتا ہے اور آخر ایک دن اچانک زمین پر آ رہتا تھا۔ مرزا اس میں ذرا سی کوتاہی بھی نہ ہونے دیتا تھا۔ اس کے دل میں نہ جانے کیوں یہ خیال بیٹھ گیا تھا کہ خاندان ان کا وقار قائم رکھنے کیلئے درشت مزاجی اور تحکم لازمی ہیں۔ اس خیال نے اسے سخت دل بنا دیا تھا مگر یہ درشتی اوپر تھی اندر سے مرزا بڑا نرم تھا اور یہی ہماری دوستی کی بنیاد تھی۔ ایک دن سہہ پہر کو میں اور برجیس قدر انارکلی میں ان کی شان دار موٹر میں بیٹھے ایک مشہور جوتے والے کی دوکان سے سلیم شاہی جوتا خرید رہے تھے۔ مرزا نے اپنا ٹھاٹھ دکھانے کیلئے یہ ضروری سمجھا تھا کہ موٹر میں بیٹھے بیٹھے دکان کے مالک کو پکارے اور جوتے اپنی موڑ ہی میں ملاحظہ کرے۔ شہر میں ابھی مرزا کی ساکھ قائم تھی اور دکان دار عام طور پر اس کی یہ ادائیں سہنے کے عادی تھے چنانچہ جوتے والے نے اپنے دو کارندے مرزا کی خدمت پر مامور کر دیے مگر مرزا کو کوئی جوتا پسند نہیں آ رہا تھا اور وہ بار بار ناک بھوں چڑھا کر ان کارندوں کو سخت وست کہہ رہا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے مرزا کو دراصل جوتے کی ضرورت ہی نہیں اور یہ جھوٹ موٹ کی خریداری محض بھرم رکھنے کیلئے ہے۔
عین اس وقت ایک بڈھا بھکاری ایک پانچ سالہ لڑکی کے کندھے پر ہاتھ رکھے مرزا کی موٹر کے پاس آ کھڑا ہوا۔ یہ بڈھا اندھا تھا۔ لڑکی کے بالوں میں تنکے الجھے ہوئے تھے۔ معلوم ہوتا تھا مدت سے کنگھی نہیں کی گئی۔ دونوں کے تن پر چیتھڑے لگے تھے۔
” اندھے پر ترس کھاؤ بابا۔ بڈھے نے ہانک لگائی۔
” بابو جی میں بھوکی ہوں۔ پیسہ دو۔” لڑکی نے لجاجت سے کہا۔
مرزا نے ان لوگوں کی طرف توجہ نہ کی۔ وہ بدستور جوتوں پر تنقید کرتا رہا۔ اندھے فقیر اور لڑکی نے اپنا سوال دہرایا۔
اس پر مرزا نے ایک نگاہ غلط انداز ان پر ڈالی اور کہا۔ معاف کرو۔ معاف کرو۔
بھکاری اب بھی نہ ٹلے۔ بابو جی رات سے کچھ نہیں کھایا۔ اندھے نے کہا۔ بابو جی بڑی بھوک لگ رہی ہے، پیٹ میں کچھ نہیں لو دیکھو۔
بچی نے کہا اور جھٹ میلا کچیلا کرتا اٹھا کر اپنا پیٹ دکھانے لگی۔ لاغری سے بچی کی پسلیاں باہر نکلی ہوئی تھیں اور گنی جا سکتی تھیں۔
” بس ایک پیسے کے چنے بابو جی”
مرزا کو اس لڑکی کا میلا میلا پیٹ دیکھ کر گھن سی آئی۔
توبہ توبہ اس نے بے زاری کے لہجے میں کہا۔
بھیک مانگنے کیلئے کیا کیا ڈھنگ رچائے جاتے ہیں۔ جاؤ جاؤ بابا خدا کیلئے معاف کرو۔ ۔
مگر فقیر اب بھی نہ گئے۔ قریب تھا کہ مرزا غصے سے بھنا جاتا مگر یہ تماشہ اسطرح ختم ہو گیا کہ مرزا کو اس دکان دار کا کوئی جوتا پسند نہ آیا اور وہ اپنی موٹر وہاں سے بڑھا لے گیا۔
اس واقعے کے چند روز بعد میں اور مرزا برجیس قدر شہر کے ایک بڑے سینما میں ایک دیسی فلم دیکھ رہے تھے۔ فلم بہت گھٹیا تھی، اس میں بڑے نقص تھے مگر ہیروئن میں بڑی چنک منک تھی اور گاتی بھی خوب تھی۔ اس نے فلم کے بہت سے عیوب پر پردہ ڈال دیا تھا۔ کہانی بڑی دقیانوسی تھی۔
اس میں ایک واقعہ یہ بھی تھا کہ بنک کے چپڑاسی کو اس الزام میں کہ اس نے بنک لوٹنے میں چوروں کی مدد کی، پانچ سال قید کی سزا ہو جاتی ہے۔ اس چپڑاسی کی بیوی مر چکی ہے مگر اس کا ایک چار سالہ بیٹا ہے جو اپنی بوڑھی دادی کے پاس رہتا ہے۔ چپڑاسی کے قید ہو جانے پر یہ دادی پوتا بھوکوں مرنے لگتے ہیں۔
ادھر کوٹھڑی کا کرایہ نہ ملنے پر مالک مکان انہیں گھر سے نکال دیتا ہے۔ بڑھیا پوتے کا ہاتھ پکڑ کا بازار میں بھیک مانگنے لگتی ہے۔ وہ ہر راہگیر سے کہتی ہے۔
” بابو جی ہم بھوکے ہیں۔
” ایک پیسے کے چنے لے دو بابو جی۔ لڑکا کہتا ہے۔
جب فلم اس مقام پر پہنچی تو مرزا برجیس قدر نے اندھیرے میں مجھ سے کہا۔ بھیا ذرا اپنا رومال تو دیتا، نہ جانے میرا کہاں گر گیا۔ میں نے اپنا رومال دیدیا۔ جب تک تماشہ ہوتا رہا میں نے مرزا کو سخت بے چین دیکھا۔ وہ بار بار کرسی پر پہلو بدلتا اور ہاتھ چہرے تک لے جاتا۔ خدا خدا کر کے فلم ختم ہوئی تو میں نے دیکھا وہ جلدی جلدی آنکھیں پونچھ پونچھ رہا ہے۔
” ایں، مرزا صاحب! میرے منہ سے بے اختیار نکلا آپ رو رہے تھے۔
نہیں تو۔ مرزا نے بھرائی ہوئی آواز میں جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔ ”
آنکھوں کو ذرا سگریٹ کا دھواں لگ گیا تھا اور بھئی میں یہ سوچ رہا ہوں کہ سرکار ایسے دردناک فلم دکھانے کی اجازت کیوں دیتی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں