Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 16 مئی، 2017

خوانین کی داستان کے ابواب !

 ⁠⁠⁠⁠⁠سیاست دانوں ، بیوروکریٹس اور ملٹری کریٹس کے خوانین کی داستانیں ۔۔۔۔۔ ..
  اُن گواہان سے منسوب ہیں ، جومحلوں کی  راہداریوں میں ، مشروب کی ٹرے اُٹھائے گھومتے تھے ، جونہی " کوئی ہے ؟" کی آواز گونجتی ، یا دھیمے سُروں میں جلترنگ جیسی گھنٹیاں بجتیں ، یہ پلک جھپکنے میں چراغ کے  جن کی طرح نظریں نیچے کئے نمودار ہوتے ،کنکھیوں سے گوری چمڑی والی دلرُباؤں کو دیکھتے ، سرد آہیں بھرتے اور واپس دبیز پردوں کے پیچھے غائب ہوجاتے ۔ اور جونہی پردہ گرتا اور نئے کردار نمودار ہوتے ۔ تو یہ چشمِ دید گواہان کی لمبی فہرست کی لائنوں میں موجود ہوتے ۔ (مہاجرزادہ) 
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اقلیم اختر کا تعلق ، گجرات کے ایک گاؤں کی امیر زمیندار فیملی سے تھا ، کم عمری میں اُس کی شادی ایک پولیس آفیسر انسپکٹر رضا  سے ہوئی جس سے وہ چھ بچوں کی ماں بنی ۔ اقلیم اختر ، افسانوں کی دنیا میں رہنے والی لڑکیوں کی طرح تھی اور جدّت پسندی کی طرف مائل لیکن شوہر کی خواہش تھی کہ وہ پنجاب کی گھریلو عورتوں کی طرح وقت گذارے
خوبصورت اقلیم اختر کے بچے بھی اللہ کے قانون کے مطابق سرخ و سفید رنگت لئے خوبصورت پیدا ہوئے ، جن میں ماں کاعکس زیادہ اور باپ کا کم تھا ۔ 
برقعہ پوش رانی اپنے شوہر کے ساتھ مال روڈ پنڈی پر والک کر رہی ےھی جہاں وہ چھٹیاں منانے آئے تھے ۔ اقلیم اختر سے دو قدم پیچھے اُس کا شوہر چل رہا تھا کہ ہوا کے ایک جھونکے نے اُن کی زندگی کو ایک ایسے دوراہے پر لا کر کھڑا کر دیا جہاں سے راہیں الگ ہوجاتی ہیں ،
" ہوا کا وہ جھونکا جس نے میرا نقاب اُلٹا اور میرے سخت گیر شوہر کا دماغ ، اُس کے پڑنے والے تھپّڑ نے مجھ میں چھپا ہوا وہ لاوہ اُبل دیا جو شادی کے بعد سے میرے اندر جوالا مکھی بن چکا تھا ، میں نے نقاب کھینچ کر اتارا اور مال روڈ کے فٹ پاتھ پر پٹخا اور عبایا کو جسم سے اتار کر نزدیک کوڑا کرکٹ والے جلتے ہوئے آتش دان میں ڈال دیا ۔ اور تن کر شوہر کے سامنے کھڑی ہوگئی " کینسر سے جنگ لڑتی بسترِ مرگ پر ، اقلیم اختر نے انٹرویو لیتے ہوئے جنگ گروپ کے مقصود بٹ کو بتایا ۔
" میری شدت سے خواہش جاگی کہ میں اپنے شوہر کا مفلر چندی چندی کر دوں اُس کے چہرے پر اپنے ناخنوں سے خراشیں ڈالوں ، اُس کے بال اُس کے سر سے اکھیڑ ڈالوں اور جو کچھ بُرا اُس سے کر سکتی ہوں کروں ۔ لیکن ہم مال روڈ پر تھے اور لوگوں کی نظریں ہماری طرف اُٹھ رہی تھیں ، ہم ہوٹل میں واپس ہوئے ، میں باپ کے گھرآگئی اور وہ اپنے گھر چلا گیا اور پھرہماری طلاق ہوگئی ۔
پھر میں مرد ذات کے مقابل اُسے نیچا دکھانے کھڑی ہوگئی ، پولیس آفیسر کی بیوی ہونے کی وجہ سے مجھے معلوم تھا کہ میرا شوہر پارسا نہیں ، تو پھر وہ کیوں صرف نقاب اُٹھنے پر میری پارسائی پر شک کرتا ؟ میں نے پولیس آفیسروں اور فوجی آفیسروں کی اِسی  کمزوری کو اپنا ہتھیار بنایا ، بدکردار ! آفیسروں کی پارساء بیویاں ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں ، ملٹری کریٹس ، بیوروکریٹس اور سیاست دانوں میں ایسے بہت ماسٹر پیس ہیں ۔ جنھیں بیوی پارسا اور دوست بد کردار چاھئیے ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی حرامزدگیاں کوئی نہیں جانتا "
1965 میں گجرات میں ہونے والی ایک تقریب میں گجرات کی اقلیم اختر کی ملاقات بریگیڈئر آغا محمد یحییٰ خان سے ہوئی جو دوستی میں تبدیل ہوگئی ۔ اقلیم اختر کا گھریلونام باپ نے رانی رکھا تھا ۔ قریبی تعلقات کی بناء پر وہ جنرل آغا محمد یحٰی خان کو “آغا جانی“ کے نام سے پکارتی تھی اور جواباً وہ اقلیم اختر کو " رانی" کے نام سے پکارتا ۔ 
بقول یحییٰ خان :  میں رانی کے خاندان کو اُس وقت سے جانتا ہوں جب میرے ولد آغا سعادت علی کی بطور ایس پی گجرات پوسٹنگ ہوئی۔ یہ بہت عرصہ پہلے کی بات ہے۔ رانی میری بہن کی طرح ہے  
           اِن تعلقات کی بنیاد پر وہ نہایت مقبول اور انتہائی اختیارات کی حامل شمار ہوتی تھی، کیوں کہ سارے بیوروکریٹس اور ملٹری کریٹس کی پوسٹنگ ، پروموشن ، غیر ملکی تعیناتی ، صدراتی آفس سے اقلیم اختر کے ذریعے ہی ہوا کرتے تھے یوں اقلیم اختر پاکستان کی سب سے بااختیار شخصیت بنتی گئی ۔
حاسدوں اور بہی خواہوں نے اُس کا کوڈ ورڈ " جنرل رانی " مشہور کر دیا ۔ اُس کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا، مگر پھر بھی اسے سرکاری پروٹوکول دیا جاتا تھا۔ 
سیاست دانوں ،  بیوروکریٹس اور ملٹری کریٹس  کے گرد شکاری عورتوں کا ہجوم رہتا ہے ،  جو اپنے رزق کی تلاش میں اُن کے ارد گرد منڈلاتی ہیں  اور لوگوں کے کام کرواتی ہیں ۔ حال ہی میں  عمران خان جب عمرے سے واپس آئے تو   حاجی صاحب کی ایسی ہی سیلفی بہت مشہور ہوئی ۔
 اقلیم اختر کی واحد مخالف ملکہءِ ترنم نورجہاں تھی ۔
 عدنان سمیع خان، کے خاندان کا اصل تعلق افغانستان سے ہے۔اُس کے پردادا جنرل احمد جان ، افغان بادشاہ  عبدالرحمٰن خان کے ملٹری ایڈوائزر تھے ، اور اُس کے دادا  جنرل محفوظ خان کابل، ہرات، جلال آباد اور بلخ کے گورنر تھے۔ بچہ سقہ کے دور میں برا وقت شروع ہوا تو انہیں افغانستان چھوڑنا پڑا۔عدنان کے والد ارشد سمیع خان پاکستان ایئرفورس میں اسکوارڈن لیڈر تھے اور بیسٹ فائٹر پائلٹ لینے والے پہلے نوجوان پائلٹ تھے ۔ 1965ءکی پاک بھارت جنگ میں ستارہ جرات بھی حاصل کیا۔ شاہ حسین، شاہ ایران اور ترکی سے اپنی کارہائے نمایاں کی وجہ سے، ملٹری میڈل فارہانر لیا ۔ اور بعد از مرگ 2009 میں ستارہءِ امتیاز سے نوازے گئے !
1942میں پیدا ہونے والے، ارشد سمیع خان 1966ء سے 1972ء کے دوران صدر ایوب خان، صدر یحییٰ خان اور صدر ذوالفقار علی بھٹو کے اے ڈی سی رہے۔ 
 اقلیم اختر کی بہن کی بیٹی نورین کی  شادی ارشد سمیع خان سے 1967 میں ہوئی جب وہ ایوب خان کے اے ڈی سی تھے-شادی میں بیگم ایوب خان نے شرکت کی ، نورین  بڑٹش پاسپورٹ ہولڈر  اور انڈین نیشنل تھیں۔ دو بیٹے ہوئے عدنان   سمیع خان اور جنید سمیع خان  ۔
1973 میں ڈیفینس فورسز کے کوٹے پرفارن سروس میں آ گئے۔ چھٹی لیکر بیرون ملک چلے گئے۔ کئی سال بعد واپس آکر دوبارہ فارن سروس جوائن کرلی۔  چیف آف پروٹوکول بنے ۔
https://tribune.com.pk/story/538973/adnan-sami-khans-brother-also-likes-to-sing/


 1989ء میں کینسر کا شکار ہوئے تو وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے  ، اِنہیں خصوصی جہاز میں لندن کے کرامویل ہسپتال  بھجوایا جہاں ان کا سرکاری خرچ پر برطانیہ سے علاج کرایا۔ بعد میں وفاقی سیکرٹری کلچر بھی بنےاور 1990 میں ریٹائر ہوئے  اور 1993 میں بطور ایسٹونیا  کے پہلے سفیر تعینات ہوئے اورپھر 20 سال تک پاکستان کی طرف سے دس مختلف ممالک میں سفارت کاری کے فرائض انجام دیتے رہے ۔


فخر عالم، پاکستان کے مشہور پاپ گلوکارکی والدہ،عروسہ عالم جو پاکستان کی ایک نامور ڈیفینس صحافی ہے ۔ اقلیم اختر کے بطن سے پولیس آفیسر کی  اِس بیٹی نے بھی  اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کی ۔ چند سال پہلے بھارتی پنجاب کے چیف منسٹرارمیندر سنگھ کی انٹرویو کے دوران دوست بن گئی اور  بھارت میں مقیم ہے ۔ جیسے ریحام خان نے انٹرویو کے دوران عمران خان سے دوستی کی حدیں عبور کر کے دلہن بن کر اپنے بچوں کے بغیر راج محل میں جاپہنچی ۔
 بھارتی میڈیا میں یہ خبریں بھی شائع ہوئیں کہ  کیپٹن ارمیندر سنگھ نے عروسہ عالم سے شادی کرلی ہے،  لیکن سابق مہاراجہ پٹیالہ کے بیٹے  ارمیندرسنگھ کی بیوی مہارانی پرنیت کور کا کہنا ہے کہ سکھ مذہب کے مطابق ارمیندر سنگھ کی واحد قانونی بیوی ان کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ عائلی قوانین  کی چھتری کی وجہ سے ۔قانونی بیویاں تو پاکستان میں بھی ایک ہی ہوتی ہے   ، باقی سب سرکاری بیویاں ہوتی ہیں جو سرکاری محفلوں میں جانے کے لئے بیوی کے فرائض انجام دیتی ہیں ۔ رہی شراب اور شباب اِس کے بغیر حکمرانی کا کیا فائدہ ! چالیس اور 90 بیویوں کا ریکارڈ تو 1400 سال سے تاریخی کتابوں میں موجود ہے ۔ بر صغیر کے بادشاہوں ، ترکہ و مصر کے سلاطین نے تو اِس ریکارڈ میں ناقابلِ  یقین حد تک اضافہ کیا ۔ رہی تین دن کی بیویاں وہ تو اب بھی متاع  ،  شیعہ شریعت ہے ۔

  عروسہ عالم رشتے میں عدنان سمیع خان کی خالہ ہیں۔ بھانجے نے 2001ء اور خالہ نے 2006 میں پاکستان چھوڑا تھا لیکن اس وقت جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے ان سے کوئی سوال نہیں پوچھا کیونکہ اس خاندان کے طاقتور بیورو کریٹس،  ملٹری کریٹس اور سیاست دانوں سے گہرے تعلقات تھے۔ 
عدنان سمیع خان کی پہلی شادی، یحییٰ بختیار کی بیٹی، زیبا بختیار سے ہوئی جو ایک بیٹے کے بعد طلاق پر ختم ہوئی عدنان سمیع نے پاکستان چھوڑ دیا۔ عدنان سمیع خان کے والد ارشد سمیع خان علاج کے لئے امریکہ چلے گئے تھے اوروہاں سے بیٹے کے پاس انڈیا آگئے 22 جون 2009کو ان کا انتقال ممبئی میں ہوا تھا۔ ارشد سمیع خان کی کتاب ”تھری پریذیڈنٹس اینڈ این ایڈ“ بھارت میں شائع ہوئی تھی۔ارشد سمیع خان نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ 1970ء کے انتخابات صاف اور شفاف نہیں تھے۔
 خان عبدالقیوم خان، صبور خان اور مولانا بھاشانی سمیت کئی سیاست دانوں میں رقوم تقسیم ہوئیں لیکن انتخابات میں عوامی لیگ کو اکثریت ملی تو یحییٰ خان غصے میں آ گئے اور انہوں نے اپنے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جنرل غلام عمر (اسد عمر اور زبیر عمر کا باپ) سے کہا کہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے نتائج مختلف ہونے چاہئیں لیکن جنرل عمر کچھ نہ کر سکے۔ 
اس الیکشن میں یحییٰ خان نے راولپنڈی میں سائیکل کے نشان کے سامنے مہر لگائی اور ارشد سمیع خان سے بھی سائیکل پر مہر لگوائی۔
اے ڈی سی، ارشد سمیع خان سکواڈرن لیڈر،  نے یہ بھی لکھا ہے کہ کس طرح وہ ڈھاکہ کے پریذیڈنٹ ہا
س میں رات کو تمام روشنیاں بجھا دیتے تھے اور پھر صدر پاکستان کو اپنی گاڑی میں دیگر سٹاف کی نظروں سے بچا کر ڈانس پارٹیوں میں لے جاتے۔ جہاں صدر صاحب "تمام رات" عورتوں کے ساتھ ناچتے رہتے تھے اور علی الصبح ارشد سمیع خان اپنے باس کو واپس پریذیڈنٹ ہاؤس  میں لے آتے. (کیوں کہ اگر وہ یہ نہ کرتا تو ، ذلت کی زندگی گذارنا پڑتی !) ، جبکہ پریذیڈنٹ ہاؤس انٹیلیجنس ایجنسیوں سے بھرا ہوتا تھا ۔

ارشد سمیع خان نے لکھا ہے کہ جب انہیں حمود الرحمان کمیشن کے سامنے بلایا گیا اور یحییٰ خان سے ملاقاتیں کرنے والی عورتوں کے بارے میں پوچھا گیا تو ارشد سمیع خان نے لاعلمی ظاہر کر دی۔
جسٹس حمود الرحمان نے ان سے پوچھا کہ کیا یحییٰ خان کثرت شراب نوشی کا شکار تھے تو ارشد سمیع خان نے نفی میں جواب دیا۔ ارشد سمیع خان کی اس لاعلمی کے باوجود حمود الرحمان کمیشن نے یحییٰ خان کے بارے میں بہت سے ثبوت اور حقائق حاصل کرکے اپنی رپورٹ میں شامل کر دیئے۔کمیشن کی رپورٹ کے باوجود یحییٰ خان پر کوئی مقدمہ نہ چلا جنرل ضیاءالحق نے انہیں رہا کر دیا، جیسے جنرل راحیل شریف نے جنرل پرویز مشرف کو ملک سے باہر نکلوایا ۔
ارشد سمیع خان نے اپنی کتاب میں اپنے ستارہ جرات کا بڑے فخر سے ذکر کیا ہے۔         

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔