ہم بہتر سالوں سے ایک گول چکر میں محو سفر ہیں۔
شاید نئی نسل کو یاد نہ ہو تو آئیں اُس گول چکر کے تھوڑی دیر کے لئے مسافر بنتے ہیں ۔٭۔میر جعفر کا پڑپوتا ، اسکندر مرزا لیاقت علی خان کا ہمراز تھا۔
٭۔قائد ملت نے حسین شہید سہروردی کو کتا اور بھارتی ایجنٹ کہہ کر اسے پاکستان کے پہلے غداری ایوارڈ سے نوازا۔
٭۔دو
سال بعد لیاقت علی خان کو قائد ملت سے شہید ملت بنا دیا گیا، ایسا ضرب
کاری کے قاتل کا نشان تک مٹا دیا گیا۔ایوب خان اسی اسکندر مرزا کا دست بازو
تھا ۔دونوں نے ملکر ہر سویلین وزیر اعظم کو غدار اور کرپٹ ثابت کیا، آخر
کار ہمہ یاراں برزخ نے آئین اور جمہوریت کی لکیر ہی ختم کی۔
٭۔بیس دن
بعد اسی لاڈلے ایوب خان نے اپنے محسن اسکندر مرزا کا تختہ الٹا، اسکندر
مرزا اور ناہید مرزا کو انتہائی ذلالت کے ساتھ ملک بدر کیا۔سلطنت برطانیہ
اس وقت بھی معتوب لوگوں کی آخری پناہ گاہ تھی ۔اسکندر مرزا لندن میں
انتہائی کسمپرسی کی حالت میں مر گیا' یحییٰ خان نے اس کی لاش پاکستان لانے
کی اجازت نہ دی ، ناہید مرزا کے ذاتی تعلقات کام آئے اور تہران میں قبر کے
لئے دو گز زمین ملی ۔یاد رہے اسکندر مرزا کے مارشل لاء کے نفاذ میں یحییٰ
خان پیش پیش تھے۔
٭۔جس
وقت فیروز خان نون اور دیگر جمہوری رہنما ایوبی آمریت میں سیاست سے تاحیات
نااہل قرار دیئے جارہے تھے۔ اس وقت نوجوان ذولفقار علی بھٹو اسی ایوب خان
کے کابینہ میں وزرات کا حلف اٹھا رہے تھے۔
٭۔ جس وقت مجیب الرحمٰن زیر عتاب تھا اس وقت ذوالفقار علی بھٹو ایک لاڈلہ تھا ۔
٭۔ادھر ہم اُدھر تم کا نعرہ بلند کرنے والے بھٹو نے ، ادھر اور اُدھر کا انتظام کروانے کے بعد یعنی سقوطِ ڈھاکہ کے بعد اقتدار سنبھالا تو سب سے پہلے جنگی قیدیوں کو واپس لانے کا اہتمام کیا۔
جب نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) والے اور دیگر سیاست دان غداری کے گہری کھائی میں دھکیلے جارہے تھے اس وقت بھٹو کے حب الوطنی کا سورج نصف النہار پر تھا ۔
٭۔ آئین 1973 کے منظور ہونے کے بعد بلوچستان اور صوبہ سرحد(خیبر پختون خواہ) میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومتیں بن گئیں۔ محب وطن ذولفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں غدار عطا اللہ مینگل کی حکومت ختم کی ، اور وہاں گورنر راج نافذ کرکے محب وطن اگبر بگٹی کو گورنر لگوایا ۔
٭۔
اس وقت بزنجو ، سردار خیر بخش مری ،مینگل ، اچکزئی ، ولی خان اور مولانا
مفتی محمود سمیت سب غدار اور بھارت کے ایجنڈے پر کام کررہے تھے۔
٭۔لیکن
پھر اسی گول چکر میں بھٹو کے غدار بننے کی باری تھی کیونکہ اب نئے محب وطن
پیدا کئے جاچکے تھے، ایوب دور کے وزارت خارجہ سے لیکر آپنے دور کے وزرات
عظمیٰ تک کچھ بھی بھٹو کو تخت دار پر لٹکانے سے نہ بچا سکا۔
٭۔اس وقت وہ نہ صرف غدار اور قاتل ٹھہرے بلکہ اس کا ایمان بھی مشکوک ہوگیا، اس لئے مرنے کے بعد اس کے ختنے چیک کرنے پڑے۔
٭۔وقت کا دھارا بدلا ، آگے آگے غدار جیالے پیچھے پیچھے مسلم لیگی محب وطنوں کے بینڈ باجے۔آئی جی آئی بنی، نواز شریف نیا محب وطن ہیرو سامنے آیا۔
٭۔ مجیب الرحمٰن شامی کی " زندگی " ہو یا صلاح الدین کا "تکبیر" ہر وقت قومی سلامتی اور حب الوطنی کا درس دینے لگے۔
٭۔بھٹو چونکہ سندھ کا بیٹا تھا اس لئے اس کے گھر کے اندر بھی موسیٰ پیدا کرنا لازم تھا۔ اس مقدس کام کے لیے الطاف حسین کو چنا گیا۔ اندرونی سندھ سے سائیں جی ایم سید دوبارہ محب وطن قرار پایا۔
٭۔ الطاف حسین پر جب زندگی تنگ کردی گئی تو بگٹی نے اسے پناہ دی ، لیکن وہی بگٹی اسی الطاف حسین کے اتحادی حکومت میں مارا گیا۔
٭۔جس بھٹو اور بگٹی کے دور میں بلوچستان میں فوج کشی کی گئی ، وہ دونوں اسی فوج کے ہاتھوں مارے گئے ۔
"عجیب اتفاق ہے کہ ان کے جنازوں کا منظربھی ایک جیسا تھا "
٭۔الطاف
حسین اور اس کی جماعت مشرف کے دربار سے حب الوطنی کا نیا سرٹیفکیٹ لےکر
غداری کے فتوے تقسیم کرنے لگے، الطاف بھائی بات بات پر پاک فوج کے حق میں
ریلیاں نکلواتے ایک اشارے پر پورے شہر کو بند کرواتے۔
٭۔لیکن آخر کار تین دہائیوں تک مقرب فرشتوں کے لئے خدمات سر انجام دینے والے الطاف حسین کی ریٹائرمنٹ کا وقت بھی آپہنچا ،آج سلطنت برطانیہ میں گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا ہے، اس کے قریبی ساتھی بھی اس کا نام لینے سے کتراتے ہیں۔
٭۔ جب نواز شریف کے بھی پر نکل آئے
اور اس نے بھٹو کے بیٹی کیساتھ " میثاق جمہوریت " کیا۔
تو سامری جادوگروں نے عمران نیازی نامی ایک نئے بچھڑے کو تخلیق کیا۔
٭۔ آج غداری کے گول چکر میں نواز شریف اور اس کی پارٹی آگے آگے اور عمران نیازی اور اسے کے حواری ڈھول باجے اٹھائے پیچھے پیچھے جارہے ہیں۔
٭۔احمد فراز کے خلاف ضیاء الحق نے غداری کا فتویٰ جاری کیا تھا ، اس وقت نواز شریف ، خواجہ صفدر اور ان کے دیگر ساتھی اس بیانیے کے ترجمان تھے۔
٭۔ آج اسی فراز کا بیٹا مقدس فرشتوں کا ترجمان بن کر اسی نواز شریف اور ان کے ساتھیوں پر غداری کے فتوے لگا رہا ہے۔
ففتھ جنریشن وار والے لشکری یاد رکھیں ۔
یہاں غداری کی باری اپنی باری پر آتی ہے ۔
یہاں تاحیات حب الوطنی کا ٹائٹل صرف مقرب فرشتوں کے پاس ہے یا شیخ رشید جیسے گیٹ نمبر چار کے مجاور کے بغل میں۔
ان پیشہ ور لوگوں کے علاوہ یہاں سب کا انجام ایک ہی ہے۔
لہٰذا غداری کا ڈھولک بجاتے وقت ذرا پیچھے بھی مڑ کر دیکھا کریں۔
کہیں لائن میں کوئی نیا محب وطن ہیرو تو نہیں کھڑا ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں