بوڑھا ، گویا ہوا !
نوجوانو ! کچھ دنوں بعد ، لوہار کے بیٹے کو ایک اور درخواست ملی ،
" جنابِ عالی ! میرے پاس اِس شہر میں رہنے کو مکان نہیں ، بے گھر ہوں !"تو نوجوانو!
لوہار کا بیٹا پھر آب دیدہ ہو گیا ، اُس نے لوہار کو وہ درخواست پڑھائی ،
لوہار بھی آبدیدہ ہو گیا ، لوہار نے فیصلہ کیا ، کہ ٹڈّے کی طرح ہر شاخ پر
پُھدکنے والے ،اِس اداس و غمین و پریشان حال نوجوان کو گھر لازمی ملنا چاھئیے !
چنانچہ لوہار کی اجازت پر ، لوہار کے بیٹے نے ، اُس بے گھر نوجوان، کو گھر بنانے کے لئے ، صرف چار کنال کا پلاٹ دان کر دیا ۔
چنانچہ لوہار کی اجازت پر ، لوہار کے بیٹے نے ، اُس بے گھر نوجوان، کو گھر بنانے کے لئے ، صرف چار کنال کا پلاٹ دان کر دیا ۔
پہلی کہانی سنانے والے نوجوان نے بے ساختہ کہا " سراسر جھوٹ ہے ، وہ تو خود کروڑ پتی تھا ۔"
مردِ دانا و بینا نے ، نوجوان کی طرف دیکھا ، اور دل میں سوچا،
اچھل کود کی کمائی کھانے والا ، شراب و شباب پر اُڑانے والا ، وہ نوجوان کسی کا پتی نہیں بن سکا تو کروڑ پتی کیسے بنتا ؟
چنانچہ اُس نے بجائے اپنی سوچ کا اظہار کرنے ، داستان کو جاری رکھا !
نوجوانو ، آپ یہ سوچ رہے ہوگے ، کہ درخواست لوہار کے بیٹے کو کی جاتی ، تو لوہار بیچ میں کیسے آجاتا ؟ ہے نا حیرت کی بات !
شاید آپ کی مائیں آپ کو لے کر بچپن میں علیحدہ ہوگئی ، یا آپ کے دادا نے آپ کی ماؤں کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ، اِسی لئے آپ ایک مشرقی کنبے کے بارے میں کم جانتے ہو۔
شاید آپ کی مائیں آپ کو لے کر بچپن میں علیحدہ ہوگئی ، یا آپ کے دادا نے آپ کی ماؤں کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ، اِسی لئے آپ ایک مشرقی کنبے کے بارے میں کم جانتے ہو۔
ہمارا
مشرقی کنبہ ، جس میں اولاد چاہے دنیا کی نظروں میں کتنی ہی طاقتور یا
بااثر کیوں نہ ہوجائے ، اپنے باپ کو ہمیشہ اپنا سر پرست سمجھتی ہے اور باپ
خاندان کا سربراہ رہتا ہے ، جس کی ابرو کے معمولی سے اشارے پر اولاد اُس
محفل سے کھسک جاتی ہے ، جہاں باپ اُن کا موجود ہونا پسند نہ کرے !
وہ
ایسے خاندان کا سربراہ نہیں ہوتا ، کہ کینسر سے مرنے والی بیوی کی خواہش
پوری نہ کر سکتا ہو اور اکلوتا بیٹا ، صرف پیسوں نہیں بلکہ عورتوں کی
خاطر، ماں کے بستر مرگ کو چھونے بلکہ دفنانے تک نہ آسکتا ہو ۔
نہ نہ نوجوانو ! نہ ۔وہ معمولی لوہار ، ایک مشرقی قدروں کے ا مین
خاندان کا سربراہ تھا ، جس کے بیٹے ملک پر حکمرانی کرنے لگے تھے ، لیکن
اپنے کاروبار اور خاندان کو وہی چلا رہا تھا ۔اُس کے دونوں بیٹے ملکہ کے
اعلیٰ عہدیدار تھے ، لیکن اپنے خاندان کا وہی سرپرست تھا ، بیٹے اپنے باپ
کی سرپرستی میں بے فکر تھے ۔ اُس کے پوتے پوتیاں ، نواسے نواسیاں ، ہر چیز
اُس سے مانگتے ، وہ اُن کے لاڈ اُٹھاتا ۔ بیٹے اُس کے سامنے سر جھکاتے !
مغربی اقدار کے پرستاروں کو یہ بات چبھتی تھی ، کہ جن مشرقی اقداروں کو
اُنہوں نے مغربی اقدار پر قربان کر دیا وہ اُن کے ملک میں کیسے پنپ رہی ہیں
؟
تو
نوجوانو! اصل بات یہ ہے ، کہ لوہار نے ملکہ کا تاج ، ملکہ سے عوام کی
قوت سے خرید لیا تھا ، جس کی اُس کے نزدیک لوہے سے بھی کم قیمت تھی اور وہ
اُس نے اپنے پوتوں کو کھیلنے کے لئے دے دیا ۔
وہ نوجوان یاد ہے ، نا ؟
جو
درخواستیں اٹھائے پھرتا تھا! اُس نے پہلی بار مُلک میں نوجوانوں کو
گالیوں ، طعنوں ، جھوٹ اور ناچنے کی تربیت دینا شروع کر دی ۔ تاکہ مشرقی
ملک میں مغربی اقدار کے تسلط کو پھیلایا جائے ۔ جب اُس نے دیکھا کہ
اخلاقی قدروں کی کمزور لوگ اُس کے ارد گرد جمع ہو گئے ، تو اُس نے اپنے
محسن و مربّی پر الزام لگا دیا ، کیا ؟
" تاج ، لوہار کے بیٹے نے ، اپنی بیٹی اور داماد کی مدد سے چرایا "
" تاج ، لوہار کے بیٹے نے ، اپنی بیٹی اور داماد کی مدد سے چرایا "
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں