عبدالمنان ایک دکاندا ر تھا۔ یہ کپڑے کی دکان کر تا تھا۔ یہ ایک متوسط درجے کا خوشحال انسان تھا۔ اس کی شادی اوائل جوانی میں ہی ہوگئی تھی۔
یہ چونکہ فکر معاش سے آزاد تھا ۔ لہذا ہرسال ایک نو مسلم اس دنیا میں لانا اس نے اپنا شرعی، اخلاقی، قومی اور خاندانی فریضہ سمجھ لیا تھا۔ خاندانی فریضہ اِس طرح کے اُس کے بعد 12 بہن بھائی اِس دنیائے فانی میں تشریف لائے ۔
عبدالمنان کی زندگی ایک خوشگوار معمول کے مطابق گزرتی رہی۔ یہ اپنے بچوں اور بیوی سے بڑی محبت کرتاتھا۔ یہ ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا۔ یہ ایک خوش مزاج اور مزاح ی طبیعت کا انسان تھا۔ غصہ اِس کبھی چھو کر نہیں گیا تھا ۔ اس کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی تھی جو اس کی فطرت بھی تھی اور دکانداری مجبور ی بھی۔ کیونکہ غصیلے دکاندار کے تو آئی فون بھی نہیں بکتے۔
وقت گزرتا گیا۔ عبدالمنان کے بچے بڑے ہوگئے یہ نویں دسویں کلاس تک پہنچ گئے۔ یہ چونکہ کم عمری میں ہی شادی کرچکا تھا لہذا اس کی عمر بھی “کھیلنے کھانے” کی تھی۔ یہ وہ اہم مقام تھا جہاں سے عبدالمنان کی زندگی نے ٹریجک ٹرن لیا۔
یہ جب بھی اپنی بیوی کے پاس بیٹھتا ، یہ جب بھی اس سے کوئی رومانوی چھیڑ چھاڑ کرتا ۔ اس کی زوجہ اسے ڈانٹ دیتی۔
یہ جب بھی اپنی بیوی کے پاس بیٹھتا ، یہ جب بھی اس سے کوئی رومانوی چھیڑ چھاڑ کرتا ۔ اس کی زوجہ اسے ڈانٹ دیتی۔
” حیاکرو، بچے وڈّے ہوگئے نیں، تہانوں اپنے ای شوق چڑھے رہندے نیں"۔
عبدالمنان کی زندگی کے “معمولات” درہم برہم ہوگئے۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر طیش میں آ جاتا چنانچہ اس کا بلڈ پریشر ہائی رہنے لگا۔ اُس کے بچّے اس کے ڈر سے گھر میں سہمے رہتے ۔ اس کی دکانداری پر بھی اثر پڑنے لگا۔ یہ گاہکوں سے بھی الجھنے لگا۔ یہ معمولی باتوں پر تو تکار کرنے لگا۔ لوگ حیران تھے کہ عبدالمنان ، جو ایک خو ش مزاج اور جولی انسان تھا ، اس کی یہ حالت کیونکر اور کیسے ہوئی؟
یہی وہ المیہ ہے جو پاکستانی بابوں کو ڈیسنٹ بابے کی بجائے چاچا کرمو ٹائم پیس جیسے بابوں میں بدل دیتا ہے۔
یہی وہ المیہ ہے جو پاکستانی بابوں کو ڈیسنٹ بابے کی بجائے چاچا کرمو ٹائم پیس جیسے بابوں میں بدل دیتا ہے۔
یہ جیسے ہی ادھیڑ عمری کی منزل پار کرتے ہیں۔ ان کی زوجہ ، بیوی سے مزار کا روپ دھار لیتی ہے۔
اُس کے پاس سے اگربتیوں کی خوشبو اور قوالیوں کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔ اُس کے پاس بیٹھنا تو درکنا ر اس کی طرف پشت کرنا بھی بے ادبی شمار ہوتا ہے۔
یہ وہی بیوی ہوتی ہے جوشادی کے پہلے سال خاوند کے گھر آنے پر مور نی کی طرح “پیلیں” پارہی ہوتی تھی۔
اب یہ خانقاہ کا مجاور بن جاتی ہے ۔یہ بابے کی زندگی میں ایک ایسی “کسک” بھردیتی ہے جس کی وجہ سے بابا، کپتّا، سڑیل اور ٹھرکی ہوجاتا ہے۔
آپ کسی محلّے میں چلے جائیں ۔ آپ گلیوں میں تھڑوں پر بیٹھے بابوں کو چیک کرلیں۔ یہ سب زندگی سے بے زار بیٹھے ہوتے ہیں۔
آپ کسی محلّے میں چلے جائیں ۔ آپ گلیوں میں تھڑوں پر بیٹھے بابوں کو چیک کرلیں۔ یہ سب زندگی سے بے زار بیٹھے ہوتے ہیں۔
یہ ہر بچے کو جھڑکتے ہیں اور ہر بچّی کو تاڑتے ہیں۔
یہ بابے بے قصور ہیں۔ ان کی مائیوں نے ان کا یہ حال کیا ہے۔
آپ دبئی چلے جائیں، آپ بنکاک چلے جائیں۔ آپ ملائشیا چلے جائیں۔ آپ حیران رہ جائیں گے ۔ آپ دیکھیں گے کہ گورے مائیاں اور بابے کیسے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے سیریں کرتے ہیں۔
یہ سر عام “اظہار محبت” بھی کرتے ہیں۔یہ ایک دوسرے کی باہوں میں باہیں ڈالے عاشقی ٹُو جیسے سین بناتے ہیں۔
جبکہ پاکستانی بابوں کو یہ موقع تنہائی میں بھی نہیں ملتا۔ ان کی آخر ی عمر تبلیغی جماعت میں حوروں کی امید پر گزرجاتی ہے۔
جب تک ہم بابوں کے مسائل کو سمجھیں گے نہیں۔
جب تک ہم بابوں کے مسائل کو سمجھیں گے نہیں۔
جب تک ہم ان کو حل کرنے کے لیے ان کی مائیوں کو کنونس نہیں کریں گے۔
پاکستان کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔
خواہ ، بجٹ کا خسارہ ہویا لوڈشیڈنگ۔
ڈرون حملے ہوں یا کیبل پر انڈین چینلز۔
امن و امان کا مسئلہ ہو یا پرویز خٹک کی صحت۔
عائلہ ملک کی دوسری شادی ہو یا شہباز شریف کی چوتھی شادی ۔
کیوں کہ بابوں کے دماغوں میں اُٹھتے ہوئے بھانبڑ پر محبت کا عرقِ گلاب نہ چھڑکا جائے ۔
یہ بابے اپنے اپنے پروفیشن میں ماہر ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی مائیوں کی بے اعتنائی انہیں ہر چیز سے متنفر کرکے سڑیل اور کوڑا کردیتی ہے۔
یہ کچھ بھی نہیں کرسکتے یہ صرف تھڑوں پر بیٹھ کر سڑ سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بالا مضمون وٹس ایپ ہوا تھا اور جس نے وٹس ایپ کیا وہ تقریباً چالیس سالہ نوجوان ۔
حیرت ہوئی سوال کیا ،" لیکن نوجوان آپ تو ابھی بابے نہیں بنے ؟ "
" بنا تو نہیں البتہ بنا دیا گیا ہوں " جواب ملا
" بنا تو نہیں البتہ بنا دیا گیا ہوں " جواب ملا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں